ذرا اڈیالہ جیل تک…بابر اعوان
تب ہمارا کالج اس بلڈنگ میں تھا جہاں اب F/7/2 والا مارگلہ گرلز کالج ہے۔
اس دور کے تگڑے وزیروں، سفیروں اور مقتدر اشرافیہ کے بچے بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے۔ انہیں دنوں طلبا کا احتجاجی جلوس کالج سے شروع ہوا اور آبپارہ چوک پہنچ گیا۔ میں تب کالج کی طلبا یونین کا صدر تھا۔ ایک بد مست ڈی ایس پی نے برسرِ بازار طلبا کے ایک گروپ کو بے وجہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ ری ایکشن فطری تھا اور بڑا شدید۔ جلوس کے خاتمے کے بعد میں ہاسٹل کی بجائے G-6 والے گھر آ گیا۔ 10 منٹ بعد پولیس کی گاڑیاں پہنچیں۔ میری اماں جی مارگلہ فیسنگ گھر کے ٹیرس پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ پولیس والوں نے انہیں واقعہ بتایا۔ وہ ٹیرس سے نیچے میرے کمرے میں آئیں۔ مجھ سے پولیس والوں کے بیان کی تصدیق چاہی‘ پھر کہنے لگیں: ان کے ساتھ چلے جائو گھبرانا نہیں۔
وہ دن اور آج کا دن نہ میں کبھی گھبرایا‘ نہ ہی رول آف لا سے رشتہ توڑا۔ میرے احباب جانتے ہیں کہ گاڑی ڈرائیو میں خود کروں یا کوئی اور میری گاڑی چلائے‘ پیدل مسافر، عورت، بچے، بزرگ دیکھ کر گاڑی لازماً رُکے گی۔ جو ڈرائیور گاڑی نہیں روک سکتا وہ آئندہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتا۔ 1980ء کے عشرے میں وکالت شروع کی۔ ایک دن اماں جی آبائی گائوں میں تھیں۔ انہیں ملنے کے لیے کہوٹہ گیا۔ ان کے گُرد ے کی سرجری ہوئی تھی‘ جس کی ریکوری میں کافی وقت صرف ہوا۔ گائوں والے گھر ان کی سہیلیوں اور چھوٹی موٹی غرض سے آنے والی خواتین کا جھمگٹا رہتا۔ وہاں پہنچا تو وہ ایسی ہی مجلس میں کرسی پر بیٹھی تھیں۔ مجھے پاس بُلا کر نیچے بٹھایا۔ کہنے لگیں: بہت ضروری بات کرنی ہے۔
پھر آہستگی سے یہ کہا ”بچے! نہ کبھی کسی کا حق مارنا نہ کسی پر ظلم ڈھانا‘‘۔ ان کی بات سن کر میں پریشان ہو گیا۔ اماں جی سے عرض کیا: میری کوئی شکایت آئی ہے؟ کہنے لگیں: نہیں۔ میں نے متجسس ہو کر سوال کیا: پھر آپ نے ایسا کیوں کہا؟ جواب آیا: میں ماں ہوں‘ دیکھ سکتی ہوں تمہیں طاقت مل رہی ہے‘ اس لیے جو کہنا ضروری تھا میں نے کہہ دیا۔ تب سے اب تک ان کے یہ جملے میرا روڈ میپ بن گئے۔
سوچتا ہوں‘ وہ مائیں کیسی ہوتی ہوں گی جن کے بچے کچھ نہیں کرتے۔ وہ ڈالروں کی بوریاں گھر میں لائیں۔ جن کے اشارۂ ابرو پہ مخالف کٹ گریں۔ لہو بہے۔ وطن کا ٹھٹھہ بنے اور ماں کو پتا ہی نہ چلے کہ بچہ کس راہ پر چل رہا ہے۔ ماں، ماں ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔ جس طرح بیٹی بیٹی ہے‘ چاہے گداگر کی ہو یا بادشاہ گر کی۔ لیکن وہ ظالم، بے رحم جو اپنے معاشی جرائم کے دفاع میں کبھی بیٹیوں کو سہولت کار اور کبھی مائوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے‘ خود سوچیے انہیں کیا نام دیا جائے؟
مجھے 1998ء کی وہ رات بھی یاد ہے‘ جب ہمارے G/6 والے ڈیرے پر کارِ خاص کا اہلِ دل آیا۔ میرے بھائی ایوبی کو کہنے لگا: کل صبح ملک بابر سپریم کورٹ کے راستے سے گرفتار ہو جائیں گے۔ میں نے شہید بی بی کو فون کرکے بتایا۔ کہنے لگیں: ضمانت کرا لیں۔ میں نہ مانا۔ اگلے دن مجھے اسلام آباد سے گرفتار کرکے تھانہ نیو ٹائون پنڈی لایا گیا‘ جہاں تاجی کھوکھر المعروف خان سردیوں کی یخ بستہ رات میں ”مچ ‘‘جلا کر انہیں بھگاتے رہے جو تفتیش کے نام پر مجھے جگا کر رکھنا چاہتے تھے ۔ تھانے میں بی بی شہید کا فون آ گیا۔ پوچھا: میں آپ کے لیے کیا کروں ۔ اُس وقت تک بار ایسوسی ایشنز نے ہڑتال کا اعلان کر چھوڑا تھا ۔ میں نے کہا: عبداللہ دو سال کا ہے اور عبدالرحمن آٹھ مہینے کا‘ آپ میری بیگم یاسمین کا خیال رکھیں۔ شہید بی بی نے میری رہائی تک میرے گھر اپوزیشن لیڈر کا کیمپ آفس بنا لیا۔ مجھ پر ناجائز اسلحہ رکھنے اور نواز شریف پارک مری روڈ کے نزدیک مبلغ 11 ہزار روپے کی ڈکیتی کا پرچہ درج ہوا تھا‘ جس میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی۔ احتساب ایکٹ 1997ء کی طرح انسدادِ دہشت گردی ایکٹ بھی نواز شریف نے ہی بنایا تھا۔ یوں مجھے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا اور میں بے نظیر بھٹو کے وکیل سے شریفوں کا قیدی بن گیا۔
مکافاتِ عمل دیکھئے، آلِ شریف کے چھ مجرموں میں سے تین سزا یافتہ قیدی بن کر آج اسی اڈیالہ جیل میں بند ہیں۔ گرفتاری سے پہلے میں نے اڈیالہ جیل میں کئی مقدمات کے جیل ٹرائل کروا رکھے تھے۔ اڈیالہ بیرونِ راولپنڈی کینٹ سے چکری جانے والی سڑک پر دریائے سواں کے کنارے ایک سر سبز بستی کا نام ہے۔ مقامی منڈی میں سب سے صاف سبزی اڈیالہ ، کسالہ اور داہگل گائوں کے ملیار پیدا کرتے ہیں ۔ جس طرح سہالہ کے ساتھ میرا گائوں ہوتھلہ جڑا ہوا ہے‘ اسی طرح اڈیالہ میرے سسرالی علاقے کا بغلی گائوں ہے ۔ اڈیالہ پہنچتے ہی میں ٹوٹ کر سویا۔
جیل کی پہلی صبح سویرے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ میرے سیل میں آ گیا۔ کہنے لگا: آپ کے کچھ مہمان ملنے آئے ہیں ۔ میں نے سلیپر پہنے اور کہا: چلیں ۔ سیل کے باہر 80/85 خستہ حال قیدی مدقوق چہروں، گندے کپڑوں کے ساتھ لائن میں اکڑوں بیٹھے تھے۔ سامنے دو کرسیاں رکھی تھیں، اور ایک چھوٹی سی میز۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے بتایا: یہ قیدی “petty crimes” یعنی معمولی جرائم میں بند ہیں ۔ دو دن قبل جب سے آپ گرفتار ہوئے‘ تب سے کہہ رہے ہیں جب آپ جیل آئیں تو میں آپ کو ان سے ملوائوں ۔ مزید پتہ چلا کہ ان میں سے اکثر قیدی جیل کے چکر سے باہر واقع ” نیلی بار‘‘ کے مشقتی ہیں۔ یہ مشقت قیدی بڑا پسند کرتے ہیں۔ صبح سویرے سے شام ڈھلے تک وہ جیل کمپائونڈ سے باہر رہتے ہیں‘ جہاں ان قیدیوں کی چیخ و پکار کی آواز نہیں پہنچ سکتی‘ جن کو مختلف وجوہات کی بنا پر کمپائونڈ کے درمیان لا کر شدید ٹارچر اور پھینٹی ملتی ہے۔ پھر شام ڈھلے یہ بے وارث قیدی ہلکی پھلکی سبزی ساتھ لے آتے ہیں ۔ نیلی بار کا مطلب ہے سبزیاں اُگانے والا فارم ۔
اڈیالہ جیل آتے وقت میری جیب میں 27 ہزار چند سو روپے تھے۔ جرمانے کی ادائیگی والے قیدیوں میں سے چند اسی رقم سے جرمانہ دے کر رہا ہوئے ۔ 87 ہزار روپے مزید کی ضرورت تھی جو اگلے دن ادا ہوئے ۔ شام ڈھلنے سے پہلے جیل میں رہائی آتی ہے ۔ رہائی عدالت کی طرف سے اُن قیدیوں کی فہرست کو کہتے ہیں جن کی ضمانت ہو جائے یا قید کا خاتمہ ۔ عدالتی روبکار پر لکھے نام ”جیل چکر ‘‘ کے سپیکر سے پکارے جاتے ہیں ۔ پھر قیدی سیل یا بارک سے نکل کر ” پنجے ‘‘ لگاتے ہیں۔ رجسٹر پر قیدی کی 10 انگلیاں لگوانے کو پنجہ کہتے ہیں ۔ رہائی کے وقت چکر جمعدار تین صاف ستھرے لوگ مجھ سے ملوانے لایا ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا یہ وہی ” نیلی بار ‘‘ والے قیدی تھے جو آج پہچانے ہی نہ گئے ۔
میں پُکار اُٹھا: یا مالکِ ارض و سمائ‘ تو مظلوموں کی مناجات کیسے سُنتا ہے۔ بڑے وکیل کو چھوٹے قیدی چھڑوانے بھجوا سکتا ہے۔ اصل بادشاہی صرف تیری ہے۔
جیل میں 2 راتیں کاٹ کر چور ٹبر نے کیا سوچا، 8/10 سال بعد پتہ لگے گا۔
ہمیں یاد ہیں سب دل آزاریاں، سیہ کاریوں پہ سیہ کاریاں
وہ جن کے منڈیروں پہ تھے چند زاغ
لقب جن کا چمچے، تخلص ایاغ
وہ آنکھوں کا کُکرا وہ سینے کے داغ