دل سنبھالے رہو زباں کی طرح…ہارون الرشید
جرأت مندی بڑا وصف ہے‘ ادبار میں مگر احتیاط اور حکمت ہی ڈھال ہوتی ہے۔ ابتلا میں غوروفکر زیادہ چاہیے ‘ اظہار خیال کم۔
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
بھارت نے جھک ماریمگر وزیراعظم پاکستان نے بھی الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کارگاہِ حیات میں صبر بھی ایک چیز ہے‘ حکمت بھی کسی شے کا نام ہے۔ بعض اوقات عمران خاں خود بھی کہتے ہیں ”اپنی انا کو پال کر‘ خدمت کاحق ادا نہیں کیا جا سکتا‘‘ دانا کو اپنا مقصد عزیز ہوتا ہے‘ اپنی ناک نہیں۔ دنیا اندھی نہیں کہ آپ سچے ہوں اور وہ آپ کو جھوٹا سمجھتی رہے۔ سچائی آخرکار غالب آتی ہے۔ بھارت تلخی بڑھانے پر تلا ہے۔ ہمارا مقصد کیا ہے؟ یہ کہ آگ نہ بھڑکنے دی جائے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے منصب سنبھالا تو سرحدوں پہ گولہ باری بے محابہ تھی۔ اس اخبار نویس نے تشویش ظاہر کی تو جنرل نے کہا کہ کوئی دن میں شعلے بجھ جائیں گے۔ پسِ پردہ کیا ہوا‘ اللہ جانتا ہے‘ چند روز میں سرحدوں پہ سکون لوٹ آیا۔ جنرل کی شہرت ایک اچھے حکمت کار کی ہے۔
پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں پھنسے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی عنایت سے قبائلی پٹی‘ کراچی اور بلوچستان میں تخریب کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم قصوروار ہیں یا نہیں‘دنیا ہم سے ناخوش ہے۔ سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں اور بری طرح۔ اس کا بہترین مظہر سوشل میڈیا پر نون لیگ اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی گالم گلوچ ہے۔ اخبارات اور چینلوں پر بھی اس تلخی کے اثرات ہیں۔ بعض لیڈر سرحد پار دیکھتے ہیں۔الیکشن سے پہلے دیا گیا‘ محمود اچکزئی کا بیان ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہے جس میں پختون خوا کو عالی جناب نے افغانستان کا حصّہ قرار دیا تھا۔ حالات سے فائدہ اٹھا کر غیرملکیوں نے پاکستان میں رستے بنا لیے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں اور میڈیا میں بھی ۔ امریکہ اور یورپی ممالک ہی کیا‘ انتہا یہ ہے کہ اسفند یارولی اور اچکزئی کے سوا بھی بھارت کے گیت گانے والے اب موجود ہیں۔ این جی اوز ایک الگ لعنت ہیں۔ظاہر ہے کہ جس کا کھاتے ہیں اسی کے گُن گاتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر معیشت کی تباہ حالی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے حکمران نے لوٹ مار کی ہے۔ قوموں کی آزادی کا بیشتر انحصار اس پہ ہوتا ہے کہ مالی طور پر وہ دست نگر نہ ہوں۔ ہاتھ میں کشکول ہو تو خودداری کیسی۔ ساٹھ فیصد معیشت کالی ہے ۔ ایسے تین چوتھائی لوگ ٹیکس نہیں دیتے جن پر ٹیکس واجب ہے؛ چنانچہ ریاست کمزور ہے۔ حکومت فی الحقیقت حکومت ہی نہیں۔ قانون پوری قوّت سے بروئے کار نہ آ سکے تو یہی ہوتا ہے۔
خطّے پہ نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ اس وقت بھارت بات چیت نہیں چاہتا۔سب سے بڑا سبب تو کشمیر ہے جہاں حالات اب کبھی بھارت کے قابو میں نہیں آئیں گے۔ بغاوت کی آگ دلوں کی گہرائی میں اتر کر ایک مستقل شعار بن چکی۔1971ء کے بعد دلّی کوہمیشہ یقین رہا کہ پاکستان کو تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ جئے سندھ اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے لیے بے دریغ بھارتی امداد اسی طرزِ فکر کا شاخسانہ تھی۔ 1980ء کے عشرے میں پونا سے ممبئی تک درجنوں کیمپوں میں جئے سندھ کے حامیوں کو تربیت دی جاتی۔بعدازاں الطاف حسین کے کارندوں کو بھی۔ بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری کے لیے افغانستان کو برتا جا سکے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں‘ انتہا پسند مذہبی جنونیوں اور پاکستانی طالبان کے عقب میں بھی بھارت کھڑا ہے۔ ان کا سب سے بڑا سرپرست وہی ہے۔ ہمارے ساٹھ ہزار شہری اور چھ ہزار سے زیادہ بانکے فوجی شہید ہوئے ہیں۔ امریکہ پہ ہم نے انحصار کیا اور اس کی قیمت چکائی ہے۔ حالات کا تقاضہ اب یہ ہے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھا جائے۔ نپولین نے کہا تھا: سیاست میں دشمن ہوتے ہیں یا حلیف‘ دوست کوئی نہیں ہوتا۔ داخلی سیاست سے زیادہ اس کلیے کا اطلاق قوموں کی باہمی آویزش پہ ہوتا ہے۔
