ذرا سی دیر لگتی ہے….بابر اعوان
فرانس کے دو مرتبہ منتخب صدر اور وزیر اعظم کی بیٹی کھڑی ہوئی…چاروں طرف سے میڈیا رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کے نرغے میں۔ اس کے ہاتھ اور ہونٹ بیک وقت لرز رہے تھے۔ آواز کرب میں ڈوبی ہوئی۔ چہرے پر اڑتی ہوئی ہوائیوں کا ڈیرہ۔کانپتی ہوئی مدھم آواز اور روہانسے لہجے میں بولی:
“This justice is very harsh, but it is fair and independent system. for the family it is great pain, but we accept the judgement”
ویسے تو آپ کو یاد ہی ہو گا‘ لیکن قندِ مکرر میں کوئی ہرج نہیں۔10 سال کے اقتدار میں ہر پراجیکٹ پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ شہباز شریف مفت لنگر، سستی روٹی، آشیانہ ہائوسنگ سکیم، دانش سکول، صاف پانی، بہاولپور پراجیکٹ، ملتان میٹرو بس، سبز ٹیکسی، سبز ٹریکٹر، سبز ہائی روف، لیپ ٹاپ وَن‘ ٹو اینڈ تھری، پنجاب ضلعی سپورٹس کمپلیکس، موٹر سائیکل ایمبولینس، ڈولفن وَن اینڈ ٹو پولیس، لاہور سیف سٹی پراجیکٹ، ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ، بے روزگار نوجوانوں کیلئے قرضہ سکیم، ہیلتھ کارڈ، انکم سپورٹ کارڈ، لائسنس رجسٹریشن کارڈ، آئی ٹی پٹوار خانہ، پنجاب پولیس حسبِ منشا یونیفارم، تھانہ کلچر کا خاتمہ‘ اورنج ٹرین، گرین بس، لیڈیز شٹل بس سروس، گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ مقابلے، پنجاب سول سروس کے متبادل 56 کمپنیاں‘ پی ٹی وی سکینڈلز، سولر پارک سکینڈل، پاور پلانٹ سکینڈل، ناجائز بھرتیاں سکینڈل، ماڈل ٹائون وَن اینڈ ٹو میں 14 انسانی قتل )انسانی زندگی اربوں روپے میں تو کیا ملے گی۔ انسان کی کٹ جانے والی صرف ایک انگلی کھربوں روپے لگا کر بھی دوبارہ اوریجنل حالت میں نہیں اگائی جا سکتی) ایل ڈی اے پلازہ آتشزدگی سکینڈل، ریلوے اراضی سکینڈل، چائینہ ریلوے انجن خریداری سکینڈل۔ ڈر رہا ہوں کہیں آج کا وکالت نامہ شہباز سپیڈ منصوبوں کے نام لکھنے میں ہی نہ بھگت جائے۔ سکینڈل، سینکڑوں سکینڈل۔ رؤف کلاسرا صاحب کی ایک پوری کتاب کے لیے کافی ”جب پنجاب لُٹ رہا تھا‘‘۔
اس لیے آئیے ذرا آگے چلتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 25-A حکمرانوں کو کمانڈ کرتا ہے کہ 16 سال کی عمر تک کے بچوں کو ماں جیسی ریاست مفت تعلیم دے۔ جہاں سکولوں میں ایم پی اے کی بھینسوں کا ڈیرہ ہو وہاں کون سی تعلیم؟؟ مفت کا سوال تو کافی بعد میں آئے گا۔ جو سکول بڑی بڑی عمارتوں اور لمبے چوڑے گرائونڈز سمیت اپنے پیاروں کو ”عطا‘‘ کرکے پرائیوٹائز کر دیے گئے‘ وہاں کون سی مفت تعلیم۔ ایسے سکولوں کی کمرشل انتظامیہ معزز، باریش‘ عشروںسے تدریس کو اپنا ایمان سمجھنے والے اساتذہ کو نائب قاصد کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ آپ خود فیصلہ کر لیں۔ سیاسی جج کو معطل کرنا اگر سنگین غداری میں آتا ہے تو پھر لاکھوں بچوں کی مفت تعلیم کو اپنے سیاسی کاروبار کی نذر کرنا سنگین ترین غداری ہے یا ترقی کا سفر۔
