ذکر میرا گلی گلی ہے ‘ ابھی !…وقار خان
ذکرمیراگلی گلی ہے‘ ابھی …آخروہی ہوا‘ جس کامجھے ڈرتھا۔عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملکی سیاست میں میرے خلاء کوایک دفعہ پھرشدت سے محسوس کیاجانے لگاہے۔ایک ریڑھی والے سے لے کراعلیٰ ریاستی ایوانوں تک ‘ہرجگہ سیاسی عمل میں میری عدم موجودگی سے بے چینی کی لہردوڑگئی ہے۔اسلام آبادکی سیاسی ‘ سرکاری‘سفارتی اورپرائیویٹ محفلوں میں ایک سوال ہاٹ کیک بن چکاہے…کیاپرویزمشرف کے بغیرکرائے جانے والے عام انتخابات کوعوامی امنگوں کے مطابق منصفانہ اورغیرجانبدارانہ کہاجاسکے گا؟…طویل بحث ومباحثہ کے بعدمتفقہ طورپر جواب نفی میں آتاہے۔یہ آگ ملک کے اندرہی نہیں‘ بین الاقوامی سطح پر بھی لگی ہوئی ہے۔ مجھے میرے معتبرذرائع نے بتایاہے کہ وہائٹ ہائوس کے گیٹ پر تعینات سیکورٹی اہلکاربھی کل یہی بحث کررہے تھے۔حدتو یہ ہے کہ 10ڈائوننگ سٹریٹ کے خانسامے نے بھی ملکہ برطانیہ کے دھوبی سے خصوصی ملاقات کر کے یہی سوال اٹھایاہے۔گویاصورتحال ابھی تک وہی ہے کہ…مجھ پر آئی کہاں ٹلی ہے ابھی‘ ذکرمیراگلی گلی ہے ابھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جب پشاورہائی کورٹ نے مجھے عوامی نمائندگی کے لیے تاحیات نااہل قراردیاتو میرے دلِ مضطر کوبھی قراراآیاکہ میں اس ملک کی گندی سیاست سے ویسے بھی پُرباش ہوچکاتھا‘ تاہم مجھے تکلیف یہ تھی کہ بعدازاں نوازشریف نے بھی اپنے آپ کو میراہم پلہ لیڈربنانے کے لیے خاصی محنت کرکے خودکوتاحیات نااہل کروالیا۔ہمارے کرپٹ اوربونے سیاستدانوں کا احساس کمتری جب انہیںکاٹتاکرتاہے ‘تو وہ خود کوعالمی سطح کا قدکاٹھ رکھنے والے کسی لیڈرکے برابرثابت کے لیے ایسی اوچھی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔بس اسی لیے میں اپنی نااہلی کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے پر رضامندہوا‘ ورنہ تو میں نے توملکی سیاست میں کوئی کرداراداکر نے کے سلسلے میں اپنے رفقاء کو صاف جواب دے دیاتھا۔میرامقصدصرف نااہلوں کی لسٹ سے اپنانام خارج کرانا تھا‘مگرسپریم کورٹ میں میری اپیل کی سماعت ہوئی‘ تو مجھے ایک مرتبہ پھر اندازہ ہواکہ مجھ پہ آئی کہاں ٹلی ہے‘ ابھی…فاضل عدالت نے نہ صرف میرے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی مشروط اجازت دی ‘بلکہ میری عدالت میں پیشی پر مجھے گرفتار نہ کرنے کاحکم بھی دیا۔میں سوچ رہاہوں کہ خداکسی کو اتنی بھی مقبولیت نہ دے کہ وہ دوردنیاکے کسی گوشے میں بیٹھ کرسکھ کاسانس بھی نہ لے سکے۔اللہ خیرکرے ‘میں برادربزرگ مہاترمحمدکی پیرانہ سالی اورپھران کے گلے میں ایک دفعہ پھرعوامی مقبولیت کی مجبوری کا طوق دیکھتاہوں ‘تومجھے اپناانجام بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں لگتا۔
