منتخب کردہ کالم

دو چیف دو امتحان

گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی پاکستان میں تین بڑی تبدیلیاں لے کر آئی۔ پہلی کرپشن کے الزامات کی زد میںگِھری شریف فیملی کا ملک کی آخری عدالت میں کیس۔ ظاہر ہے یہ پاکستان کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں کسی سربراہِ حکومت اور اس کے خاندان کے خلاف اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ دوسری، پاکستان کے ایک اور مقتدر اِدارے، مسلح افواج کے دو سربراہوں کی تبدیلی۔ خاص طور پر جنرل راحیل شریف کی رخصتی اور ان کے عہدے پر نئے آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی۔ تیسری، سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی شدید دبائو کے ماحول میں قبل از وقت اپنے عہدے سے دستبرداری اور پھر رخصتی۔
2017ء کا سال نئے تعینات شدہ دو چیف صاحبان کے لیے دو بڑے امتحان لے کر طلوع ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے درست سمت میں اپنے نئے اور آخری قانونی کیریئر کا سفر شروع کیا۔ نئے چیف جسٹس کے نئے سال میں پاناما لیکس کے حوالے سے پہلے فیصلے نے شاہراہ دستور پر ایستادہ سپریم کورٹ کی عمارت کے اردگرد سے سموگ کا خاتمہ کر دیا۔ پاناما کیس کے لیے شاندار ریکارڈ والے قابل اور سینئر جج صاحبان کا نیا بینچ تشکیل پایا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ صاحب، جسٹس گلزار احمد صاحب، جسٹس اعجازالاحسن صاحب، جسٹس اعجاز افضل خان صاحب پر مشتمل بینچ نے پاناما کے ہنگامہ کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے ذریعے اس کے منطقی انجام تک لانے کا درست روڈ میپ جاری کر دیا۔ نئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب کی عدالت میں نئے سال کے پہلے ہفتے میں دو مقدمات میں بطور وکیل پیش ہوا۔ دھیمے لہجے کی پروفیشنل سماعت اور حوصلے کے ساتھ، بغیر وکیل کے ذاتی طور پر پیش ہونے والے انصاف کے سوالیوں سے شفقت بھرا سلوک اچھا لگا۔ نئے چیف جسٹس نے 5 صوبائی چیف جسٹس صاحبان کی کارکردگی جانچنے کا بروقت فیصلہ کیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے مستقبل کی اہم تعیناتی سکور کارڈ کی بنیاد پر ہو گی۔ وکیل برادری ایک عرصے سے جائز توقع کرتی آئی ہے کہ ہائیکورٹس، وفاقی شرعی عدالت‘ سارے ٹریبونلز اور خصوصی عدالتوں میں کارکردگی کا معیار جانچنے، عام آدمی کو جلد انصاف کی فراہمی اور طاقتور لوگوں کے مقابلے میں کمزور اور زیر دست طبقات کی موثر شنوائی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ سب سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔ لگتا ہے نئے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے عربی کے اس مشہور مقولے پر جوڈیشل ریفارمز کا منصوبہ بنایا ہے: “الناس علیٰ دینِ ملوکھم” (ترجمہ) (لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے پر چلتے ہیں) جس کا معروضی حالات میں مطلب یہ ہے کہ احتساب، باز پرس اور شفافیت کا آغاز اوپر والوں سے ہونا چاہیے‘ ملکی نظام کے اعلیٰ ترین درجے سے۔
یہ کہتے کلیجہ منہ کو آتا ہے، بات اگرچہ رسوائی کی ہے مگر 100 فیصد سچ یہی ہے کہ ایک سیاسی چیف جسٹس نے عدلیہ اور وکلا کے اداروں کو سیاست کی آگ میں جھونک دیا۔ وہ بار ایسوسی ایشنز جو ہمیشہ سے منتظم اور محترم تھیں آج وہاں گروپ بندی عروج پر ہے۔ بدقسمتی سے پسندیدہ وکیل اور پسندیدہ جج کی غلط روایت چل نکلی ہے۔ اسی انصاف شکن روایت کا ایک اور نتیجہ بھی سامنے آیا‘ جس کے تحت ایک ہی صوبے بلکہ ایک ہی شہر ایک ہی گروپ کے وکیل حضرات کو ہر طرح کے مقدمات میں عدالتی معاون فرینڈز آف کورٹ (AMICUS CURIAE) مقرر کیا گیا۔
کچہریوں میں کام کرنے والے جج صاحبان بدترین دبائو میں ہیں۔ کاش کوئی ان سے پوچھ لے ان کے کیا مسائل ہیں۔ مقدمات کی لمبی فہرستیں، کیسز کے لمبے التوا کی فرمائشیں، بار کے لیڈروں کی نام نہاد شکایتیں۔ ڈربہ نما عدالتی کمرے، بدترین سکیورٹی، کام کرنے کا انتہائی نامعقول ماحول، غیر تربیت یافتہ سٹاف اس کے چند ایک نمونے ہیں۔
