دھاندلی، رسہ اور کھمبا…بابر اعوان
الیکشن 2018ء کا نتیجہ آنے کے بعد مری مال روڈ پر انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ لوگ پہاڑی زبان میں فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے ”ہیر گئے، ہُور گئے، شیراں والے کُور گئے‘‘۔ جس کا مطلب ہے ادھر گئے، ادھر گئے، شیروں والے کدھر گئے۔
کدھر گئے کے پہاڑی نعروں نے مجھے پاکستان کے انتخابی سروے ماڈل 2018 ء یاد کرا دیئے۔ موٹی عینکوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے قوم کی امنگوں کے بے رحم شکاری۔ Paid Content سے لبریز بے تُکے اندازے۔ ہر جگہ شیروں کی آمد آمد۔ عمران خان کی بشری کمزوریوں کے بے ہودہ تذکرے۔ آزاد ووٹرز کے اجتماعی شعور کی تحقیر۔ لفظ غیر جانبداری کی ننگی تذلیل۔ عام آدمی کے ابلتے جذبات کی توہین۔ مالِ مفت، دلِ بے رحم کے برہنہ مظاہرے۔ معاشی سنڈاس اور فکری خناس کے ڈھیروں سے اٹھنے والے تعفن اور شدید بد بُو پر سروے کا کفن چڑھایا گیا۔
ہر سروے ووٹ کو عزت کی فتح مبین کا بیانیہ نکلا۔ پچھلے سال امریکہ میں مین سٹریم میڈیا۔ اِن پول، ایگزٹ پول، رینڈم پول سروے، رائٹ پول، انڈیپنڈنٹ پول، یوتھ پول، سی این این پول سے لے کر لیفٹ پول رائٹ پول تک‘ ہر جگہ ہیلری کلنٹن جیت رہی تھی۔ اسی اثنا میں جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے ایک پرائیویٹ جیٹ نے اڑان بھری، جس کی منزل اسلام آباد تھی۔ اس چارٹرڈ طیارے میں دو امریکی گورے اور تیسرا امریکی سِکھ سوار تھا۔ جسے ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد پیار سے ایل کے سنگھ کہہ کر پکارتا ہے۔ جہاز کے مسافر دنیا کی بہت بڑی لابی کرنے والی فرم کے کارندے تھے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے یہ غیر ملکی مارگلہ روڈ پر واقع ایک گھر میں پہنچے۔ یہی قافلہ کئی گھنٹے گزارنے کے بعد ایف سیکٹر کی قلعہ نما گلی میں داخل ہو گیا۔ لابی فرم پاکستان کے دو چوٹی کے سیاست کاروں کو سمجھانے آئی تھی کہ وہ ہیلری کلنٹن کے الیکشن میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا: جھوٹی سروے رپورٹیں‘ رینٹ پر بولنے والے تجزیہ کار‘ فروخت شدہ ”چیٹ شوز‘‘ اور مین سٹریم میڈیا اپنی خواہش کو خبر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ہیلری کو چاروں شانے چِت کر دے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے دو بظاہر بڑے مخالف فریق ایک ہی لابی فرم کے کلائنٹ تھے۔ چارٹرڈ طیارے کے مسافر مایوس ہو کر امریکہ واپس چلے گئے۔ رینٹ اے سروے اور ہائیر اے پول پِٹ گئے۔ ساتھ ہی پاکستان کے دو بڑے سیاستدانوں کی سرمایہ کاری بھی کُھوہ کھاتے گئی۔
یہاں کچھ غیر معروف سروے کرنے والوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے‘ جنہوں نے 25 جولائی کے الیکشن کا درست تجزیہ کیا۔ سروے سیمپلنگ میں ڈنڈی نہ ماری۔ اپنی خواہشوں کو خبر نہ بنایا؛ چنانچہ ان کے سروے کامیاب رہے‘ اور ان کی توقیر میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے دنیا گروپ کے حبیب اکرم اور ٹیم کو داد نہ دینا شدید کنجوسی ہو گی‘ جنہوں نے نگر نگر پہنچ کر براہ راست ووٹر کی رائے معلوم کی۔ پھر اسے ووٹرز کے لفظوں میں عوام تک پہنچا دیا۔ میں یہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ الیکشن کے دوران یہی سروے سب سے زیادہ زیر بحث آئے اور معتبر ٹھہرے۔
اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک خاتون اینکر نے کہا: پنجاب کے الیکشن میں 100 فیصد دھاندلی ہوئی۔ عرض کیا: کون کہتا ہے؟ جواب آیا فنکارِ اعلیٰ پنجاب۔ میں نے کہا: میرے دو سوال ریکارڈ کر لیں‘ یہی سوال فنکارِ اعلیٰ سے پوچھیں اور سوال و جواب کی صورت میں سکرین پر چلا دیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