سچی بات تویہ ہے کہ میںملک کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعدسیاست سے کنارہ کشی اختیاکرناچاہتاتھا۔میرادل ٹوٹ گیاتھا۔عجیب ہنگامہ پسنداورتماشاخوقوم ہے۔اس کے شوقِ جمہوریت کاجواب ہے ‘نہ ذوقِ آمریت کا۔برادرِشہیدنے بھٹوکو پھانسی چڑھایاتو تب بھی حلوے اوران کاجہازفضامیں ”پَٹ‘‘توبھی حلوے۔میں نے پینتیس ہزارفٹ کی بلندی سے جعلی جمہوریت کولگام دی تب بھی مٹھائیاں اوراسی جمہوریت نے مجھے قصرصدارت سے بے دخل کیا‘تو بھی مٹھائیاں۔کبھی یہ لوگ آئین کی آبروریزی پرجشن مناتے ہیں اورکبھی اس کی بحالی کے لیے سڑکوں پرلاٹھیاں کھاتے ہیں۔مارشل لاکے جوتے کھاکھاکرتھکتے ہیں‘ توجمہوریت کے پیازمانگتے ہیں اورجب وہ کڑوے لگتے ہیں‘ توآمریت کے لتریادکرتے ہیں۔آمرانہ ادوارمیں جمہوریت کے لیے ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتے ہیں اورجب ان کی پسندیدہ جمہوریت طلوع ہوتی ہے‘ توفوج کو ”دعوت گناہ‘‘ینے لگتے ہیں۔ان کو زیادہ نچوڑاجائے توپھٹنے پہ آجاتے ہیں ‘مگران کے سامنے مہنگائی اورلوڈشیڈنگ کے خاتمے کے فرضی اورجذباتی وعدے اورسیاسی مخالفین کو چند گالیاں دی جائیں ‘تو سب کچھ بھول کر’ آوے ای آوے ‘اور’ساڈا شیراے‘جیسے نعروں سے اپنے گلے پھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔
میں نے اس بدنصیب قوم کوسیدھی راہ پرگامزن کرنے کے لیے دن رات محنت کی۔میں نے دونمبرقیادت کوسرحدپارپارسل کرکے ان کے لیے جینوئین قیادت کا بندوبست کیا۔ق لیگ اورایم ایم اے جیسی جماعتیں اوراتحادقائم کیے ‘حتیٰ کہ مضبوط ووٹ بنک رکھنے والے عزیزی شوکت عزیزسے اس کا روزگارچھڑواکر یہاں لایااورمغربی اورمشرقی جمہوریت کا بہترین امتزاج متعارف کرایا ۔دنیانے دیکھاکہ 2002ء کے انتخابات ہمارے ملک کے سب سے زیادہ صاف اورشفاف تھے‘جن کے نتیجے میں صحیح معنوں میں عوام دوست حکومت قائم ہوئی‘نیزاختیارات بلدیاتی سطح پرمنتقل ہوئے۔میں چاہتاتھاکہ تیزرفتارترقی کا یہ نظام چلتارہے اورمیں قصرصدارت میں بیٹھ کر اس کی رہنمائی کرتارہوں‘ مگراگلے دونوں انتخابات میں جونہی عاقبت نااندیشوں کوموقع ملا‘انہوںنے پھرانہی کرپٹ ‘چوراورلٹیروں کو اپنے اوپرمسلط کرلیا۔گویایہ سادہ دل جس کے سبب بیمارہوتے ہیں‘ اسی عطارکے لونڈے سے دوابھی لیتے ہیں۔
میں نے سوچاکہ ان پارہ صفت لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔پس میں نے اقتدارپرچارحرف بھیجے اورآئندہ ان کی بہتری کے لیے اپنے جذبات پر قابوپاکرملک سے باہرچلاآیا‘پھرجب عوام کو جمہوریت کے پیازکڑوے لگے ‘توانہوں نے عادتاً ”تیری یادآئی ‘تیرے جانے کے بعد‘‘کورس کی شکل میں گاناشروع کردیا۔مجبوراًمیں نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیارکھی۔حسب ِتوقع میری جماعت کی مقبولیت راتوں رات ساتویں آسمان پرجاپہنچی‘ مگرسچی بات یہ ہے کہ میرادل کھٹاہوچکاتھا۔