منتخب کردہ کالم

ذرا حیدر آباد تک! .. صولت رضا

ذرا حیدر آباد تک! .. صولت رضا

ائیرلائن کا نام افشا کئے بغیر گزارش ہے کہ بے نظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ اسلام آباد پر وہیل چیئرز استعمال کرنے والوں کی دیکھ بھال کا نظام اصلاح طلب ہے۔ میری اہلیہ کچھ عرصے سے ایک حادثے کے باعث چند قدم ہی آسانی سے چل سکتی ہیں۔ رواں برس مارچ میں کراچی سے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے تو تیز بارش ہو رہی تھی۔ جہاز میں دو تین مسافروں نے وہیل چیئرز کی درخواست کی تھی۔ میں بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ لفٹر کے وہیل چیئرز پیسنجرز باکس میں داخل ہوا۔ تیز ہوا کے ساتھ بارش اپنے وجود کا احساس دلا رہی تھی۔ جہاز میں تانک جھانک کرکے متعلقہ عملے کو باور کرانے کی کوشش کی کہ لفٹر گاڑی کو جلد پیسنجرز لائونج تک پہنچایا جائے۔ اُدھر مسافروں سے خالی جہاز میں عجب صورتحال تھی۔ لفٹر سے منسلک عملہ جہاز میں مسافروں سے بچا کچھا جوس نوشِ جان کرنے میں مصروف تھا۔ وہیل چیئر پر ایک اور صاحب علیل تھے۔ اُنہوں نے بھی آہ و بکا کی تو عملے کو رحم آیا اور ہچکولے کھاتا لفٹر لائونج کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ گزشتہ ہفتے حیدر آباد کا سفر درپیش ہوا تو پہلے کراچی منزل تھا۔ ایئرلائن نے میرے سمیت دیگر مسافروں کو ترجیح دی جو خراماں خراماں سیڑھی کے ذریعے اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہو رہے تھے۔ دوسری جانب وہیل چیئرز پر چند مسافر لفٹر کے پیسنجرز باکس میں نصف گھنٹے سے زائد جہاز کے ایمرجنسی گیٹ سے ”چپکے‘‘ ہوئے تھے۔ مجھے کھڑکی سے لفٹر باکس میں مقید بوڑھے اور مریض مسافر بشمول اپنی اہلیہ دکھائی دے رہے تھے۔ دو تین مرتبہ خوش اخلاق اور نرم گفتار فضائی میزبان سے مودبانہ گزارش کی کہ وہیل چیئرز استعمال کرنے والے مسافروں کو بھی جہاز میں داخلے کی اجازت دی جائے‘ تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ پہلے ”صحت مند‘‘ مسافر اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہوں گے اُس کے بعد وہیل چیئرز پسنجرز کی باری آئے گی۔ اِس اعلان کے بعد صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ البتہ کراچی میں صورتحال برعکس تھی۔ وہاں جہاز کے دروازے پر ہی وہیل چیئرز کا انتظام ہے اور متعلقہ عملہ قابل ستائش انداز میں ضرورت مند مسافر کی امداد کرتا ہے۔ کاش! اسلام آباد ایئرپورٹ پر بھی وہیل چیئرز استعمال کرنے والے مسافروں کی ”آزمائش‘‘ کا دورانیہ کم کرنے کے لیے ہمدردانہ اقدامات کئے جائیں۔ ایسے اقدامات سے کسی ائیرلائن کے بجٹ پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی مسافر کے دل سے ائیرلائن کے حق میں دعا ہی نکل جائے۔
موسم کے اُتار چڑھائو کے باوجود جہاز کی اسلام آباد سے بروقت روانگی اور پرسکون فلائٹ کے بعد کراچی آمد ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ اب حیدر آباد پہنچنے کی جلدی تھی‘ جہاں ہمیں اپنے خاندان کی ایک بزرگ خاتون کی تدفین میں شرکت کرنا تھی‘ جو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔ مرحومہ کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔ کراچی سے حیدر آباد کا سفر کسی زمانے میں دو چار اُونگھ کی بات تھی۔ بشرطیکہ خود ڈرائیو نہ کر رہے ہوں۔ میں سپر ہائی وے کے زمانے کی بات کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ ٹرین کا سفر ہمیشہ سے پُرکشش رہا ہے۔ آج کل زیرِ تعمیر موٹر وے کا غُلغلہ ہے۔ اس سڑک کے چپے چپے کا افتتاح ہو رہا ہے۔ وقفے وقفے سے سیاسی اور صوبائی زعما اپنے نام کی تختیاں سجا رہے ہیں۔ دوسری جانب زمینی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ خاص طور سے زیرِ تعمیر سٹرک کا وہ حصہ جہاں متبادل راستے کا انتظام ہے۔ یہ راستہ بس نام کا راستہ ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک کار کے دائیں بائیں جھولتے ہوئے آئل ٹینکرز ، بھاری بھرکم ٹرالر اور اوورلوڈڈ ٹرک گزر رہے ہوں تو کار ڈرائیور اور دیگر مسافروں پر کیا گزرے گی۔ متبادل راستے ناہموار ہیں۔ گہرے گڑھے ہیں‘ گزرگاہ پر توتکار، ہاتھاپائی اور مار کُٹائی معمول ہیں۔ موسم کی شدت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ کراچی سے حیدر آباد اور واپسی کے دوران متعدد حادثے دکھائی دیے۔ کار اور وین وغیرہ کا مت پوچھئے۔ دو تین آئل ٹینکر اور بڑے ٹرک بھی سازوسامان سمیت زمیں بوس تھے۔ ایسے حالات میں ٹریفک جام سے جو حشر بپا ہوتا ہے اُسے بیان کرنا دشوار ہے۔ بہرحال مسافر اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد اِس اُمید پر سختیاں برداشت کر رہے ہیں کہ ایک روز موٹروے مکمل ہو گی اور کراچی سے حیدر آباد کا سفر بھی لاہور راولپنڈی موٹروے کے سفر کی مانند خوشگوار ہو جائے گا۔
