دو وڈیو کلپس اور نو بالز کا ریکارڈ…خالد مسعود خان
مجھے واٹس ایپ پر کسی نے ایک وڈیو کلپ بھجوایا ہے۔ یہ کلپ ایک نہایت ہی محیرالعقول چیز بارے ہے۔ اس کلپ میں کم از کم میرے لیے ایک بالکل نئی بات سامنے آئی ہے۔ یہ میرے علم میں اضافے کا باعث ہے۔ مجھے کرکٹ سے رتّی برابر دلچسپی نہیں؛ تاہم دلچسپی نہ ہونا ایک چیز ہے اور ایسی معلومات افزا چیز کا پتہ چلنا بالکل ہی دوسری چیز۔ یہ کلپ دنیا کے ان پانچ کرکٹروں کے بارے میں ہے جنہوں نے بطور کرکٹر اپنی پروفیشنل لائف میں کھیل کے دوران ایک بھی ”نو بال‘‘ نہیں کروائی۔ بظاہر یہ بات نا ممکنات میں سے لگتی ہے مگر اس کلپ کے تحت اس ناممکن بات کو پانچ کرکٹروں نے ممکن کر کے دکھایا ہے۔ ویسے تو اب سوشل میڈیا کی کسی بات کا یقین نہیں رہا‘ مگر یہ کلپ بہرحال خاصا جینوئن لگتا ہے اور یہ کسی پیشہ ور کلپ میکر کا بنایا ہوا کلپ نہیں ہے‘ اس لیے اس پر یقین کر لیا ہے۔
کلپ کا عنوان ہے ”فائیو گریٹ بالرز ہُو نیور بائولڈ نو بال‘‘ یعنی ”پانچ عظیم کھلاڑی جنہوں نے کبھی نو بال نہیں کروائی‘‘۔ ہم آپ کا تعارف کرکٹ کی تاریخ کے ان پانچ عظیم بالرز سے کروا رہے ہیں جنہوں نے اپنے سارے کیریئر میں ایک بھی نو بال نہیں کروائی۔ نمبر پانچ: عظیم بالر، بھارت کے کپل دیو۔ کپل دیو نے 131 ٹیسٹ اور 225 ون ڈے میچ کھیلے اور اس نے اپنے سارے کرکٹ کیریئر میں ایک بھی نو بال نہیں کروائی۔ یہ ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ نمبر چار: عظیم بائولر‘ ویسٹ انڈیز کے لانس گبز۔ لانس گبز نے ویسٹ انڈیز کی طرف سے 79 ٹیسٹ اور تین ون ڈے میچ کھیلے اور اس نے بھی اپنے سارے کرکٹ کیریئر میں ایک بھی نو بال نہیں کروائی۔ اس فہرست کا تیسرا عظیم بالر انگلینڈ کا آئن بوتھم ہے۔ آئن بوتھم کا کرکٹ کیریئر سولہ سال پر محیط ہے۔ اس نے 162 ٹیسٹ میچ اور 116 ون ڈے انٹرنیشنل برطانیہ کی طرف سے کھیلے اور اپنے سارے کرکٹ کیریئر میں ایک بھی نو بال نہیں کروائی۔ اس ٹاپ فائیو لسٹ میں دوسرے نمبر پر ہے آسٹریلیا کا ڈینس لِلّی۔ آسٹریلیا کا یہ کرکٹر اپنے زمانے کا عظیم فاسٹ بالر تھا۔ اس نے 70 ٹیسٹ میچ اور 63 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے اور اس نے اس دوران ایک بھی نو بال نہیں پھینکی۔ اور پانچ عظیم بالرز کی اس لسٹ میں سب سے اوپر ہے‘ دی گریٹ عمران خان فرام پاکستان۔ عمران خان نے اپنے کرکٹ کیریئر میں 88 ٹیسٹ اور 175 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی اور اپنے اس طویل کرکٹ کیریئر میں ایک بھی نو بال نہ کروانے کا ریکارڈ بنایا۔ یہ ریکارڈ ان کی اپنے پروفیشن سے وابستگی اور نظم و ضبط کو ظاہر کرتا ہے۔
آپ یقین کریں‘ یہ کلپ دیکھ کر مجھے اس پاکستانی سپوت پر بڑا رشک آیا‘ جس نے کرکٹ کھیلنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں پروفیشنل کھلاڑیوں میں ایک تاریخ رقم کی۔ دنیائے کرکٹ میں یہ کارنامہ سرانجام دینے والے پانچ میں ایک۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ لیکن یہ کلپ دیکھنے کے بعد مجھے ایک بات کا مکمل یقین ہو گیا ہے کہ کرکٹ اور سیاست میں تقریباً اتنا ہی باہمی فاصلہ ہے جتنا زمین اور سورج کے درمیان‘ بلکہ ممکن ہے اس سے زیادہ ہو کہ اپنے سارے کرکٹ کیریئر میں ایک بھی نو بال نہ کروانے والے اس عظیم کھلاڑی نے اپنے سارے سیاسی کیریئر کو چھوڑیں، صرف گزشتہ ایک سال کے اندر‘ بلکہ اس کو مزید کم کر آدھا کر لیں۔ یعنی گزشتہ چھ ماہ میں اتنی نو بالز کروائی ہیں کہ اگر ان کا شمار کیا جائے تو میرے اس عظیم کھلاڑی نے اس میں بھی ورلڈ ریکارڈ بنایا ہو گا۔
