منتخب کردہ کالم

دھرم کا دھندہ .. کالم بلال غوری

دھرم کا دھندہ .. کالم بلال غوری

بھارت میں 20 لاکھ بھگوان ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے۔ مذہبی اعتبار سے باقی سب ممالک مفلس ہیں مگر بھارت ارب پتی ہے۔ امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن۔
بھارت وہ ملک ہے جہاں ہر مذہب کے لئے گنجائش موجود ہے۔ برطانوی خاتون مفکر اینی بیسنت۔
بابے، گرو، سادھو، سنت، فقیر دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں بہت پہنچے ہوئے ہوتے ہیں‘ مگر بھارتی پنجاب کے ڈیرہ سچا سودا سے شہرت پانے والے بابا گرومیت رام رحیم کچھ زیادہ ہی پہنچے ہوئے نکلے۔ انوکھی طرز کے بابا گرومیت رام رحیم شوخ کپڑے پہنتے ہیں، برانڈڈ گھڑیوں کا شوق رکھتے ہیں، مہنگی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پسند کرتے ہیں، پاپ سنگر کے طور پر گلوکاری کے جوہر دکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ پند و نصائح کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ گرومیت رام رحیم کی رنگین مزاجی کے باعث انہیں ”راک اسٹار‘‘ بابا کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے نہ صرف فلم بنا کر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے بلکہ ایک ہی فلم میں 43 مختلف ذمہ داریاں نبھا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام بھی درج کروایا۔ گرومیت رام رحیم کے عقیدت مندوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، دھن دولت کی کوئی کمی نہیں۔ سیاسی گرو بھی ان کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتے۔ ہریانہ سرکار کی طرف سے گرومیت رام رحیم کو وی وی آئی پی سکیورٹی اور پروٹوکول دیا جاتا۔ 2002ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو ایک گمنام خط ملا جس میں ایک خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ گرو گرومیت خواتین کو گناہوں سے پاک کرنے کا کہہ کر ان کی عزتیں پامال کرتے ہیں۔ واجپائی نے یہ خط وفاقی تفتیشی ادارے سی بی آئی کو بھیج دیا۔ تفتیش شروع ہوئی تو مزید کئی خواتین نے سی بی آئی سے رابطہ کیا۔ الزام ثابت ہو گیا تو چند روز قبل گرومیت پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ گرومیت کسی ملک کا منتخب وزیر اعظم تھوڑی تھا کہ لوگ یہ فیصلہ اتنی آسانی سے ہضم کر لیتے۔ ان کے چاہنے والے اور عقیدت مند بپھر گئے، پُر تشدد احتجاج کے دوران کئی ریلوے سٹیشن اور گاڑیاں جلا دی گئیں اور 38 افراد مارے گئے۔ پیر کو عدالت نے گرو کو طلب کرنے کے بجائے روہتک جیل میں ہی عدالت لگانے کا فیصلہ کیا‘ اور انہیں دس برس قید کی سزا سنا دی۔ یہ فیصلہ آنے کے بعد یقینا ان کے عقیدت مندوں کا اشتعال اپنی آخری حدوں کوچھو رہا ہو گا اور فسادات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے‘ مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ دھرم کا یہ دھندہ کتنا ہی پراگندہ کیوں نہ ہو، دنیا میں اس جیسا کامیاب کاروبار اور کوئی نہیں ہے۔
کاروبار کے لئے حالات کا سازگار اور ماحول کا موافق ہونا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شخص سرمایہ لگانے سے پہلے یہ حساب کتاب لگاتا ہے کہ اس علاقے میں امن و امان کی صورتحال کیسی ہے؟ لوگوں کی قوت خرید کیا ہے؟ جو مصنوعات بیچنی ہیں ان کی ڈیمانڈ کتنی ہے، ناکامی کے امکانات کتنے ہیں؟ یہ سب تخمینہ لگانے کے بعد کاروبار شروع کیا جاتا ہے لیکن دھرم کے دھندے کا کمال یہ ہے کہ اس کے لئے کسی قسم کا سرمایہ لگانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ نہ ہی ان اندیشوں اور وسوسوں کے سبب پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔ بس آپ کو چند ایسے قابل بھروسہ افراد کا تعاون درکار ہے جو کمپنی کی مشہوری کے لئے اٹھتے بیٹھتے ایک ہی بات کا ورد کرتے چلے جائیں ”فلاں بابا، فلاں گرو، فلاں پیر
