دولت کے ڈھیر…نذیر ناجی
ان دنوں پاکستان اور بھارت بحرانوں کی زد میں ہیں۔ ہماری حالت خراب ہے ‘تو بھارت سے بھی کوئی اچھی خبریں نہیں آرہیں ۔دونوں ملکوں کی حالت بد سے بدترین ہوتی چلی جا رہی ہے‘ خصوصاً کرپشن کی حوالے سے:۔
”اٹل امبانی گروپ پر 45000کروڑ روپے کا قرض ہے؛ اگر آپ کسان ہوتے اور پانچ لاکھ روپے کا قرض آپ کے ذمے ہوتا ‘تو ہو سکتا ہے کہ پھانسی کا پھندا‘ آپ کا مقدر ٹھہرتا‘‘۔ اٹل امبانی قومی ورثہ ہیں۔ یہ لوگ ہمارے جی ڈی پی کے علمبردار ہیں۔ ایک ڈالر کی قیمت 73 روپے37پیسے کو چھو گئی ۔روپے کی قدر میں اس حد تک کمی‘ ایک نئی تاریخ ہے۔ بھارتی روپے کی قیمت میں اس سال12فیصدگھٹی ہے۔ ایشیا میں سب سے خراب مظاہرہ شاید بھارتی کرنسی کا ہے ۔ 2013ء میں بھی ایک ڈالر72سے اوپر نہیںگیا‘ لیکن اس وقت اکتوبر میں13فیصد تک گرگیا ہے۔ یہاں تو12فیصد میں ہی72کے پار چلا گیا اور جلد ہی74تک جانے کے آثار بتائے جا رہے ہیں۔اس غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر بھارتی سٹا ک منڈی سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے900کروڑ نکال لئے ہیں۔ اسی مسئلے کو لے کرسویڈن کی ایک ٹیلی کام کمپنی ایرکسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ اٹل امبانی اور ان کے دو افسر وں کو بھارت چھوڑنے سے روکا جائے۔ ایرکسن نے اپنی درخواست میں مزید کہا ہے کہ ملکی قوانین کے مطابق‘ ان کا کوئی جذبہ احترام نہیں ہے۔ امبانی کمپنی کو550کروڑ روپے اد ا کرنے ہیں‘ مگر وہ قانون کاغلط استعمال کر کے ڈیفالٹر ہو گئے ہیں‘ جبکہ امبانی کمپنی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سٹاک ایکسچینج کو بتایاہے کہ ایرکسن کی یہ درخواست غیر ضروری ہے۔ ہماری کمپنی نے تو ادائی کے لئے60دن کا وقت مانگا ہے۔حکومت سے بنک گارنٹی کو لے کر تنازع چل رہا تھا‘اس سبب تاخیر ہوئی ہے۔
امبانی گروپ پر45000کروڑ روپے کا قرضہ ہے اور حیرت کی بات ہے کہ یہی لوگ بھارت کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے45000کروڑ کا ڈیفالٹر ہونے کے بعد بھی ان کی نئی نویلی کمپنی کو دفاعی معاملوں میں‘ تجربہ کار کمپنیوں میں سے ایک ڈاسسو ایویشن رافیل کا پارٹنر بتاتی ہے‘ جس کو لے کر تنازع چل رہا ہے۔ کاش! کسانوں کا بھی کوئی دوست ہوتا؛ اگر مودی دوست نہیں ہو سکتے‘ تو بھارت کے کسانوں کو‘ اٹل امبانی سے دوستی کر لینی چاہئے۔ اب چھوڑئیے امبانی کو‘ اپنی نوکری کی فکر کیجئے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ ستمبر میں بے روزگاری کی شرح6.6فیصد ہو گئی ہے؟ بے روزگاری کی شرح کا4فیصد سے بڑھ جانا تشویش ناک صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔آپ ان دنوں خبروں پر توجہ دیں کہ بھارت میں ہو کیا رہا ہے؟ وزیراعظم مودی طرح طرح کے ایونٹ میں نظر آنے لگے ہیں۔ کبھی بھوپال‘ کبھی جودھ پور‘ کبھی دلی اور کبھی ارونا چل میں۔ اس کے علاوہ انتخابی ریلیاں بھی ہیں۔ ان میں آنے جانے سے لے کر تقریر کرنے کا وقت نکالیں گے تو پتا چل جائے گاکہ وہ کام کب کرتے ہوں گے؟ ان کے آنے جانے کی تیاریوں پر جو خرچ ہوتا ہے۔ ریلیوں اور ایونٹ پر جو خرچ ہوتا ہے‘ وہ بھی حساب لگا سکیں تولگالیں۔ریلیوں کی تصویریں بتاتی ہیں کہ کتنا خرچ ہوا ہو گا؟ یہ بھی دیکھئے کہ وہ اپنی تقریروں میں کہتے کیا ہیں؟نوٹ بندی کے وقت کہا گیا کہ اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ دو سال بیت گئے۔ کیا دور رس نتائج برآمد ہوئے؟ لیکن وزیراعظم نہ تو پٹرول پر بولتے ہیں۔ نہ ڈیزل پر بولتے ہیں۔ نہ روپے پر بولتے ہیں اور نہ بے روزگاری پر بولتے ہیں‘ مگر دکھائی ہمیشہ ہر جگہ دے جاتے ہیں۔
نوٹ بندی کے وقت عورتوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ گھر والوں سے چھپا کر رکھے گئے ‘ان کی کمائی کے پیسے چلے گئے۔ وہ چوری کے نہیں‘ بلکہ محنت کے پیسے تھے۔ عورتیں اقتصادی طو رپر کمزور ہو گئیں۔ انہوں نے وزیراعظم پر بھروسہ کیا‘ لیکن وزیراعظم نے کیا کیا؟ پیسے بھی لے لئے اور اپناکام بھی چلا لیا۔ویسے آپ غور کریں کہ لوگ سبھا اور ریاستوں کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں سرکاری نوکریاں آنے والی ہیں۔ ان کا مقصد نوکری دینا نہیں ‘بلکہ نوکری کا اشتہار دے کر اپنی تشہیر کرنا ہو گا۔نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر کہا جائے گا کہ دیکھو نوکری دے رہے ہیں‘ ملنے میں بھلاپانچ سال ہی لگ جائیں۔ اس مالی سال میں لگار تار پانچویں مہینے میں جی ایس ٹی ہدف سے‘ ایک لاکھ کروڑ کم ہی جمع ہو سکا ۔ اگست کے مقابلے میں ستمبر کے مہینے میں0.5فیصد کا اضافہ تو دیکھا گیا ہے‘ مگر جی ایس ٹی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ 27جولائی کو جی ایس ٹی کی کچھ شرحوں میں کمی کی گئی تھی‘ یہ اس کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ایکسپرٹ کو امید ہے کہ تہواروں کے موسم میں شاید جی ایس ٹی کی مد میںاضافہ ہو جائے۔
ویسے ستمبر2017ء میں جتنا جی ایس ٹی جمع ہوا ہے‘ اس کے مقابلے میں اڑھائی فیصد کا اضافہ تو ہوا ہے‘ مگر حکومت جنتا ہدف طے کر رہی ہے‘ وہ پورا نہیں کر پا رہی۔ کھیتان اینڈ کمپنی کے ابھشیک رستوگی کا کہنا ہے کہ جتنا ہدف طے کیا گیا ہے‘اس سے چھ فیصد کم جمع ہوا ہے۔ اس جمع رقم میں ری فنڈ کیا جانے والاپیسہ بھی ہے۔ اس کے لوٹانے کے بعد ہی صحیح رقم کا پتا چلے گا۔ مینو فیکچرنگ کے آٹھ کور سیکٹر ہوتے ہیں۔ کبھی دس فیصد کی شرح سے بڑھنے والا یہ سیکٹر‘ مودی حکومت کے پورے چال سال رینگتا ہی رہ گیا۔ جولائی میںیہ7.3فیصد پر تھا ‘لیکن اگست میں کم ہو کر4.2فیصد رہ گیا۔ بھارت میں جتنی بھی صنعتی پیداوار ہوتی ہے‘اس کا 40فیصد ‘ان آٹھ کور سیکٹر سے آتا ہے۔ان سیکٹرز میں ریفائنر بھی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عالمی بازار میں تیل کی قیمت بڑھنے کا کیا اثر پڑے گا؟ کوئلہ پیداوار بھی وزرا کے دعوے کی نفی ہے۔ پچھلے چھ مہینے میں یہ نچلی سطح پر ہے۔” پبلک سیکٹر کا شیئر مارکیٹ میں چار لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ 76 پبلک سیکٹر کی کمپنیوں میں سے74کے شیئرز بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پنجاب نیشنل بینک کے شیئرز میں65فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ریل کوچ بنانے والی کمپنی بی ایم ای ایل کے شیئرز میں62فیصد تک کمی‘ خطرے کی گھنٹی ہے‘‘۔