دلوں کے اندھے……ھارون الرشید
اللہ کی کتاب ہی سچی ہے۔ فرمایا: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے نہیں‘ ہمارا واسطہ دلوں کے اندھوں سے آن پڑا ہے۔
پرویز خٹک نے کہا تھا: پیپلز پارٹی کا جھنڈا کسی کے گھر پہ لگا دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ وہ… کی اولاد ہیں۔ پھر کہا: میری مراد پوری پارٹی نہیں بلکہ ایک خاص شخص سے تھی۔ اس وضاحت سے جرم کی سنگینی کم ہوئی ہے یا اسے عذر گناہ بد تر از گناہ قرار دینا چاہئے؟ گمان کی بات ہے۔ حسنِ ظن یا بد گمانی کی۔
ایاز صادق ابھی تک خاموش ہیں۔ انہوں نے ہر اس پنجابی کو ”بے غیرت‘‘ کہا‘ جو عمران خان کو ووٹ دے۔ اخبار نویسوں کی تمام تر توجہ ”بے غیرت ‘‘ پر رہی۔ اتنا ہی زہریلا لفظ دوسرا ہے ”پنجابی‘‘۔ پلاسٹک کے بنے ایاز صادق کے بشرے پہ نہ کبھی پورا رنج ابھرتا ہے اور نہ سچی مسرت۔ کبھی پتا نہیں چلتا کہ اس آدمی کے دل میں کیا ہے ۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پختون خوا کے مکین اگر خان کو ووٹ دیں تو کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن کسی پنجابی کو یہ حرکت نہ کرنی چاہیے۔ کیا وہ پشتون پنجابی تعصب بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ہمارے اکثر لیڈر نیم خواندہ ہیں۔ ڈگری بٹورنے اور درس گاہوں سے نجات پانے کے بعد کتاب کا منہ وہ کبھی نہیں دیکھتے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے رئیس خاندانوں کے فرزند تو تعلیم گاہوں میں بھی کتاب سے بیگانہ رہا کرتے ۔ امتحان دینے کی زحمت دوسرے اٹھایا کرتے ۔ پڑھنے لکھنے کے عادی ہوں تو مزاجوں میں کچھ گداز‘ کچھ رچائو‘ تھوڑی سی نرمی آئے… کم از کم لفظ برتنے کا سلیقہ تو سیکھ سکیں۔ رانا ثناء اللہ کی طرح منہ پھاڑ کر یہ تو نہ کہیں کہ نواز شریف کی زیارت حج سے بڑی عبادت ہے۔
قرآن کریم‘ حدیث رسول‘ سیرت رسول اکرمؐ اور اسلام کی علمی روایت سے برائے نام آشنائی بھی ہو تو احمقانہ گفتگو سے گریز کریں۔ جعلی صوفیوںکے پھندے میں نہ پھنسیں۔ اللہ مغفرت کرے، محترمہ بے نظیر بھٹو تسبیح کیا کرتیں۔ تصوف کا ادراک مگر کتنا تھا ؟ ایک شب اپنی دو مرید خواتین کو ننگے پائوں پیدل چل کر دریائے راوی کا پل پار کرنے کا حکم دیا ۔ ایک پیر صاحب نے تعویز کے لیے شرط عائد کی تھی۔ جہلم کے ایک ”عارف‘‘ نے عمران خان کو یقین دلایا تھا کہ ستمبر 2014ء میں تخت پہ وہ براجمان ہو جائیں گے۔ انہیں ”شہادت یا آزادی‘‘ کا نعرہ لگانا چاہئے۔ فرمایا: پھر کابینہ میں تشکیل دوں گا۔ وزیر اعظم بننے کی تمنا میں شہباز شریف ایک بزرگ کے ہاں تشریف لے گئے تھے۔ مبلغ دس ہزار روپے ادا کرکے تعویز حاصل کیا تھا۔ حصولِ ”برکت‘‘ کے لیے ہزارہ کے بابا دھنکا سے چھڑیاں کھانے والے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت کئی ایک تھے۔
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خود فروشی‘ ناشکیبائی‘ ہوسناکی
بے شک بے خیالی ہی میں ‘بے شک نادانستہ طور پر سائرہ افضل تارڑ صاحبہ نے یہ کہا: اللہ تعالیٰ تجربات سے سیکھتا ہے‘ بندے بھی تجربات سے سیکھتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ وہ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘ جسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ‘ جس کا فرمان یہ ہے ”اس کے علم سے بندے کچھ حاصل نہیں کر سکتے‘ مگر جو وہ چاہے‘‘ جس کی شان یہ ہے ”اگر وہ نہ چاہے تو تم چاہ بھی نہیں سکتے‘‘۔ ”ھواللہ الذی لاالہ الا ھو الملک القدوس…‘‘۔ اس کے باب میں وزارت کے منصب پر فائز رہنے والی محترمہ یہ فرماتی ہیں۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ غیر حاضر دماغی کا شکار ہو گئی ہوں گی۔ ابھی ابھی وضاحت آئی ہے کہ زبان پھسل گئی تھی۔ اللہ کے ذکر میں؟ نواز شریف یا شہباز شریف کے تذکرے میں کیا اسی قدر پھسل سکتی ہے؟