بہت پہنچا ہوا ہے‘‘۔ اس مشہوری کے بعد آپ کو نہ تو کسی ٹی وی چینل پر اشتہاری مہم چلانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اپنا کاروبار رجسٹرڈ کروانے کی حاجت۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھرم کے دھندے کی آمدن پر ٹیکس بھی نہیں لیا جاتا۔ جب بھی کسی ملک کے حالات خراب ہوتے ہیں، کوئی قدرتی آفت آتی ہے، ملکی معیشت بیٹھ جاتی ہے تو لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں مگر یہ ایسا سدا بہار دھندہ ہے جو ایسے بدترین حالات میں مزید چمک اٹھتا ہے۔ معاشرے میں انتشار اور خلفشار ہو، خونریزی ہو، دنگا فساد ہو تو سب دھندے چوپٹ ہو جاتے ہیں مگر دھرم کے حصص بلند ترین سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔ یوں تو پیروں فقیروں اور بابوں کے دھندے نے پاکستان میں بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے مگر بھارت کی زمین دھرم کے دھندے کے لئے کچھ زیادہ ہی زرخیز اور آب و ہوا بے حد سازگار معلوم ہوتی ہے۔ صرف ہریانہ میں 103 ڈیرے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں ڈیروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ بابا گرومیت رام رحیم سے پہلے بھی کئی بابے اپنے دھاک بٹھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر یوگا گرو بابا رام دیو اس دھندے کے بے تاج بادشاہ شمار ہوتے ہیں۔ بابا رام دیو نے روحانیت کا سہارا لیتے ہوئے پہلے اپنی ادویہ ساز فیکٹری لگائی، پھر چاول کا شیلر لگایا، ٹوتھ پیسٹ، کریم اور تیل جیسی مصنوعات متعارف کروائیں اور اب کھربوں روپے کے اثاثہ جات کے مالک ہیں۔ بابا آشا رام اور ان کے بیٹوں کا دھندہ بھی خوب چل رہا ہے۔ کئی بابے تو ایسے ہیں جن کا اپنا ٹی وی چینل ہے۔
نروان، آتم تیاگ، تپسیا، روحانیت، تعویز گنڈے کی دکانیں اس لئے منافع میں جا رہی ہیں کہ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں ان کے نرخ سب سے کم ہیں۔ ایک شخص کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے‘ اگر کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کریں گے تو ہزاروں روپے فیس درکار ہو گی اس کے مقابلے میں پیر فقیر کی درگاہ پر یہی کام سو پچاس میں ہو جائے گا۔ آپ کے مثانے میں پتھری ہے، کسی بھی ہسپتال سے آپریشن کروانے کی صورت میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں روپے کا بل ضرور بنے گا، آپ کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تو کیا کریں؟ کسی روحانی معالج سے علاج کروا لیں۔ جب یہی غریب لوگ کوئی جگاڑ لگنے پر امیر ہو جاتے ہیں تو انہیں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ کہیں یہ دولت چھن نہ جائے اس لئے وہ ان بابوں کے در پر ماتھا ٹیکتے ہیں اور ان کی سیوا کرتے ہیں۔ جو لوگ ناجائز ذرائع سے دولت کما رہے ہوتے ہیں وہ احساس جرم اور احساس ندامت سے چھٹکارا پانے کے لئے ایسے پہنچے ہوئے گرو کے چرن چھوتے ہیں اور انہیں چندہ دینے کے بعد اطمینان ہو جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر پانے کے خمار اور کھونے کے آزار میں مبتلا لوگوں کی دستیابی کے باعث بابے، گرو، سنت، فقیر اور سادھو کا دھندہ مسلسل پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو جو خود بھی بشپ کے منصب پر فائز رہے اور انہیں جنوبی افریقہ میں ایڈز اور نسلی تعصب کے خلاف جنگ لڑنے پر امن کا نوبیل ایوارڈ بھی دیا گیا، انہوں نے دھرم کے دھندے کی کیا خوب نقشہ گری کی ہے۔ پڑھئے اور سر دھنیئے:
”جب عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے پادری افریقہ آئے تو ان کے ہاتھوں میں بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں تھیں۔ انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کو کہا، ہم نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دست دعا بلند کئے جب آنکھیں کھولیں تو ان کے پاس زمینیں تھیں اور ہمارے ہاتھوں میں بائبل‘‘۔
کاروبار کے لئے حالات کا سازگار اور ماحول کا موافق ہونا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شخص سرمایہ لگانے سے پہلے یہ حساب کتاب لگاتا ہے کہ اس علاقے میں امن و امان کی صورتحال کیسی ہے؟ لوگوں کی قوت خرید کیا ہے؟ جو مصنوعات بیچنی ہیں ان کی ڈیمانڈ کتنی ہے، ناکامی کے امکانات کتنے ہیں؟ یہ سب تخمینہ لگانے کے بعد کاروبار شروع کیا جاتا ہے لیکن دھرم کے دھندے کا کمال یہ ہے کہ اس کے لئے کسی قسم کا سرمایہ لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

..
اگلا کالم