اسی بات کا فیصلہ ایک عوامی عدالت نے ابھی اگلے روز ہی تختِ جاتی امرا کے نواح میںجاری کیا۔ خادمِ اعلیٰ کو عوامی عدالت کے موڈ کا 100 فیصد پتہ تھا۔ اسی لئے لدھڑ گائوں میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 اور پی پی 164 میں اپنے خادمِ ادنیٰ کو بھجوا دیا۔ عوام نے ادنیٰ خادم کا نہ صرف گھیرائو کرلیا بلکہ شدید نعرے بازی بھی کی۔ خالص پنجابی سواگت کے دوران خادمِ اعلیٰ کا خادمِ ادنیٰ باعزت طریقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
چلئے فرار ہونے کے چند اور واقعات بھی دیکھ لیتے ہیں۔ پچھلے ہفتے سیاسی عدل کے موجدِ اعلیٰ سے ٹاکرا رہا‘ جس نے 5 انتخابی حلقوں سے نانا پاٹیکر بن کر عمران خان کے خلاف اعتراضات داخل کروائے تھے‘ لیکن اسے بھی اپنے بالکے خادمِ اعلیٰ کی طرح عوامی موڈ کا پتہ تھا‘ اس لیے بے چارے نے ملک بھر کے 800 سے زائد حلقوں میں سے کسی ایک پر بھی اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کروائے۔ اسے خطرہ تھا کہیں الیکشن ہی نہ لڑنا پڑ جائے۔ ویسے بھی جس مُفت بَر کے منہ کو مِیٹر کا چسکا چپک جائے وہ اپنے خرچ پر الیکشن کے دنگل میں کیسے اُتر سکتا ہے۔ سیاسی کارکُن اور کرائے کے ٹَٹو میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے۔ کرایہ وصول اور ٹَٹو فرار۔
فراری ٹَٹوؤں کا دوسرا اصطبل کرائے کا نہیں بلکہ مے فیئر سکوائر میں خادمِ اعلیٰ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ سابق سیاسی جج اور اس کے سیاسی کزنز میں مجھے اور عمران کو نشانہ بنانے کے علاوہ ایک قدرِ مشترک اور بھی ہے‘ جس کا اظہار دونوں کے نعروں سے مشترکہ طور پر ہوا۔ ‘ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘ والے برگر مارچ میں یہ نعرے پہلی بار سامنے آئے۔ ظاہر ہے نعرے لگوانے والے شوفرز اور ڈرائیور‘ طے شدہ تھے۔ دوسری جانب میں اکیلا اور میرے مزاحمت کے ساتھی تھے۔ کرائے کا نعرہ تھا: چیف تیرے جاں نثار بے شمار، بے شمار۔ تُندیِٔ بادِ مخالف کے سامنے کامریڈ الیاس خان اور دوسرے وکلا کا نعرہ تھا: چیف تیرے جاں نثار ایک، دو، تین، چار۔ یہ ایک سے لے کر چار تک شام کو نعرے لگواتے اور صبح اس کی نقد داد وصول کرتے تھے۔
نواز شریف کے پچھلی دفعہ ملک سے بھاگنے سے پہلے نعرہ لگا: قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ نواز شریف نے اپنے باورچیوں سمیت سرور پیلس میں جا قدم رنجا فرمایا۔ اس بار نعرہ لگا: میاں تیرے جاں نثار بے شمار۔ جونہی نواز شریف کے سر سے حکومتی پروٹوکول کا سایہ اُٹھا‘ احتساب عدالت میں اس کی گاڑی پر پھول پھینکنے والے اہلکار سب سے پہلے فرار ہوئے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والا خود بھی فرار ہو کر ووٹ سے ہزاروں میل دور چلا گیا۔ جونہی الیکشن اور پھر غیر وی وی آئی پی احتساب کا موسم قریب آیا‘ لندن کے فراری کیمپ میں فرار ہونے والوں کا رش بڑھتا چلا گیا۔ سمدھی شیر، چھوٹا شیر، درمیانہ شیر، بُڈھا شیر ‘میاں تیرے جاں نثار باری باری سب فرار‘ کی عملی تصویر بن گئے۔