اس پر ابھی بات کریں گے مگر اس سے پہلے ایک اور وڈیو کلپ کا ”ٹرانسکرپٹ‘‘ پیش خدمت ہے۔ یہ بھی کسی ستم ظریف نے آج ہی بھیجنا تھا۔ یہ عمران خان کا ایک پرانا انٹرویو ہے جو 2 مئی 2010ء کو ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک نجی چینل پر لیا تھا۔ سوال و جواب کے دوران ڈاکٹر شاہد نے سوال کیا تو جواب میں (عمران خان) اس ملک کے اندر میں کبھی بھی روایتی سیاست سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (ڈاکٹر شاہد مسعود) نہیں، آپ کو وڈیرے لینے پڑیں گے، جاگیردار لینے پڑیں گے، گدی نشین لینے پڑیں گے، وہی لوگ ناں۔ (عمران خان) میں آپ کو پھر کہہ رہا ہوں، ناں، ڈاکٹر شاہد! میں کبھی روایتی سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان کی پچ پر میں نہیں کھیل سکتا۔ اس ملک میں‘ میں تب کامیاب ہوں گا جب یہ قوم تیار ہو گی‘ ایک انقلاب کے لئے ایک موومنٹ کے لئے۔
انقلاب کیا آیا ہے؟ درجنوں کرپٹ پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں اور ابھی مزید دھڑا دھڑ ہونے جا رہے ہیں۔ کوئی ایک بدنام سا بدنام۔ کوئی ایک بے ایمان سا بے ایمان۔ کہاں سے شروع کروں؟ سب سے پہلے تو نذر محمد گوندل، راجہ ریاض، فردوس عاشق اعوان، لیاقت جتوئی، رانا عمر نذیر، بابر اعوان، امتیاز صفدر وڑائچ، میاں رشید، جعفر لغاری، گوپانگ، دریشک، نون اور اسی قبیل کے ان گنت لوگ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کرپشن، لوٹا سازی اور بے وفائی کا اپنی اپنی جگہ پر بڑا مقام ہے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔ ایک انقلاب کے لئے۔ ایک موومنٹ کے لئے۔ 88 ٹیسٹ اور 175 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں ایک بھی نو بال نہ کروانے والے کھلاڑی کا سیاسی ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے ہر اس شخص کو پہلی ہی درخواست پر بے دھڑک پی ٹی آئی میں شامل کر لیا جس نے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کو لعنت قرار دیا تھا اور جسے خود عمران خان نے اپنی پارٹی میں شامل کرنے کو اپنے لئے لعنت قرار دیا تھا۔ مثال کے طور پر عامر لیاقت۔ دو روز پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس دیا کہ کراچی کا سارا گند ایک ہفتے میں صاف ہونا چاہئے۔ دو روز بعد ہی عمران خان نے عامر لیاقت کو پی ٹی آئی میں شامل کرکے کراچی کا آدھا گند ایک ہی ہلے میں صاف کر دیا۔
صرف گزشتہ چار پانچ دن کے اندر عمران خان نے اتنی نو بالز کروائی ہیں کہ اپنے کرکٹ کیریئر میں نو بال نہ کروانے کا ریکارڈ برابر کر کے رکھ دیا۔ متوقع وزیر اعظم (بزعم خود) کی قوت فیصلہ کا یہ عالم ہے کہ ان کا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ان کے مشورے کے بعد ناصر کھوسہ کا نام بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب دیتا ہے اور اگلے روز مکر جاتا ہے کہ وہ دراصل ان کے بھائی طارق کھوسہ کی جگہ بھول کر ناصر کھوسہ کے نام پر راضی ہو گیا تھا۔ بقول شوکت گجر دراصل محمودالرشید اتنی سی بات پر ہی خوشی سے بوکھلا گیا تھا کہ اسے شہباز شریف نے بذات خود ملنے کا وقت دے دیا تھا۔ اس خوشی میں اسے یاد ہی نہ رہا کہ نام ناصر کھوسہ کا دینا ہے یا طارق کھوسہ کا۔ شکر ہے وہ لطیف کھوسہ کا نام نہیں دے آیا۔ بعض شر پسندوں کا کہنا ہے کہ دراصل جنہوں نے یہ نام دینا تھا انہیں محمودالرشید کے آئی کیو کا اندازہ نہیں تھا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ یہ والا نہیں دوسرے والا بھائی چاہئے تھا۔ ایک دن بغیر سوچے سمجھے فاروق بندیال کو شامل کرتے ہیں‘ اگلے روز نکال دیتے ہیں۔ ایک دن ان کا وزیر اعلیٰ الیکشن ملتوی کرنے کا خط لکھتا ہے‘ اگلے روز چیئرمین کہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ذاتی حیثیت میں لکھا ہے۔ بندہ پوچھے اس ”تیلی مارکہ‘‘ بندے کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی پخ نہ لگی ہو تو اس کی ذاتی حیثیت کیا ہے؟
گزشتہ ایک ماہ میں ہی پی ٹی آئی نے غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کی وہ نو بالز کروائی ہیں کہ کپتان کے کرکٹ کیریئر میں نو بالز نہ کروانے کا منفرد کارنامہ زیرو ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر ان کا یہی حال رہا تو وہ جلد ہی اس سلسلے میں بھی ایک ورلڈ ریکارڈ بنا لیں گے۔ ابھی الیکشن میں دو ماہ باقی ہیں اور یہ دو ماہ اس کام کے لئے بہت ہیں۔