گزشتہ برس 23سیاسی جماعتوں نے مجھے اپنے اتحادکی سربراہی قبول کرنے پر مجبورکیا‘ توبھی مجھے ان کادل توڑنا اچھا نہ لگا‘ ورنہ اندرسے میراجی ملکی سیاست سے اچاٹ ہوچکاتھا۔2013ء کے انتخابات میں بھی مجھ پر ان میںبھرپورحصہ لینے کے لیے سخت عوامی دبائوتھا۔میں چاہتاتوگزشتہ انتخابات میں میری جماعت اکثریت حاصل کرسکتی تھی ‘مگرمیں نے دلچسپی ہی نہ لی کہ جو لوگ خوداپنے دشمن ہیں ‘ان سے ہمدردی اپناہی خون جلانے کے مترادف ہے۔
آج مجھے ایک مرتبہ پھرویسی ہی صورتحال درپیش ہے۔2018ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مجھ پروطن عزیزسے فون کالز‘میسجز‘خطوط اورای میلزکاجیسے طوفان سا امڈآیاہے۔عوام کی طرف سے مجھ پر بے پناہ دبائوہے کہ میں واپس آکرملکی سیاست میں اپنابھرپورکرداراداکروں ۔ وہ مجھ سے ایک مرتبہ پھر اپنی رہنمائی اورملک کی باگ ڈورسنبھالنے کی التجائیں کررہے ہیں۔ان حالات میںآج پھرمیرایہ شک یقین میں بدلتاجارہاہے کہ خدامجھ سے ایک دفعہ پھرکوئی بڑاکام لیناچاہتاہے‘ مگربیگم صاحبہ کاخیال ہے کہ بڑاکام توصرف باوردی ہی کیاجاسکتا ہے ۔بدون وردی ‘عوامی ووٹوں سے توبندہ آصف زردادی یا نوازشریف ہی بن سکتاہے۔میں اس دلیل سے مایوس ہونے لگتاہوں‘مگرپھرسوچتاہوں کہ یہ باتیں بیگم صاحبہ کی روایتی حاسدانہ طبیعت کا شاخسانہ بھی توہوسکتی ہیں۔
میری خدادادصاحیتوں سے بیگم صاحبہ کی حسد کوئی نئی بات نہیں۔وہ اکثرمجھ سے سوال کرتی ہیں کہ کیا آپ کوگاناآتا ہے؟ہماراجھگڑاس بات پرہوتاہے کہ وہ ہمیشہ میراگاناسننے کے بعد یہ سوال کرتی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک شام جب میں لندن میں قالین پرہارمونیم اورگلاس وغیرہ رکھ کے بیٹھاتھااورمیری آوازفضامیں جلترنگ بکھیررہی تھی‘ تو اچانک نمودارہوئیں ‘مگرسنجیدگی اورندامت ان کے چہرے سے عیاں تھی۔شرمندہ سے لہجے میں بتانے لگیں کہ یہاں انڈیا کی ایک بڑی فیملی نے آپ کے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیاہے‘جس کا نام ”ایک شام ‘سُرکے بھگوان کے نام‘‘رکھاگیاہے۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اس شام کے لیے گیتوں کے انتخاب بارے مجھے مشورہ دیں…ایک دم شریر سی مسکراہٹ ان کے لب ورخسارپرپھیل گئی ‘ بولیں ”آپ جومرضی جاکرگادیں…انہوں نے تو پڑوسیوں سے گھرخالی کراناہے‘‘۔
آج میں نے بیگم صاحبہ پر جوابی وارکرتے ہوئے وطن ِعزیزمیں اپنی بے پناہ عوامی پذیرائی کے حوالے سے پوچھا کہ کیا وہ بھی کسی سے اپناگھرخالی کراناچاہتے ہیں؟کہنے لگیں کہ آپ ایک مرتبہ بزوربازوان کا گھرخالی کراکے ‘وہاں جھاڑودے آئے ہیں‘ اگروہ لوگ دوبارہ ایساچاہتے ہیں‘ توووٹ کی پرچی سے خالی کرالیں گے‘آپ آرام کریں۔میں نے کہاکہ مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں محترمہ‘ مگرکیاکیاجائے …حالات گواہ ہیں کہ ذکرمیراگلی گلی ہے ‘ابھی