اسلام آباد میں عمران خان کے قومی خطاب کی نوک پلک ابھی درست کی جا رہی تھی، میڈیا کے لوگ بنی گالہ سے کی جانے والی اس تقریر کی ریکارڈنگ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ لاہور میں تحریک انصاف نظریاتی گروپ کی ایک تقریب میں شاہ محمود قریشی نے جوش خطابت میں نہیں بلکہ بقائمی ہوش و حواس عمران خان کی تقریر کے غبارے سے ہوا نکالنے کی پوری کوشش کر ڈالی‘ لیکن عمران خان اس قدر سخت جان نکلا کہ ملتان کے ایک مخدوم کے بعد دوسرے مخدوم کا وار بھی ہنس کر سہہ گیا۔ تقریر شروع کرنے سے کچھ دیر پہلے عمران خان کے پاس شاہ محمود قریشی کی تقریر کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں‘{ جس سے ایک لمحے کے لئے ان کے ماتھے پر گہرا تفکر نمودار ہوا، لیکن وہ کپتان ہی کیا جو تلاطم خیز موجوں سے گھبرا کر دل چھوڑ بیٹھے۔ کپتان نے ملتان کے دوسرے مخدوم کا وار بھی صبر و استقامت سے سہتے ہوئے ہمت اور حوصلے سے خطاب مکمل کیا۔
شاہ محمود قریشی نے دھواں دھار تقریر کر کے میاں نواز شریف کے لئے وہی خدمت انجام دی‘ جو جاوید ہاشمی نے اسلام آباد کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے کی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس دھرنے کے دوران کی‘ جبکہ شاہ محمود قریشی کی تقریر دھرنا شروع کرنے کے اعلان سے پہلے کی گئی۔ موقع دونوں مخدوموں نے خوب چنا۔
شاہ محمود قریشی نے نظریاتی گروپ کے نام سے منعقدہ تقریب میں یہ متکبرانہ اعلان کیا کہ اگر کسی وقت انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے چوہدری سرور اور جہانگیر ترین کو ٹکٹ کی درخواست دینے کی نوبت آئی تو وہ اس ذلت کی بجائے سیاست سے دست بردار ہو جائیں گے۔ الفاظ کے چنائو میں قریشی صاحب اصل بات کہنے سے گریز کر گئے کہ اگر مجھے اپنے سوا کسی دوسرے سے انتخابی ٹکٹ کی درخواسست کرنا پڑی تو وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ نواز میں شامل ہو جائیںگے، جس نے ان کے لئے ابھی تک اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ رائیونڈ کے انتہائی باخبر حلقے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کی طرف سے ایک سال کی مسلسل درخواستوں اور کوششوں کے باوجود صرف اس وجہ سے ابھی تک دوبارہ مسلم لیگ نواز میں شامل نہیں کیا گیا کہ اس طرح شاہ محمود قریشی ناراض ہو جائیں گے۔ یہ امر مبینہ طور پر طے ہے کہ شاہ محمود اپنے اس گروپ کے ساتھ‘ جو وہ تحریک انصاف میں لے کر آئے ہیں‘ اس کے ہمراہ نواز لیگ میں شامل ہو جائیں گے۔ اگر عمران خان نے 1992ء کے ورلڈ کپ کی طرح اپنی کمزور ٹیم کے ساتھ مقابلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ تو وہ شاہ محمود اور ان کے ہم نوائوں سے ابھی چھٹکارا حاصل کر لیں کیونکہ اس وقت اگر یہ لوگ اپنے منتخب کردہ ٹھکانوں کا رخ کرتے ہیں تو تحریک انصاف کو اتنا نقصان نہیں ہو گا کہ وہ سنبھل نہ سکے، بلکہ شاہ محمود کے جانے سے بہت سے نئے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ اور یہ جو ‘جا رہا ہے، ‘جا رہا ہے‘ کی گردان تحریک انصاف کی گردن پر سوار ہے، اس سے نجات مل جائے گی۔ عمران خان کو ذہن
میں رکھنا چاہیے کہ اگر کل کسی وقت انتخابی عمل شروع ہونے پر شاہ محمود قریشی جیسے لوگ تحریک انصاف سے چھلانگیں مارتے ہوئے نواز لیگ میں جانا شروع ہو گئے‘ تو ان کی انتخابی سیا ست کو زبردست دھچکا لگے گا۔ آج تو وہ چند دن کے شور شرابے کے بعد سنبھل جائیں گے لیکن کل عین وقت پر ان کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے لاہورکی تقریب میں جہانگیر ترین اور چوہدری سرور کو نہیں للکارا، بلکہ بنظر غائر دیکھا جائے تو انہوں نے تحریک انصاف کی بچھائی ہوئی بساط لپیٹنے کی کوشش کی۔ ایک عام آدمی کو بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ انہوں نے دراصل عمران خان کو للکارا ہے۔ جہانگیر ترین پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہے، کیا تحریک انصاف کا کوئی بڑے سے بڑا رکن بھی اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل کو انتخابی ٹکٹ کے لئے درخواسست دینا اپنی توہین سمجھے گا؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کی توہین ہو گی تو وہ پارٹی کا دل سے وفادار نہیں ہو سکتا۔ چوہدری سرور کو پارٹی چیئرمین خود پنجاب کی صدارت کے لئے امیدوار نامزد کرتا ہے، کسی کی طرف سے اس کی کسی جلسے یا تقریب میں تضحیک کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ عمران خان کی قیادت سے مخلص نہیں ہے۔ یہ کیسی سیا ست اور جمہوریت ہے کہ آپ اپنے سوا کسی اور کو نہ تو پنجاب کی صدارت کے اہل سمجھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو سیکرٹری جنرل کے لئے۔
منظور قادر ایک مانے ہوئے وکیل تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ جب میں کسی کی وکالت کے لئے وکالت نامے پر دستخط کر دیتا تھا تو اس کے بعد کسی تحصیلدار کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہوتا تو اسے با قاعدہ ایک کورٹ سمجھ کر پیش ہوتا تھا، یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس سے میری توہین ہو گی کہ چودہویں گریڈ کے تحصیلدار کے سامنے منظور قادر جیسا چوٹی کا وکیل کھڑا ہے۔ اگر جہانگیر ترین آپ کو قومی اسمبلی میں بطور پارلیمانی لیڈر تسلیم کرتا ہے تو آپ اسے سیکرٹری جنرل ماننے سے کیوں انکاری ہیں؟
شاہ محمود قریشی صاحب! اگر یہی بات کل کو جہانگیر ترین اور چوہدری سرور کہیں کہ وہ شاہ محمود قریشی کو ٹکٹ کے لئے درخواست دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور شفقت محمود اور ولید اقبال کہیں کہ وہ علیم خان کو درخواست دینا اپنے لئے باعث تضحیک سمجھتے ہیں تو پھر اس پارٹی کا کیا ہو گا یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا اور کہاں جا کر رکے گا؟ آپ اس عبدالعلیم خان کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں‘ جس نے لاہور اور پنجاب میں تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی دی، جس نے تحریک انصاف کو دنیا بھر کے سامنے ایک مقبول ترین جماعت کے طور پر پیش کرنے کا حق ادا کیا۔ علیم خان جیسے شخص سے بغض کی اصل وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ اس نے لاہور اور پنجاب میں تحریک انصاف کو دوبارہ روشن کیوں کیا؟ این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں سردار ایاز صادق کے مقابلے میں عبدالعلیم خان نے جس طرح اپنی انتخابی مہم چلائی اس نے انتخابی میدان کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا تھا؛ حالانکہ کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے بعد ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ یہ تو مقابلہ ہی نہیں ہے، کہاں سردار ایاز صادق اور کہاں علیم خان! وہ لوگ جو علیم خان کو چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دینے کے نعرے لگا رہے تھے، وہ گڑھی شاہو کے اپنے ہی گھر سے ہار گئے۔ انتخابی مہم شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد ہی مسلم لیگ نواز کے ہاتھ پائوں ایسے پھولے کہ انہیں لینے کے دینے پڑ گئے، اس کے با وجود کہ انہوں نے جدید ترین ٹیکنیکل دھاندلی کا مکمل بندو بست کر رکھا تھا۔ ان کے پاس مرکز اور پنجاب جیسے سب سے بڑے صوبے کے بے پناہ وسائل تھے، پولیس کا ڈنڈا تھا، پانی، بجلی اور سوئی گیس کے کنکشن تھے، بینظیر انکم سپورٹ اور بیت المال کے نام سے اربوں روپیہ تھا، اس کے باوجود انہیں دانتوں میں پسینہ آنا شروع ہو گیا۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی جیسوں کی سازشوںکا بر وقت سد باب کر لیا جاتا تو اس ٹیکنیکل دھاندلی کے باوجود جیت تحریک انصاف کی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ رحمان پورہ کے پولنگ سٹیشنوں سے علیم خان بڑے مارجن سے ہارتے ہیں‘ لیکن چند ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں تحریک انصاف سے چیئرمین کا امیدوار یہاں بھاری اکثریت سے جیت جاتا ہے؟