منتخب کردہ کالم

دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کارروائی کی تجویز (نئی دنیا) آغا مسعود حسین

پاکستان کی عسکری قیادت کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ کارروائی کی تجویز بروقت ہے۔ جب تک یہ دونوں ملک مل کر دہشت گردی کے عفریت کو ختم نہیں کریں گے، یہ مسئلہ بدستور قائم رہے گا‘ دونوں ملک ان عناصر کی کارروائیوں کی وجہ سے معاشی نقصانات اٹھاتے رہیں گے۔ قیمتی انسانی جانوں کا زیاں بھی اپنی جگہ انتہائی گہری تشویش کا باعث ہے۔ اسی قسم کی تجویز ماضی میں امریکہ بہادر نے دی‘ اور اب بھی دی ہے تاکہ مشترکہ کارروائیوں کے ذریعہ امن اور ترقی کے مشترکہ دشمن کو نیست و نابود کیا جا سکے۔ پاکستان نے اس قبل سے افغانستان کی حکومت سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ابتدا میں اس تجویز پر عمل درآمد ہوا، لیکن بعد میں غلط فہمیوں کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی رک گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جو حالیہ لہر ابھری ہے‘ اس کے سارے ڈانڈے افغانستان کی سرزمین سے مل رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان تھوڑی بہت جو تفہیم موجود تھی، وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تجویز پر افغانستان کی حکومت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا، الٹا پاکستان کو ایک یادداشت پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بعض دہشت گرد پاکستان میں پناہ گزین ہیں‘ جبکہ تربیتی کیمپ بھی موجود ہیں‘ جہاں سے یہ عناصر افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگر افغان حکومت دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر الزام عائد نہیں کرے گی تو پھر اس کا حقہ پانی کس طرح چل سکے گا؟ بھارت کو کس طرح خوش رکھا جائے گا؟ چنانچہ پاکستان کی جانب سے حالات و واقعات کی روشنی میں پیش کردہ تجویز کو افغانستان کی جانب سے در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا‘ جو اس بات کی دلیل ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ، امن نہیں چاہتا، بلکہ وہ جان بوجھ کر کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی تجویز کو مسترد کرانے میں بھارت کا کردار صاف نظر آ رہا ہے۔ بھارت یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے ہمسائیگی کے تعلقات استوار ہو جائی، وہ اپنی اس حکمت عملی میں اب تک کامیاب بھی ہے، لیکن افغانستان کے بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ سے خود اس کی معیشت اور خود مختاری کو دھچکا لگ رہا ہے۔ امریکہ بہادر نے ہر چند کہ پاکستان کی جانب سے مشترکہ کارروائی کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے، لیکن اس کی جانب سے افغان حکومت کو اس تجویز پر قائل کرنے کا کوئی عملی اشارہ اب تک نہیں ملا۔ افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے خلاف جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں‘ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی حمایت میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت انتہائی کمزور ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظر میں موجودہ حالات میں بہتری لانے کے سلسلے میں کوئی واضح حکمت عملی بھی نہیں ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان کہ دہشت گرد کو دیکھتے ہیں گولی مار دو، ان کے غم و غصے کو تو ظاہر کر رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں۔ محض افواج پاکستان پر ہر طرح کا بوجھ ڈال دینے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ دشمن پاکستان کے اندر در آیا ہے، اور بیرونی ممالک اور اندرونی حمایت سے پاکستان کی قومی معیشت اور سالمیت سے کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس خطرناک صورتحال کے پیشِ نظر حکومت کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی چاہئے، اور کھل کر افواج پاکستان کی مدد اور حمایت کرنی چاہئے، اور مالی کرپشن کو دہشت گردی کی طرح ختم کرنا چاہئے۔
حالات بتا رہے ہیں کہ اس وقت بیرونی دشمن سے زیادہ اندورنی دشمن کا قلع قمع کرنا انتہائی ضروری ہے، جس کے لئے سول انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کا عملی تعاون غیر معمولی اہمیت کا حامل بنتا جا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں ادارے دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اپنے فرائض بلا خوف و خطر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر انجام دیں تو یقینا حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں جن ممالک میں اس قسم کی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے تھے‘ وہاں خفیہ اداروں کے درمیان مربوط تعاون کے ذریعے سماج دشمن عناصر پر غلبہ حاصل کیا گیا تھا۔
پاکستان کے لئے ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دونوں پڑوسی بھارت اور افغانستان پاکستان کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں۔ بھارت تو روز اول ہی سے پاکستان کا کبھی خیر خواہ نہیں رہا۔ اس نے ہر دور میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، جس میں مشرقی پاکستان کے سقوط کا افسوسناک واقعہ بھی شامل ہے، لیکن نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں، جس میں اس کی چند پیسوں کی خاطر مدد افغان حکومت بھی کر رہی ہے، حالانکہ بھارت کے ساتھ تعاون کی وجہ سے تخریبی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور خود افغانستان کے عوام غربت اور افلاس کی صورت میں اس حمایت کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ افغان طالبان ہر محاذ پر اس کی غیر تربیت فوج کو پسپا کر رہے ہیں۔ خاصے وسیع علاقے افغان طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ اب امریکہ یہ سوچ رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھا دی جائے۔ اس کے اشارے خود موجودہ امریکی صدر ٹرمپ دے رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے اپنے انتخابی جلسوں میں بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ امریکہ کی فوج کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لئے نہیں لڑے گی؛ چنانچہ ان تشویشناک حالات کے پیش نظر پاکستانی قوم کو بیدار رہنے کے ساتھ آپس میں یکجہتی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاکستانی سیاست دانوں کے مابین ہر ایشو پر اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں، جو اندرونی اور بیرونی دشمن کے لئے حوصلے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی قیادت دوسرے ملکوں کے دورے کر رہی ہے، جس کے اچھے نتائج نہ تو معیشت پر پڑے ہیں اور نہ ہی معاشرے پر۔ یہ صورتحال خود اپنی جگہ انتہائی توجہ طلب ہے۔ کیا ملک کے معاملات اس انداز میں چل سکتے ہیں جیسے موجودہ حکومت چلا رہی ہے؟ پاناما کیس نے حکومت کا‘ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو دیا ہے، لیکن ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی پالیسی کی ہمیں بھاری قیمت چکانا پڑی ہے‘ لیکن ہم پھر بھی اسی جانب گامزن ہیں۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیوں؟
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/aga-masood-hussain/2017-03-09/18815/57750865#tab2