دورہ حدیث کے بعد؟….محمد ضیاء الحق نقشبندی
بدقسمتی ہے، کہ فارغین مدارس کیلئے پاکستان بھر میں کوئی تربیتی اور تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ دورہ حدیث کی فراغت پر، ایک جاندار سوال مدارس کے لاکھوں بچوں کو اپنی گرفت میں لئے رکھتا ہے۔ اب کرنا کیا ہے؟ وقت ضائع مت کریں، ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے، آج ہی دلچسپی والے میدان کی راہ میں نکل پڑیں، گہرائی و گیرائی کے ساتھ مراقبہ کریں۔ اپنا مقصد حیات متعین کریں اور وقت کی تقسیم کار اور طریقہ کار بنائیں۔ منزل متعین کریں، ورنہ جلد ہی معاشی حالات آپ کے پائوں کی زنجیر بن جائیں گے۔ یاد رکھئے! گھر کا کچن اور زندگی کا پہیہ چلانے کیلئے آٹھ گھنٹے کام کافی ہے، لیکن کامیاب تاجر، عالم دین، اسکالر، مدبر، مفکر، فقیہ بننے کیلئے 16 سے 18گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، دنیا میں زبانوں کی حکمران زبان انگریزی کو سیکھنے پر خصوصی توجہ دیں۔ لوگ تین ماہ کا انگریزی کورس کریں، تو انگریزی بولنا شروع کر دیتے ہیں، آپ آٹھ سال پڑھنے کے باوجود عربی میں بات چیت نہ کر سکیں ’’تو بتائیں قصور کس کا‘‘۔ عربی بول چال کی کتب اور ایپلی کیشن کا استعمال کریں، سستی کاہلی کو دور کرنے کیلئے سیروتفریح کی عادت بنائیں، علمی انقلاب کی آمد کا انتظار نہیں بلکہ انقلاب کا جھنڈا تھام لیں، آئو مدارس و مساجد کی رونقوں کو دوبارہ اپنی توانائیوں سے آباد کریں، سماج کی
تربیت آپ لوگوں نے کرنی ہے، اس لئے آج ہی اپنی تربیت کو اولیت دیں۔ عالم بشریت کی رہنمائی کیلئے ماڈرن ماحول سے اپ ڈیٹ رہیں۔ آپ نے آٹھ سالوں میں پانچ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل کم وبیش چالیس ہزار احادیث پڑھی ہیں۔ اب آئیں! اگلے آٹھ سال میں ایک ایک حدیث کی خوبیوں، کمالات پر لگائیں اور روزانہ ایک ایک حدیث پر تفصیلی انداز میں کام کریں، جو معلم بننا چاہتے ہیں، وہ اپنے سابقہ اساتذہ کی خامیوں کو چھوڑیں اور خوبیوں کو مضبوطی سے پکڑیں۔ آٹھ سالہ درس نظامی نے آپ کو علم کی بنیاد فراہم کی ہے، اس مضبوط بنیاد پر عمارت کھڑی کریں، یعنی ادارے بنائیں، روزانہ ایک صفحہ لکھیں، ہر ماہ ایک معیاری کتاب خریدیں، حدیث میں دلچسپی رکھنے والے حدیث شریف کی کتب و تخریج پر لگ جائیں۔ معاشرہ کی اصلاح کرنا، اب آپ کا کام ہے، زندگی میں کبھی بھی اپنے مخلصین کی سونے اور چاندی جیسی قیمتی تجاویز یعنی اصلاحی تنقید پر شک نہ کرنا، یہ تجاویز آپ کو تعمیری سوچ و فکر فراہم کر سکتی ہیں۔ تحقیق وتصنیف کا شعبہ اپنا لیں، تخلیقی فکر اہل قلم کا کبھی راستہ روک نہیں سکتی۔ علم وعرفان کی وادیوں میں نکلنے کا وقت آ پہنچا ہے، مختلف کمپنیوں اور عرب ممالک کے سفارت خانوں میں مترجم اور سپیچ رائٹر بنیں۔ آئیں! اب یونیورسٹیوں کا رخ کریں، تاکہ مزید تعلیم حاصل کر سکیں۔ مساجد میں کام کرنا ہے، تو پھر فجر درس قرآن، ظہر درس حدیث، عصر درس سیرت نبویﷺ، مغرب درس تصوف اور عشاء کی نماز کے بعد درس آئین پاکستان دیں، دنیا سے بیزاری اختیار نہ کریں، بلکہ دین اور دنیا کے درمیان مضبوط رشتہ کو سمجھنے کی کوشش کریں، یہ دونوں لازم وملزوم ہیں دین کشتی اور دنیا پانی ہے، دونوں کا باہمی تعلق اور رشتہ ضروری ہے۔ محدود واقفیت میں ہر ماہ 5سے 10نئے دوستوں کا اضافہ کریں۔ سوچ کے تنگ دائرہ میں وسعت پیدا کریں، مسلک کے رنگ کو اپنانے کے بجائے دین کے رنگ میں رنگ جائیں، جب دین کے رنگ میں رنگ جائیں گے، تو پھر مسلک خود ہی معاشرے میں غالب آجائے گا۔ مدارس میں دوسروں کے بچوں کو پڑھانے کی ترغیب دینے سے پہلے آغاز اپنے گھر سے کریں، آئیں عہد کریں! آپ اپنی اولاد اور خاندان میں سے ایک بیٹی، بیٹا، بھتیجا، بھتیجی، بھانجی اور بھانجے میں سے کسی ایک کو عالم دین ضرور بنائیں گے۔ معاشی جنگوں کا آغاز ہوچکا ہے، آئیں! اپنے آپ کو اسلامی معاشیات یعنی اسلامی بینکنگ میں شامل کریں۔ فقہی اور معاشی سیمینارز کا انعقاد شروع کریں یا پھر ایسے پروگراموں میں شرکت ضرور کریں اور لوگوں کو آمدن سے 5فیصد کسی دینی ادارہ کو دینے کی ترغیب دیں۔ تخصص فی الفقہ کی طرف ضرور آئیں، لیکن نام کے ساتھ مفتی لگوانے کیلئے نہیں۔ زندگی میں کبھی بھی حدیث کو فقہی نہیں، بلکہ محدثین کی سوچ کے مطابق دیکھیں، تخصص فی الحدیث کی طرف بڑھیں۔ ائمہ و خطباء کی معاشرے میں اساسی حیثیت ہے، 40سال کی عمر تک تقریر کی مشق کرنے کے بغیر کبھی تقریر نہ کریں، تقریر مسلکی اور گروہی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہ ہو۔ مدارس کے حلقوں میں جن موضوعات پر کتابیں چھپ رہی ہیں، ان کا تناسب کچھ یوں بنتا ہے، درسیات و متعلقات درسیات 8۔ 10فیصد، دینیات 15۔20فیصد، وعظ و تقریر 10۔15فیصد، مسلکی تنازعات، تعویزات، عملیات 60۔ 65فیصد، علمی و تحقیقی کتابیں 1%، متفرقات 3۔ 4فیصدہے۔ مدارس کو نااہل خاندانوں کی اجارہ داری سے نکالنے کی اشد ضرورت ہے، ان لوگوں نے مدارس کی اہمیت کو بے جان کر کے رکھ دیا ہے۔ جس طرح پہلے نااہل گدی نشینی کے رواج نے خانقاہوں کو بے اثر کیا ہے۔ سماجی تبدیلیوں کی مخالفت اور لاعلمی کے بجائے، ہمیشہ معاشرے کی نبض کے مطابق کام کریں۔ لاکھوں فاضلین تیار ہو رہے، لیکن مساجد سینکڑوں میں بنتی ہیں اور اسامیاں درجنوں میں ہوتی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ’’الشھادۃ العالمیہ‘‘ کو ایم اے عربی و اسلامیات کے مساوی منظور کر چکی ہے۔ لہٰذا ’’الشھادۃ العالمیہ‘‘ کے ذریعے آپ جن شعبہ جات میں ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں امام، خطیب، جونیئر قاری ٹیچر، جونئیر عربی ٹیچر، سینئر جنرل لائن ٹیچر، صدر معلم/ ماہر مضمون، عربی لیکچرار، اسلامیات لیکچرار، مفتی،قاضی، آرمی مساجد، ائیرفورس مساجد،نیوی مساجد شامل ہیں۔ کسی بھی یونیورسٹی سے عربی یا اسلامیات میں ایم فل بھی کر سکتے ہیں۔ اجتہادی سوچ اپنائیں، اجتہاد کی طرف بڑھیں، اور بس پھر آگے بڑھتے ہی چلے جائیں۔ اس کالم کا خلاصہ سید طاہر رضا بخاری کی دعوت، علامہ بدرالزمان کی چاہت اور مفتی محمد رمضان سیالوی کی محبت میں مزار پور انوار داتا دربار میں جامعہ ہجویریہ کے سالانہ ختم بخاری کے موقع پر پیش کیا۔