امریکہ ناراض ہے اور بھارت برہم۔ ان کا صدمہ یہ بھی ہے کہ تجارتی راہداری نے پاکستان پر معاشی امکانات کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اللہ مہربان ہے۔ پاک فوج کی بے مثال کاوش نے تخریب کاری کو محدود کردیا ہے۔ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گرد پسپا ہیں۔ اللہ کے فضل سے تخریب کاری کے خلاف جنگ ہم جیت رہے ہیں۔ سلیقہ مندی سے ہم ڈٹے رہے اور حکمت سے کام لیا تو نہ صرف دلدل سے نکل سکتے ہیں بلکہ ایک منّور مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آخری مرحلے پر اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
2012ء میں عمران خاں ایک سیمینار کے لیے بھارت گئے۔ لوٹ کر آئے تو شاد تھے۔ مجھ سے کہا: بھارتیوں نے مجھے وزیراعظم کا پروٹوکول دیا۔ عرض کیا: مقصد اس کا واضح ہے۔ آپ کو اس پہ خوش گمان نہ ہونا چاہیے۔ ایک بہت مقبول کھلاڑی اور کرشماتی شخصیت کی حیثیت سے بھارت میں عمران خاں کا ہمیشہ خیرمقدم کیا گیا۔ بھارت پر اظہارِ خیال میں بھی ہمیشہ وہ محتاط رہے۔ ان کا واسطہ کرکٹ کے نامور کھلاڑیوں سے تھا یا بالی وڈ کی امیتابھ بچن اور شاہ رخ ایسی شخصیات سے ۔کرکٹ اور فلمی ستارے ممبئی میں گھلے ملے رہتے ہیں۔ کپتان سے قریبی تعلق کے ڈیڑھ عشرے میں ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ بھارت کے بارے میں ان کے تصورات ناقص ہیں۔ خیال مگر یہ تھا کہ اقتدار میں آئے تو حقائق ان پہ روشن ہو جائیں گے۔ آغاز ہو چکا۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی‘ بہت اچھا کیا۔ یہ بات مگر واضح رہنی چاہیے تھی کہ الیکشن کے ہنگام نفرت پھیلانے والا نریندر مودی امن کا علمبردار نہیں بن سکتا۔ خان اور اس کے ساتھی خوش فہم لوگ ہیں۔ دھیرے دھیرے ہی سچائی ان پہ آشکار ہوتی ہے۔
سب جانتے ہیں بھارت کا موقف مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے۔ ڈاک کی جن ٹکٹوں پر اعتراض ہے‘ عمران خاں کے اقتدار میں آنے سے پہلے چھپے۔ جن سپاہیوں کے قتل کا الزام پاک فوج پہ لگایا گیا‘ وہ کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھوں کھیت رہے۔ یہ مذاکرات پربھارتی آمادگی سے دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔
خبر یہ ہے کہ پسِ پردہ کچھ اور تھا۔بھارت کا مطالبہ یہ تھا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کشمیر پہ واویلا نہ کرے۔ مقبوضہ کشمیر پر‘ جون میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ نے خوں آشام بھارت کو بے نقاب کردیا ہے۔اسی لیے برطانوی پارلیمنٹ کے وفد کوسری نگر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کشمیر میں تحریک قابو سے باہر ہوچکی۔ بھارتیوں کو سوجھ نہیں رہا کہ کیا کریں۔ عشروں سے بھارتی قیادت اپنی قوم کو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اکسا رہی ہے۔ سیاست کی طرح بھارتی میڈیا بھی انتہاپسندوں کے دبائو میں رہتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو دلّی نے موردِ الزام ٹھہرایا تو اس میں تعجب کیا تھا۔ ان کا یہ ارشاد کہ عمران خاں بے نقاب ہو گئے۔ پہلے دن کپتان نے احتیاط کا دامن تھامے رکھا لیکن پھر بھڑک اٹھے۔ وہ بیان جاری کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ نریندر مودی گھٹیا ساآدمی ہے۔ بھارتیوں نے بھدے پن کا ارتکاب کیا تو خان صاحب نے بھی موزوں الفاظ کا انتخاب نہ کیا ۔ایک آدمی نہیں بلکہ بھارتی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے تھا۔
بھارت میں ایک بخار سا پھیل گیا ہے۔ کرپشن کے الزامات کی زد میں آئے‘ نریندر مودی کو بھڑکنا ہی تھا۔ بھارتی میڈیا کو چیخ و پکار کرنی ہی تھی۔ تازہ ترین یہ ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت نے فوجی کارروائی کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ پاکستان کوئی لقمہ تر نہیں۔ اپنے تمام مسائل کے باوجود ایک ناقابل تسخیر فوجی قوّت ہے۔ بھارتی بڑ ہانک سکتے ہیں‘ الحمدللہ ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ مہم جوئی کی کوشش سے پاکستان کو کتنا ہی نقصان پہنچے‘ خود ان کی معیشت زمیں بوس ہو جائے گی۔ عالمی طاقت بننے کے سارے خواب پچک کر رہ جائیں گے۔
جرأت مندی بڑا وصف ہے‘ ادبار میں مگر احتیاط اور حکمت ہی ڈھال ہوتی ہے۔ ابتلا میں غوروفکر زیادہ چاہیے ‘ اظہار خیال کم۔
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح