جوانی میں سخت محنت مشقت کے بعد روٹی ملا کرتی تھی اور ڈرتے تھے کہ خدانخواستہ بخار چڑھ گیا‘ تو دوا کیسے خریدیں گے؟ اب حالت یہ ہے کہ بیماریاں ہی بیماریاں ہیں اور دوائیں ہی دوائیں۔ کبھی کے خواب اب حقیقت بنے ہیں‘ تو اپنے آپ پر ہنسی آ رہی ہے۔ اسی طرح مجھے قومی کرکٹ پر بھی ہنسی آ رہی ہے۔ پاکستانی کرکٹ بورڈ سے تو ثانیہ مرزا اچھی‘ جس نے شعیب ملک کو وقت سے بہت پہلے پہچان لیا کہ یہ حضرت اب شوہری کے سوا کسی کام کے نہیں رہے۔ آج کئی برسوں کے بعد وہ اپنی دوراندیشی پر ناز کر رہی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں پھر سے کھیل میں جھونک دیا ۔ موصوف آئے دن بولروں کی وکٹوں میں ‘دھڑا دھڑا اضافہ کر رہے ہیں اور پاکستانی ٹیم کو شکستوں سے دوچار کرتے ہوئے‘ بھارت کے لئے کامیابی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اگر بھارت ورلڈ کپ لے گیا‘ تو موصوف مستقبل میں بھارتی حیدر آباد کے شہری بننا پسند کریں گے۔ تاکہ محلے والوں کو بتا سکیں کہ آپ کو 2016ء کا ٹی20ورلڈ کپ میں نے لے کر دیا۔ ثانیہ مرزا ندامت سے کہا کرے گی کہ آپ نے میرا سر نیچے کر دیا۔ آپ ایک فخرمند پاکستانی ہوتے‘ تو میں بھی آپ پر فخر محسوس کرتی۔ آپ سیالکوٹ میں سر اٹھا کر چلتے‘ تو میں بھی حیدر آباد میں فخر سے کہتی کہ ”میرے میاں اپنے ملک کے ایک فخرمند شہری ہیں۔‘‘ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
گھر کے رہے نہ گھاٹ کے
شعیب ملک کافی عرصہ پہلے‘ کرکٹ کو خیرباد کہہ کے ‘ ‘عزت کی زندگی ‘‘گزار رہے تھے۔ سٹار جیسی ”عزت کی زندگی ‘‘اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرماتا ہے اور جب یہ سٹار کسی فی میل سٹار کا شوہر بنتا ہے‘ تو کیمیاوی عمل سے ایک نیا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اس سے‘ فی میل سٹار لطف اندوز ہوتی ہے اور میل سٹار اسے لطف اندوز ہوتے دیکھ کر ‘ بلاوجہ شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کی ”خاص وجہ ‘‘ نہیں ہوتی۔ دنیا میں شرمندگی کی ہزاروں اقسام ہیں۔ یہ ہر انسان کی پسند اور ناپسند پر منحصر ہے کہ کون‘ کیا قسم پسند کرتا ہے؟
دل تو نہیں مانتا۔ لیکن کون جانتا ہے ؟ شعیب ملک شادی کی طرح ‘خوش قسمت نکل آئیں کہ اس سال کا ٹی 20 و رلڈ کپ ‘سسرالیوں کو لا کر دینے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر احمدشہزاد‘ محمد حفیظ‘ محمد عامر جیسے کھلاڑی ‘اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کے مطابق کھیل لیتے‘ تو ہم امید لگا سکتے تھے کہ ورلڈکپ ہمارے پاس آ جائے گا۔ امیدلگانے میں کیا ہرج ہے؟ لیکن شعیب ملک نے گینگ بازی کر کے‘ ہمارے لئے امیدلگانا مضحکہ خیز بنا دیا۔ بھارتی شہر موہالی میں‘ ایک گینگ آف فور بنایا گیا۔ جس کے سرکردہ اراکین احمدشہزاد‘ شعیب ملک‘ محمدحفیظ اور عمر اکمل تھے۔ یہ چاروں کھلاڑی‘ پاکستانی ٹیم کی فتح کے ستون ہیں۔ لیکن ”مشن ‘‘کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اکیلا عمراکمل ہی کامیاب رہا۔ اس نے سفارشوں کے ذریعے بیٹنگ لائن میں‘ وہ جگہ حاصل کی‘ جو اسے کپتان اور بورڈ انتظامیہ والے نہیں دینا چاہتے تھے۔ خوب تگ و دو کر کے‘ اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کرلی۔ یہی وہ پوزیشن ہوتی ہے‘ جس میں کھلاڑی ٹیم کی کمر سیدھی کر دیتا ہے یا توڑ دیتا ہے۔عمر اکمل نے اطمینان سے دوسرا کام کر کے‘ اپنے ”خیرخواہوں‘‘ سے انعام حاصل