لیکن فراری کیمپ لندن کو مستقل بیانیے کی داد دینا پڑے گی۔ بُڈھے شیر نے ایک بار پھر سے آئی ایس آئی کا نام لے کر کہا: ملتان والے رانا اقبال کو تھپڑ مارے‘ جبکہ رانا اقبال خود کہتا ہے: چھاپہ اس کے گودام پرمحکمہ زراعت نے مارا تھا‘ آئی ایس آئی بیچ میں کہاں سے آگئی۔آفرین ہے مودی کے یار پر جس کا کلیجہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کرانے کے بعد بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔اسے محکمہ زراعت کے تھپڑ تو یاد رہ گئے‘ لیکن را، مودی اور انڈین آرمی کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر چلائے گئے گولے کبھی یاد نہ آئے۔
تا حیات نا اہل کے مال و منال کا پہلامقدمہ اب اور زیادہ نہیں لٹک سکتا۔ مریم نواز کے وکیل کی بحث کے بعد ایک بے آسرا گھر داماد کے نالہ و فریاد کی باری ہے۔ پھر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 366 کے تحت ملزم فریق اور استغاثہ کو نوٹس جاری ہو گا۔ فیصلے کی تاریخ ٹرائل کورٹ کے جج صاحب نے دینی ہے۔ ملزم یا اس کا وکیل حاضر ہو گا۔ فیصلہ صادر کرتے وقت ملزم کی حاضری یا پھر غیر حاضری کوئی معنی نہیں رکھتی۔
1990ء والی نواز احتساب مہم کے دوران بی بی شہید ملک سے باہر تھی۔ اس کا میاں جیل میں، سزا دونوں کو سُنائی گئی‘ جو جج اور شریفوں کی گفتگو لیک ہونے پر سپریم کورٹ نے کالعدم کر کے دوبارہ ٹرائل کا آرڈر جاری کیا۔ میں سزا سُنائے جانے والے دن شہید بے نظیر بھٹو کے وکیل/پلیڈر کی حیثیت سے ملک قیوم اور جسٹس کاظمی کی عدالت میں حاضر ہوا۔ ابھی تو ماڈل ٹائون قتل کیس کی اصلی تفتیش اور چالان ہونا باقی ہے۔ مظلوم نہتے مقتول اپنے لاشے اٹھائے انصاف کی سب سے بڑی بارگاہ میں باریاب ہیں۔
وہاں انصاف کی چکّی /ذرا دھیرے ہی چلتی ہے/مگر چکّی کے پاٹوں میں، بہت باریک پستا ہے/تمہارے ایک کا بدلہ، وہاں 70 سے زیادہ ہے/نیت تُلتی ہے پلڑوں میں،/عمل ناپے نہیں جاتے/وہاں جو ہاتھ اُٹھتے ہیں، کبھی خالی نہیں جاتے/ذرا سی دیر لگتی ہے مگر وہ دے کے رہتا ہے
یاک شیراک چارلس ڈیگال کے بعد فرانس کا سب سے طاقتور سیاستدان تھا۔ 70 سال کی عمر میں اس کا ملک کے مال پر ہاتھ صاف کرنے پر ٹرائل ہوا۔ یاک شیراک کو دسمبر 2011ء میں دو سال قید با مشقت کی سزا ملی۔ وہ شدید بیمار تھا مگر نہ بھاگا نہ رویا۔ یاک شیراک پر پیرس کے میئر کی حیثیت سے اپنی پارٹی کو فنڈ جاری کرنے کا الزام ثابت ہوا۔جاش کنعان نے نواز شریف پر یہ تبصرہ کیا ہے:
How can Pakistan trust a leader who has more assets in London, Dubai, Turkey & India than his own country? Its Economic