حیدر آباد پہنچے تو مرحومہ کی تدفین میں چند گھنٹے باقی تھے۔ مرحومہ میری اہلیہ کی بڑی بھابھی تھیں۔ اُنہوں نے لیاقت میڈیکل کالج حیدر آباد سے 1957-58ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خواتین میں طب کی تعلیم کا رجحان زیادہ نہیں تھا؛ تاہم اُن کی والدہ نے اپنی ہونہار بیٹی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یہ خاندان کوئٹہ میں مقیم تھا‘ جہاں اُن کے والد بزنس کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد یہ حیدر آباد آ گئے۔ ایم بی بی ایس کے بعد پہلی تعیناتی مینٹل ہسپتال حیدر آباد میں ہوئی۔ کچھ عرصہ کے بعد میری اہلیہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر نثار نقوی بھی پہلی تعیناتی کا حکم نامہ تھامے اِسی ہسپتال میں تشریف لے آئے۔ یہ بھی پچاس کی دہائی کے آخر کا قصہ ہے۔ مینٹل ہسپتال لطیف آباد نمبر3 سندھ میں ”گدو پاگل خانہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پہلی تعیناتی کی ابھی پہلی تنخواہ نہیں ملی تھی کہ دونوں ڈاکٹرز رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اس شادی خانہ آبادی میں دونوں خاندانوں کی رضامندی بھی شامل تھی۔ لیڈی ڈاکٹر اب ڈاکٹر قمر نثار نقوی تھیں۔ ڈاکٹر نثار نقوی میرے والد کے بڑے بھائی کے فرزند تھے۔ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کا شجرہ اور مسلک ہمارے خاندان سے مختلف تھا‘ لیکن اُنہوں نے سادات گھرانے میں قدم رکھتے ہی کچھ اس انداز میں مسیحائی کا سائبان بلند کیا کہ خاندان کا ہر فرد اس کی چھائوں میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگا۔ یہ میرا پرائمری اور سکینڈری سکول کا زمانہ ہے۔ ہم کراچی کے لائنز ایریا میں رہتے تھے اور اکثر ”گدو پاگل خانہ‘‘ سالانہ چھٹیاں گزارنے جایا کرتے تھے۔ ہسپتال میں ہی ڈاکٹرز اور دیگر عملے کے گھر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بنگلے کے قریب وسیع و عریض گرائونڈز تھے۔ ”پاگل خانہ‘‘ میں رہائش سے مراد 24 گھنٹے کی سرکاری ڈیوٹی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ دونوں میاں بیوی پاگل مریضوں کی علاج معالجے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے۔ اُنہوں نے زندگی بھر پرائیوٹ پریکٹس نہیں کی۔ رات گئے بھی کسی مریض کو دورہ پڑتا تو ڈاکٹر صاحب یا ڈاکٹر صاحبہ اپنے دفتر کی جانب تیزی سے قدم بڑھاتے دکھائی دیتے۔ خاص طور سے مریض خواتین کے مسائل بہت پیچیدہ تھے۔ زیرِ علاج مریضوں سے کسی انتہائی اقدام کا ہر وقت خوف رہتا تھا۔ شاید قدرت نے دونوں میاں بیوی کا مزاج ہی اپنوں کے دھتکارے ہوئے ذہنی مریضوں کی مکمل تیمارداری اور دیکھ بھال کے لیے بنایا تھا۔ یہ ایک طویل داستان ہے جسے ایک کالم میں سمیٹنا دشوار ہے۔ بہرحال برسوں طبی ریاضت جاری رہی۔ سینکڑوں مریض ”گدو پاگل خانہ‘‘ سے صحت یاب ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں مزید مریض داخل ہو گئے۔ یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر صاحب کو سول ہسپتال حیدر آباد میں تعینات کیا گیا‘ جبکہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ پبلک ہیلتھ سکول بھٹائی ہسپتال لطیف آباد (حیدر آباد) کی پرنسپل تعینات ہوگئیں‘ جہاں اُنہوں نے پیرامیڈیکل سٹاف کی بہتر تعلیم اور عملی تربیت کے لیے نمایاں اقدات کئے۔
ماہ اگست کے تیسرے ہفتے میں حیدر آباد کی ٹھنڈی سڑک کے قریب قدیمی قبرستان میں پچاسی سالہ ڈاکٹر قمر نقوی صاحبہ کو لحد میں اُتارا گیا تو اُن کی جانب سے ساٹھ برس قبل بلند کئے گئے سائبان کا دائرہ وسیع تر دکھائی دیا۔ اِس سائبان تلے اپنے تو تھے ہی… لیکن اپنوں سے مایوس اُن ہزاروں مریض خواتین کا وجود بھی تھا جن کے ذہن قدرتی طور سے ناکارہ تھے یا کر دیئے گئے تھے۔ ڈاکٹر قمر نثار نقوی نے گدو پاگل خانہ میں ایسی مریض خواتین کو اپنائیت کا احساس دلایا اور زندگی کی ایک نئی اُمید دی۔ ٹھنڈی سڑک کے قدیمی قبرستان میں ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر، دو دیور اور والدہ محترمہ بھی آسودہء خاک ہیں۔ یوں قیامت کے دن بھی وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہی نظر آئیں گی۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ آمین۔


اگلا کالم