کیا۔ اگر ہمارا کرکٹ بورڈ‘ اپنے کھلاڑیوں کی ”خوش کرداری‘‘ پر نظر رکھنے کی زحمت کرتا‘ جو کہ اس کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے‘ تو عمر اکمل ورلڈ کپ تو کیا؟ کسی کالج ٹورنامنٹ میں کھلائے جانے کے قابل بھی نہیں تھا۔ اس نے شہر کے اندر جو حرکتیں کی ہیں‘ وہی بورڈ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھیں۔ میں لاہور پولیس کو داد دوں گا کہ اس نے شہر کی تہذیبی شناخت کا بھرم رکھتے ہوئے‘ قومی کرکٹ ٹیم کے ایک کھلنڈرے کو‘ قانون کی خلاف ورزی پر اپنے فرائض کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ عزت سے گھر جانے دیا۔ ورنہ اس کی عزت ‘چالان کے فارم میں لپیٹ کے تھما دی جاتی‘ تو بورڈ کے پاس کردار کا تحریری ثبوت آ جاتا اور عمراکمل صاحب‘ ورلڈ کپ میں کھیلنے کے لئے موجود ہی نہ ہوتے۔ میرے پاس کوئی ثبوت تو نہیں۔ لیکن میں گینگ آف فور کے باقی ماندہ تین کھلاڑیوں کے بارے میں‘ اس سے مختلف رائے قائم نہ کرتا۔ اگر پاکستان کسی معمولی وجہ کے باعث‘ ورلڈ کپ سے محروم رہ گیا‘ تو میں اس کاذمہ دار لاہور میں پنجاب پولیس کے وارڈنز کو قرار دوں گا۔
عمراکمل کی ”داستان امیرحمزہ‘‘ کھول کر دیکھی جائے اور یہ سوچا جائے کہ وہ اس داستان درداستان کا کوئی کردار ہیں‘ توپنجاب پولیس کی مردم شناسی کی داد دینا پڑے گی۔ موصوف کی ایک اور ”کیبل کہانی‘‘ پرانی ایم کیو ایم کے لڑکوں میں‘ کافی پسند کی جاتی ہے‘ جو ‘اب ”پاک سرزمین پارٹی‘‘ میں آ کر طہارت کر چکی ہو گی۔ اس نئی پارٹی میں سہولت یہ ہے کہ ایم کیو ایم سے وضو کرنے والے‘ بلاتامل پاک سرزمین پارٹی میں جا کر کبڈی کھیل سکتے ہیں۔ وہاں انہیں انیس قائم خانی‘استادی دائو گھات سکھانے کے لئے دستیاب ہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے بڈھے ہوجانے کے بعد‘ نئے نئے پٹھوں کو دائوگھات سکھانے کے لئے‘ ایسا کوئی استاد ہی باقی نہیں رہ گیا‘ جو نئے نئے پٹھے تیار کر سکے۔ تھکے ہوئے استاد‘ جن کا دم دوچار ہاتھ چلا کر رہ جاتا ہو‘ وہ کسی نئی پارٹی کے تازہ دم ”کارکنوں‘‘ کی تربیت کیسے کریں گے؟ مصطفی کمال کوئی بچے نہیں جنہوں نے ”استادوں‘‘ کے بغیرکراٹے کے تربیتی مراکز کھول لئے ہیں۔ ایم کیو ایم کا سٹائل اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ گلی محلے میں اس کا تربیتی مرکز کھل جائے‘ تو شور مچ جاتا ہے۔ لیکن کراٹے کلب آپ کے پڑوس میں بھی کھل جائے‘ تو بچے خوش ہوتے ہیںکہ دوچار دائو وہ بھی سیکھ جائیں گے۔ جسم میں دم ہو‘ تو دو چار بزرگواروں کی رال بھی ٹپک سکتی ہے۔ اسی لئے تو لکھ رہا ہوں کہ مصطفی کمال کی پارٹی کے پھیلائو کے لئے ‘ بہت راستے کھلے ہیں۔ ایم کیو ایم کا فیصلہ کن مقابلہ‘ پاک سرزمین پارٹی ہی کرے گی۔
قارئین سوچیں گے کہ اس بیماری اور بڑھاپے میں مجھے کھیلوں میں کیا دلچسپی پیدا ہو گئی؟ کرکٹ سے تو میری دلچسپی پرانی ہے۔ موقع بموقع میں اس پر اظہار خیال کرتا رہتا ہوں۔ کراٹے کا شوق نیا نیا پیدا ہوا ہے۔ ہاتھ اوپر اٹھائوں‘ تو اپنے زور سے نیچے گرتا ہے۔ آنکھ اوپر اٹھائوں‘ تو دھمکی آمیز نظریں ہی میری نگاہوں کے اوسان خطا کر دیتی ہیں۔ پیراٹھا لوں تو جسم لڑکھڑانے لگتا ہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہاں رکوں؟ پیر خود ہی کہیں دھپ سے جا پڑتا ہے۔ وہ کوئی ٹیڑھا پتھر ہو یا کیچڑ سے بھرا کوئی گڑھا یا گٹر؟آخری صورت میں یہ میرا وہ قدم ہو گا‘ جو بدبخت موت کی وادی میں رکھا جائے گا۔ اب میں اس کالم کی تشریح کرتا ہوں کہ یہ کیوں لکھا گیا؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ پاکستانی کرکٹ کس طرف جا رہی ہے؟ اور آپ کیا سمجھتے ہیں؟ ایم کیو ایم کس طرف بڑھ رہی ہے؟ اور آپ کی کیا رائے ہے‘ ان دونوں کا انجام کیا ہو گا؟