ایک اشتہار کی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے ”عمران خان بدلیں گے پورا پاکستان‘‘۔ قوموں کی تقدیر کوئی ایک آدمی بدل سکتا ہے؟ اللہ کے آخری رسولؐ اپنا بیشتر وقت‘ جی ہاں بیشتر وقت، حیرت انگیز حافظے اور کامل یقین کے صحرا نشینوں کو تعلیم دینے‘ تربیت کرنے پہ کیوں صرف کیا کرتے؟ سحر سے شام اور شا م سے شب اترنے تک۔ وہ دمکتا ہوا سورج‘ جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ عرش بریں پر جو لے جائے گئے۔ بارگاہِ ایزدی میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلے پر۔ کتاب میں لکھا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ اشارۂِ ابرو پر زندگیاں نچھاور کرنے والوں کو ایک ایک بات آموختے کی طرح کیوں پڑھائی جاتی؟ سوال پہ سوال کرنے کو انہیں کیوں اکسایا جاتا؟ کم و بیش ہر نماز کے بعد۔ سفر میں‘ حضر میں۔ طلوعِ سحر سے پہلے کے جُھٹپٹے میں‘ سویرجب سانس لیتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد بھی رات جب امڈی آتی ہے کہ ریگ زاروں‘ کوہساروں‘ میدانوں‘ گھروں اور مکینوں کو ڈھانپ لے۔ ہمیشہ آپ سکھایا کرتے‘ ہمیشہ تلقین کرتے اور اس احتیاط کے ساتھ کہ ایک ایک لفظ گنا جا سکتا۔ اس طرح کہ ازبر ہو جائے، نقش ہو جائے۔ عمل میں ڈھلے‘ عادت ہو‘ پھر رفتہ رفتہ فطرتِ ثانیہ بن جائے۔ چار ہزار مرد اور خواتین، لگ بھگ چار ہزار اصحابؓ کی ایسی تربیت کر دی کہ ان کا عمل‘ ان کا قول اور ان کا لفظ ان کا عمل ہو گیا۔ تاریخ کے عظیم ترین حکمران‘ منتظم‘ عالم‘ جنرل‘ فقیہہ‘ مفکر‘ معلم اور وہ تاجر اٹھے کہ نورِ ہدایت میں گندھے‘ ان کے تیور ہمیشہ جڑے جمے ہی رہتے۔ تمام سرزمینوں نے گواہی دی‘ پہاڑوں‘ وادیوں اور سبزہ زاروں نے گواہی دی حتیٰ کہ خود خالقِ کائنات نے۔ ”وہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی‘‘۔ ”ایثار کرتے ہیں، خواہ تنگ دست ہوں‘‘۔ ”زمین پہ نرم روی سے چلنے والے‘‘۔ ”غصہ پی جانے والے‘‘… ”اور جب جاہل ان سے الجھیں تو وہ کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو‘‘۔
انس اور الفت کے ساتھ ان پہ نگاہ رکھی جاتی‘ حتیٰ کہ وہ خود اپنے سب سے بڑے نگران ہو گئے۔ فرمایا: ان کے دلوں میں کوئی ادنیٰ خیال پھوٹے تو وہ چونک اٹھتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ وہ آدمی جو کال کوٹھڑی کے فرش پہ رسوا اور لاچار پڑا ہے یا دوسرے لیڈر۔ اس خاتون کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے‘ جس نے کسی سے مشورہ نہ کیا، جو سر تا پا خواہش‘ سر تا پا انتقام‘ سر تا پا دنیا پرست ہے۔ بعد ازاں جب وہ شکوہ سنج تھا‘ عرض کیا: اللہ کے بندے‘ شادی سے پہلے‘ اگر ایک فون کر لیتے؟ مجھے نہیں تو کسی اور کو؟
وکلا تحریک سرخرو ہو چکی تو نون لیگ کے ایک لیڈر نے میاں صاحب سے کہا: ایسے واقعات پیغمبروں کے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی اسے یاد نہ رہا کہ نواز شریف کے پاکستان آنے سے پہلے یہ تحریک دلوں میں اتر چکی تھی۔ 83 فیصد پاکستانیوں نے تائید کر دی تھی۔ نواز شریف جس دن باہر نکلے، فوجی قیادت اور سیاسی پارٹیوں کی اکثریت ججوں کی بحالی پر آمادہ تھی۔
شخصیت پرستی کی حد ہے۔ یک رخے پن‘ بے حسی اور کور چشمی کی انتہا ہے کہ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کو ہر آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے‘ آصف علی زرداری کی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ فوج کی مداخلت اور عمران خان کی ناتراشیدگی پر وہ واویلا بن جاتے ہیں‘ احتجاج کا جھکّڑ۔ دنیا بھر میں پھیلی زرداری اور نواز شریف کی جائیدادوں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ فقط دھڑے بندی نہیں‘ جہالت بھی ہے‘ جو کور چشم بنا دیتی ہے‘ نابینا کر دیتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پارسا ہیں کہ پھانسی چڑھ گئے۔ گالی فقط فوجی آمر کو دی جائے گی کہ جمہوریت کے رقص میں جوش و خروش باقی رہے۔ تمام ذہانت و فطانت کے با وصف بھٹو کیا تھے؟ ان کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا کہ لکھنے کے لیے عمران خان کی مطلقہ سے بہت زیادہ بے باکی درکار ہو گی۔
شخصیت پرستی جہالتِ محض نہیں ہے۔ ایک اعتبار سے ایمان سے دستبرداری بھی۔ بندے کی خدائی تسلیم کرنا ہے۔ سطحیت بھی ہے اور دریوزہ گری بھی۔اللہ کی کتاب ہی سچی ہے۔ فرمایا: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے نہیں‘ ہمارا واسطہ دلوں کے اندھوں سے آن پڑا ہے۔