چند عشرے پہلے تک بار ایسوی ایشن وکیلوں کے لیے انصاف کے حصول اور فراہمی کا بہترین ادارہ ہوتا تھا۔ اب اسے گروہی اور فروعی مفادات کا محور بنا دیا گیا ہے۔ جرح، دلائل، ایتھکس، پریزنٹیشن سکھانے کے لیے ہر بار میں ورکشاپس اور لیکچرز منعقد ہوتے تھے۔ قومی سیاسی قیادت اور ہر شعبے کے ممتاز افراد بار سے مخاطب ہوتے اور نوجوان وکلا سے تجربات شیئر کرتے۔ اب ہر طرف بھینس اس گروہ کی ہے جس کے پاس لاٹھی بردار لشکر ہیں۔ اس ماحول میں قانون و انصاف کے عمومی مسائل کے ساتھ ساتھ نئے چیف جسٹس کے لیے اصل امتحان 11 ماہ بعد تب سے شروع ہو گا‘ جب قوم نئے الیکشن کی تیاری پکڑے گی۔ پچھلے الیکشن میں دھاندلی کا نظام بھی 2013ء کے دو چیفس کے حصے میں آیا۔ ویسے بھی اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پچھلے سیاسی چیف نے آر اوز (Returning Officers) کے اجلاس منعقد کیے‘ جس کا کوئی اخلاقی جواز تھا اور نہ ہی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت۔ آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت جو کام الیکشن کمیشن کا تھا‘ وہ سیاسی چیف نے بزور طاقت خود “ٹیک اوور” کر لیا۔ فیئر، فری، شفاف اور قانون کے مطابق الیکشن کے بجا ئے ملک کی سیا سی تاریخ کی بد ترین دھاندلی برپا کی گئی۔ قوم اس الیکشن کے چار سال بعد بھی اس دھاندلی کے آسیب سے پیچھا نہیں چھڑوا سکی۔
دوسرے چیف یعنی عساکر کے سربراہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج مرکز اور پنجاب میں شاہی طرز حکمرانی ہے۔ اس طرز حکومت پر انگریزی کا یہ محاورہ 100 فیصد فٹ آتا ہے: ـ” Chief and all other-Indians” اس کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ ایک بادشاہ اور باقی سب درباری ۔ان درباریوں کے دوگروہ بنائے گئے ہیں۔ ایک: ترلہ گروہ۔ غلطی ہو گئی۔ آئندہ پھر نہیں ہو گا۔ سر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ہم آپ کے اصلی خادم ہیں وغیرہ۔ اس گروہ کے ایجنڈے کے مرکزی نکات ہیں: دوسرے کو ہتھوڑا گروہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کا کام خوف اور بے یقینی پر مبنی بڑھک مارنا ہے۔ ہتھوڑا گروپ کی تازہ ترین کارروائی آئین کی 21ویں ترمیم کے بارے میں بیان ہے۔ کہا گیا: ہم پہلے دن سے فوجی عدالتوں کے مخالف تھے۔ پی ایم ہائوس سے اطلاعات کی وزیر مملکت کا سندیسہ آیا: یہ بیان لاعلمی پر مبنی ہے۔ وہی اچھے سپاہی اور برے سپاہی (Good cop bad cop) والا صدیوں پرانا حربہ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے نفی کا مطلب کس کو راضی کرنا ہے؟ یہ سوال قوم کے لیے نہیں، فوج کے موجودہ سربراہ قمر جاوید باجوہ کے لیے اہم ہے۔ موجودہ سمیت تین آرمی چیف کے آبائی صوبے میں (National Action Plan) پنجاب پولیس کے ماتحت رہا۔ علی الاعلان کہا گیا: پنجاب سندھ نہیں جہاں ایکشن ہونے دیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت والے المشہور بڑے بھاء جی نے اپنے غیر جانب دار سپیکر کی ڈیوٹی لگائی تاکہ وہ فوجی عدالتوں کی بحالی کے لیے پھر اپوزیشن کو منا کر لے آئے۔ سوال یہ ہے، قوم کے ساتھ سچ کس نے بولا؟ پنجاب کے اقتداری ٹولے نے جس کا کہنا ہے کہ ہم پہلے دن سے فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول فوجی عدالتیں کوئی مقصد نہ پورا کر سکیں یا وفاقی حکومت کی بات پر یقین کریں جو کہتی ہے‘ نواز شریف کے سائے میں ملک کو تیسری مرتبہ فوجی عدالتوں کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔
خدا لگتی بات کہنی چاہیے جو یہ ہے: آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 کی رو سے شمالی علاقہ جات (FATA) بھی اتنا ہی پاکستان ہے جتنا کہ پنجاب۔ بلکہ کراچی اور کوہاٹ بھی‘ جہاں کسی فوجی ایکشن پر صوبائی حکومتوں نے پنجاب سرکار والا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نئی فوجی قیادت کا سب سے بڑا چیلنج نیشنل ایکشن پلان کی پنجاب تک بامعنی توسیع ہے۔
نئے سال کے آغاز پر قانون و انصاف اور نیشنل ایکشن پلان کے دونوں چیلنج نئے چیف صاحبان کا امتحان لینے کے لیے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ فی الحال اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