گلشن اقبا ل پارک،علامہ اقبال ٹائون لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے پوری قوم کو رنجیدہ اور سوگوار کردیا ہے۔دھماکہ میں 74سے زائد افراد جاں بحق 350کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں ۔جاں بحق ہونے والوں میں 29 معصوم بچے اور 24خواتین ہیں ۔ دشمن پاکستانی عوام میں خوف وہراس پیداکرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہسپتالوں میں جو زخمی مسیحی بچے ،خواتین اورمرد داخل تھے مسلمان نوجوانوں نے ان کو خون دے کر ثابت کیا کہ اقلیتوںکی جانیںبھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی ایک عام پاکستانی شہری کی۔
حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملہ سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرہ ٔخون کا انتقام لیا جائے گا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ۔جبکہ حالیہ سانحہ کی تحقیقا ت کے لئے حسب سابق جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذ مہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات ضروری ہیں۔لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعوئوں کے باوجوددہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہیں؟وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی سمت درست نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں جس کا سامنا ہماری قوم کو کرنا پڑا ہو بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کی بہت سی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں ۔تاریخ کی ایک بدترین دہشت گردی آج سے 69سال پہلے ہوئی تھی جس میں 15لاکھ پاکستانی بڑے ہی بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیئے گئے تھے۔ پنجاب کے کھیتوں اور کھلیانوں میں پاکستانیوں کی لاشوں کے اس قدر ڈھیر لگ گئے کہ دریا سرخ ہوگئے اور فضا متعفن ہو گئی تھی۔یہاں تک کہ دہشت گردوں نے حاملہ مائوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالا،نیزوں پر اچھا لا اورمیخوں میں پرو کر مساجد کے منبر ومحراب میں گاڑ کر نیچے لکھ دیا تھا ”یہ ہے پاکستان۔‘‘
تاریخ کی سب سے بڑی اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈجواہر لال نہرو،گاندھی اور کانگریس کے دیگر رہنما تھے ۔انہوں نے پاکستان مخالف بیانات دیئے اور پھر دنوں ،مہینوں میں اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ پاکستان دشمنی میں شرافت اورانسانیت کی تمام حدیںپامال کرسکتے ہیں۔
دہشت گردی کا ایک اور بدترین واقعہ 1971ء میں پیش آیا تھاجس میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی شہید کر دیئے گئے تھے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ دہشت گردوں کانشانہ بننے والوں میں مولوی فریداحمد بھی شامل تھے۔پاکستان کا پرچم لہرانے کی پاداش میں مولوی فرید احمد کا جب ایک ہاتھ کاٹ دیاگیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پرچم تھام ‘لیاجب دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے حتیٰ کہ بے رحم دہشت گردوںنے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔سلہٹ کے رہنے والے جمال احمد سفید ریش بزرگ اور محب وطن تھے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کی پاداش میںجمال احمد کی ٹانگوں کے ساتھ رسے باندھے گئے،رسوں کو دو جیپوں کے ساتھ باندھا گیا اورجیپوںکومخالف سمت میں چلا دیا گیاجس سے جمال احمد کا جسم دوحصوں میں چر گیا۔
آہ… افسوس صد افسوس…! آج ہم دہشت گردی کے یہ تمام المناک سانحات بھول چکے اور دشمن کی شناخت بھی کھو بیٹھے ہیںجس کا نتیجہ ہے کہ غلطی پر غلطی کر ر ہے اور منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ سال ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہہ چکے ہیں… ہم ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا… ہم ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا…ہم ہیں جنہوںنے پاکستان توڑااور آئندہ بھی ہم یہ سب کچھ کریں گے۔سچی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے کی مسابقت جاری ہے ۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے جس پاکستان دشمن پالیسی کی بنیاد رکھی ہر بھارتی حکمران نے اپنے وقت میں اسے آگے بڑھایا ہے جبکہ نریندر مودی نے اپنے پیش روئوں سے دس ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنی انتخابی مہم پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی،ووٹ حاصل کئے اور اسی بنیاد پر وزیر اعظم بنے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کے اقتدار کے ایوانوں میں دہشت گر د براجمان ہیںجو نہ صرف سرکاری سطح پر دہشت گرد ی کی سرپرستی کرتے بلکہ دہشت گرد تیار کر کے پاکستان بھیجتے ہیں۔18فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے المناک سانحہ کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جب آناََ فاناََ خوفناک آگ نے ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر بند ڈبوں میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور عورتیں سوکھی لکڑی کی طرح جل کر کوئلہ ہو گئے تھے۔اس حادثہ کا مجرم کوئی عام آدمی نہیں بلکہ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت تھا جس نے دھماکہ خیز مواد فوجی کیمپ سے حاصل کیاتھا۔اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ”را‘‘ کا ایجنٹ ”کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یہ شخص” را ‘‘کا عام ایجنٹ نہیں بلکہ فیلڈ کمانڈر ہے جو2003ء سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں کورنگ پوسٹ کے طور پر تعینات تھا ۔ وہ3مارچ 2016ء کو آخری بار ایران کے بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوااور پھر مع ثبوتوں ،دستاویزات و نقشہ جات گرفتار ہوا۔یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی و تخریب کاری کی تمام کارروائیوں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ”را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا…؟جواب واضح ہے کہ ”را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔”را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے پوری قوم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ بھوشن کی گرفتاری سے ہمارے ہاتھ پکا ثبوت آگیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے سے جو ثبوت ہیں ان کا کیا بنا…؟مودی کا ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر علی الاعلان پاکستان توڑنے کا اعتراف …کیا یہ ثبوت کافی نہ تھا کہ اب ہم خود کو بہلانے کے لئے مز ید شوا ہد کی تلاش میں ہیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم سرابوں اور خوابوں سے نکلیں۔معاملہ بھارتی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ میں طلبی اور مراسلہ تھمانے سے آگے نکل چکا ہے لہٰذادہشت گردی کے اسباب کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھوشن کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیںاور دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کریں۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے تھا کہ اپنے نشری خطاب میں بھارتی جارحیت اور یادیو کی گرفتاری پر بات کرتے۔ہمارے حکمرانوں کی خاموشی سے بھارت کو شہ ملتی ہے۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان کہ”گرفتار ہونے والا ہمارا قابل احترام فوجی آفیسر ہے اور اس کی رہائی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘‘اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔سو،ان حالات میں خاموشی…مصلحت ہے نہ سیاست بلکہ مداہنت ہے اور مداہنت ہمیشہ جارحیت کا باعث بنتی ہے۔