منتخب کردہ کالم

دو ہی صورتیں اور دونوں خوفناک!…بلال الرشید

دو ہی صورتیں اور دونوں خوفناک!…بلال الرشید
بہت سی باتیں ہیں ،غمِ روزگار اور محبت کے غم میں ڈوبا انسان کبھی فرصت پا کر ان کے بارے میں سوچے تو حیرت اور خوف سے سوچتا ہی رہ جاتا ہے ۔
انسان کون ہے ؟ محتاط ترین اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں87لاکھ مخلوقات موجود ہیں ۔ اگر ہم انہیں بھی شمار کریں ، ماضی میں جنہوں نے اس زمین پر زندگی گزاری اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئیں ، مثلاًمیمتھ Mammoth(بڑا ، بالوں والی ہاتھی ) اور ڈائنا سار تو ان کی تعداد پانچ ارب تک جا پہنچتی ہے ۔دنیا بھر میں اگر دو لاکھ شیر پائے جاتے ہیں تو اس پانچ ارب میں وہ صرف ایک ہی گنے جائیں گے ۔سات ارب انسان بھی ایک ہی مخلوق شمار ہوں گے ۔ 87لاکھ کی تعداد صرف ایک اندازہ ہے ،جو اب تک جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر سائنسدانوں نے قائم کیا ہے ورنہ ہم ان سب کو گن نہیں سکتے۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ اس وقت جو 87لاکھ مخلوقات زندہ ہیں ، ان میں سے صرف 20فیصد کو انسان ایک نام دے سکا ہے ۔باقی 80فیصد ابھی تک نا معلوم ہیں ۔ اور اندازہ اس سے لگائیے کہ آج جو 87ارب مخلوقات زندہ ہیں ، وہ ماضی کی ان پانچ ارب مخلوقات کا ایک فیصد بھی نہیں ۔ 99فیصد سے زائد وہ مخلوقات ، جو کبھی اس زمین پر زندہ تھیں ، آج ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکیں۔
ہمارا ڈیٹا کس قدر نا مکمل ہے ۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ انسان نام دینے میں انتہائی مہارت رکھتا ہے ۔ انسان کی پیدائش، زمین میں اسے اپنا خلیفہ مقرر کرنے کے بارے میں خدا اور فرشتوں کا مکالمہ سنیں تو اس میں بھی آدمؑ کی نام سیکھنے کی صفت کا ذکر ہے ۔ ”اور سکھا دئیے آدمؑ کو سب نام اور پھر انہیں مقابل کیا فرشتوں کے ‘‘۔ اس کے بعد آدم ؑ نے تو ہر شے کا نام بتا ڈالا مگر فرشتے خاموش رہ گئے ۔ اسی نام دینے کی صلاحیت کی وجہ سے انسان آج اس قدر ترقی یافتہ ہے ۔ وہ جس فائدے مند چیز کو دیکھتا ہے ، اس کا جائزہ لے کر اسے ایک نام دیتا ہے اور پھر سب کو اس کے بارے میں بتا دیتا ہے ۔ اسی طرح ، جب کسی مضر شے یا جاندار سے اس کا واسطہ پڑتا ہے تو وہ اسے بھی ایک نام دے کر سب کو اس کے بارے میں بتا دیتا ہے ۔ یوںپوری نوعِ انسانی ہر مثبت اور منفی شے کے بارے میں جان چکی ہے ۔
یہ تو ہے انسان کی ترقی کا راز ۔جب ہم انسان اور جانوروں میں فرق دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے اعضا ایک ہی جیسے ہیں ۔ مثلاً جگر انسا ن میں بھی اسی طرح کام کرتاہے ، جیسے کہ ہاتھی اور گھوڑے میں ۔ دل اسی طرح خون کو گردش دیتا ہے ۔ پھیپھڑے اسی طرح آکسیجن اندر لے جاتے ہیں ۔ فرق صرف دماغ میں ہے۔ جب آپ اس بات پر غور کرتے ہیںپانچ ارب میں سے صرف 1سوچ رہا ہے اور باقی نہیں سوچ رہے تو ایک لمحے کے لیے انسان خو ف زدہ ہو جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ وہ سب جانور ، جن کے 99فیصد اعضا اور حیاتیاتی افعال انسان ہی کی طرح انجام پاتے ہیں اور حتیٰ کہ دماغ کا زیادہ تر نچلا حصہ بھی، وہ کیوں نہیں سوچ سکتے ؟ وہ کیوں کہکشائوں کے نام نہیں رکھتے ۔انسانی جارحیت اور استحصال کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچ سکتے ۔ اس لیے کہ انسان آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ وہ برتر پیدا کیا گیا۔وہ پیدا ہی سوچنے کے لیے کیا گیا۔ اس پر شریعت نازل ہوئی ۔ اس میں خواہشات ہی خواہشات پیدا کی گئیں اور پھر اسے ان خواہشات کی بجائے خدا ئی احکام کی تعمیل کا حکم دیا گیا ۔