پہلا سوال یہ ہے: کیا لاہور میں دھاندلی ہوئی؟ لاہور سے نون لیگ نے 10 سیٹیں نکال لیں۔ پی ٹی آئی کو صرف 4 سیٹیں مل سکیں۔ کیا گوجرانوالہ میں دھاندلی ہوئی؟ جہاں نون لیگ آل پی ٹی آئی زیرو سیٹ۔ کیا ساہیوال میں دھاندلی ہوئی؟ جہاں پی ٹی آئی کا نتیجہ زیرو اور ساری سیٹیں نون لیگ لے گئی۔ سرگودھا میں دھاندلی ہوئی؟ ساری سیٹیں نون کے کھاتے میں گئیں‘ اور پی ٹی آئی سرگودھا سے خالی ہاتھ رہی۔ پھر 100 فیصد انتخابی دھاندلی نارووال جا پہنچی۔ پی ٹی آئی آئوٹ ہو گئی اور نون لیگ اِن‘ بلکہ 100 فیصد اِن رہی۔ سادہ سا سوال یہ ہے ان تمام ضلعوں میں دھاندلی ہوئی؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے‘ تو الیکشن ہارنے والے سارے دھاندلی باز ہیں اور الیکشن جیتنے والوں کے ووٹ کی بے عزتی ہو گئی۔ الیکشن 2018 ء کا ایک اور پہلو بھی تبصرہ مانگتا ہے‘ جس کے موجد ووٹ کو عزت دینے والے ہی ہیں‘ فوج اور عدلیہ لمبے عرصے کی ٹیکنوکریٹ حکومت لا رہے ہیں۔ جیپ کا نشان اصل میں فوجی جیپ ہے‘ جس میں سوار امیدواروں کو حکومت دے دی جائے گی۔ پی ایس پی کراچی میں اسٹیبلشمنٹ نے بنوائی۔ سندھ کی اگلی حکومت اُسے ملے گی۔ کچھ شرم اور کچھ حیا والا پہلے ہارا پھر گنتی پر گنتی ہوتی رہی۔ تب تک گنتی ہوئی جب تک چند 100 ووٹوں سے سیالکوٹ کے این اے 73 کا نتیجہ پلٹ نہیں گیا۔ فوج اور عدلیہ کو پَری پول دھاندلی کے طعنے دینے والا ماڈل ٹائون قتلِ عام کا مرکزی کردار‘ ڈاکٹر نثار جٹ کے سامنے ہار گیا۔ پھر گنتیوں کی سیریز چلی۔ ایسی سیریز چلی کہ نثار جٹ کی کامیابی رات کی راہی ہو گئی۔ یہ کیسی دھاندلی ہے‘ جس میں پاکستان کی فوج اور عدلیہ کے خلاف بھارت کی زبان بولنے والے الیکشن جیت گئے۔
ویسے آپس کی بات ہے‘ ملک کے سیاسی قبضہ گروپوں کے خلاف نوجوان ووٹرز نے شدید دھاندلی کی ہے‘ اُن کے عشروں پرانے سیاسی قبضے کو دھکا مار کر۔ اب یہ دھاندلی کبھی نہیں رُک سکتی‘ کیونکہ عمران خان کے بقول اُس کے ووٹر سال 1996 ء میں بچے تھے۔ 2018ء میں وہ سارے بڑے ہو گئے۔ ساڑھے چار کروڑ بچے بڑے ہوتے ہی ووٹر بن گئے۔ اب یہ دھاندلی کون روک سکتا ہے؟ آنے والے 2023ء کے الیکشن میں ان بچوں کے ووٹ ڈبل ہو جائیں گے۔ ویسے بھی نوجوان ووٹروں کی تعداد ہماری کل آبادی کا 65 فیصد ہے۔ ذرا زیادہ میچور عمر والے اور بزرگ صرف 35 فیصد۔ خود ہمارے ہاں الیکٹ ایبل کا تناسب 15 فیصد ہے۔ سادہ لفظوں میں 100 آنے والوں میں سے 85 ہار بیٹھے۔ ووٹر پہلے والا نہیں رہا۔ اس کی دنیا بھی بدل چُکی ہے۔ وڈیر ے، سردار، نواب اور صاحب سمارٹ فون والے ووٹر کے سامنے بے بس ہیں۔ سامنے کی بات ہے‘ ابھی حکومت بنی نہیں۔ عہدے ملے نہیں۔ حلف اُٹھے نہیں‘ اور سوشل میڈیا نے واچ ڈاگ کا مؤثر کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اپوزیشن 10 سال بعد متحد ہو رہی ہے۔ صرف یہ ایک اتحاد اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چُکی ہے۔ مریم صفدر صاحبہ تو کرپشن چارج پر جیل میں ہیں‘ تا حیات نا اہل نواز شریف پہلے زیادہ کھانے پر اڈیالہ جیل گیا‘ اب ہر تیسرے روز زیادہ کھانے کی وجہ سے ہسپتال جاتا ہے۔ یہ دونوں اور فنکارِ اعلیٰ پوری انتخابی مہم میں 3 باتیں کہتے رہے: عمران، زرداری بھائی بھائی ہیں۔ عمران اور زرداری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ تیسری بات، عمران کو ووٹ مت دو‘ جو ووٹ عمران کو ڈالو گے‘ وہ زرداری کو پڑ جائے گا۔ 25 جولائی کو مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہے۔ فنکارِ اعلیٰ کی فنکاری دیکھئے 2 دفعہ زرداری صاحب کی پارٹ کے چرنوں میں بیٹھ چکے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے‘ احتساب والے سیف الرحمن کی کہانی دہرائی جائے۔ ہو سکتا ہے‘ یہ منظر دوبارہ دیکھنے کے لیے حامد میر صاحب بھی آس پاس ہوں‘ اور فنکارِ اعلیٰ کا گریٹ سرنڈر دیکھیں۔ منظر کچھ اس طرح ہو گا۔ آصف زرداری سامنے کھڑے ہیں۔ فنکارِ اعلیٰ شکاری وردی اور پانامہ ہیٹ میں ملبوس۔ پہلے گلے میں ڈالنے والا رسہ آصف زردای کے قدموں میں رکھ دے۔ پھر لٹکانے والا کھمبا ان کے سامنے لمبا ڈالیں۔ آخر میں پیٹ پھاڑنے والا کمانی دار چاقو ندامت کے آنسوئوں میں بھگو کر 6 ارب ڈالر کی قبر میں دفنا دیں۔