جب یہ سوال اٹھایا جائے کہ صرف انسان ہی کیوں سوچتا ہے ؟ ماضی کے عظیم حادثات، زمین پہ دمدار ستاروں کے آگرنے، مخلوقات کے ناپید (Extinct)ہونے اور جو کچھ اس زمین پر ہو رہا ہے، ہر چیز کے بارے میں صرف انسان ہی کیوں سوچتا ہے ، اس کے علاوہ کوئی ایک بھی جانور کیوں نہیں سوچتا ؟ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے ۔ جس طرح انسان سانس لیتا ہے ، اسی طرح گھوڑے، ہاتھی اور دیگر جانور بھی لیتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ انسان جانتا ہے کہ وہ آکسیجن اندر لے جا رہا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر رہا ہے ۔ باقی جانور نہیں جانتے ۔ اگر کوئی اور جانور بھی سوچنے لگتا، مثلاً شیر یا ہاتھی تو اس کے بعد کیا ہوتا؟ اس کرّئہ ارض میں ، جہاں انسان مختلف گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ، وہ سب متحد ہو کر سوچنے والے شیر اور ہاتھی کے خلاف جنگ لڑتے ۔ یہ جنگ بے حد خوفناک ہوتی ۔ اس لیے کہ جسمانی طور پر شیر کی قوت اور پھرتی کا مقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں ۔
جب انسان اپنے اندر جھانکے تو دماغ ایک عظیم کائنات کی صورت میں اس کے سامنے پھیلا ہوتاہے ۔جب وہ باہر کی طرف نگاہ دوڑائے تو یہاں بھی ایک کائنات اس کے سامنے موجود ہے ۔ واحد انسان ہی تو وہی مخلوق ہے ، جو سر اٹھا کر دیکھے تو صرف دور سے ٹمٹماتے ہوئے ستارے ہی نہیں دیکھتا بلکہ کائنات کا ایک جامع مشاہدہ کرتا ہے ۔ اس کے بعد وہ اس کائنات پہ ایک جامع تبصرہ کرتا ہے ۔ آسان الفاظ میں یہ کہ سینکڑوں ارب کہکشائوں کا مجموعہ کائنات کہلاتا ہے ۔ یہ کہکشائیں وسیع و عریض خلامیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ہر کہکشاں سینکڑوں ارب ستاروں کا مجموعہ ہے ۔ سورج ان ستاروں میں سے ایک ہے ۔ یہ ہمیں حرارت فراہم کرتا ہے ، جم جانے سے محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ ہمیں توانائی فراہم کرتاہے ۔ اسی کی فراہم کردہ توانائی سے پودے اپنی خوراک بناتے ہیں اور آکسیجن بھی ۔ پودوں کی اسی خوراک کو سبزی خور جانور کھاتے ہیں ۔ بعض بڑے جانور ان سبزی خوروں کو کھاتے ہیں ۔ انسان سبزیاں بھی کھاتا ہے اور سبزی خور جانور بھی ۔ یہی نہیں ، اس پہ برا وقت آن پڑے اور کھانے کو کچھ نہ ہو تو یہ بڑے گوشت خور جانوروں کو بھی نہیں بخشتا۔
یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ زمین پر کوئلے، تیل ، سونے اور جن دوسرے عناصر کے لیے جنگیں ہوتی ہیں ، کائنات میں وہ ناقابلِ یقین حد تک بڑی مقدار میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ زحل کے چاند ٹائٹن پر تیل کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ اس کی ملکیت پہ جھگڑنے والا کوئی نہیں ۔زمین قتل و غارت کی تین بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے ۔ کروڑوں ایکڑ زمین ایک ایک سیارے پر بنجر پڑی ہے ۔ ملکیت کا دعویٰ کرنے والا کوئی نہیں ۔آخرکیوں ؟ یہ کائنات ویران کیوں پڑی ہے ؟ کیوں اس کے وسائل پہ حقِ ملکیت جتانے والا کوئی نہیں ؟ ایک عالی دماغ نے کہا تھا، دو ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ انسان اس کائنات میں اکیلا ہے اور صرف کرّئہ ارض پہ زندگی پائی جاتی ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی موجود ہے۔ اگر توہم اکیلے ہیں تو یہ کتنی خوفناک بات ہے( یہ سوال کہ ہم کہاں سے آئے اور کیوں آئے اور اس کے علاوہ تنہائی کا خوف ) اور اگر ہم اکیلے نہیں تو یہ بھی بہت خوفناک بات ہے (چھپے ہوئے دشمن کا خوف )۔دو ہی صورتیں ہیں اور دونوں ہی خوفناک !