منتخب کردہ کالم

رانا نذرالرحمن بھی رخصت ہوئے، رئوف طاہر

رانا نذرالرحمن بھی رخصت ہوئے، رئوف طاہر

رانا نذرالرحمن بھی رخصت ہوئے۔ فوجی اور سول آمر یتوں کے خلاف جدوجہد کا اہم کردار، قیام پاکستان کے بعد لاہور کی سیاسی تاریخ کا تابناک باب۔
آج کل کی نئی نسل کو کیا معلوم کہ 1960 اور 70 کی دہائی کیسی فسطاطیت کا دور تھا۔گزشتہ ہفتے کونسل آف نیشنل افیئرز (CNA) کی ہفتہ وار میٹنگ میں ہم 1970-71 کے بحران سے مثال لائے تو ایک دانشور دوست نے، جن کی بھاری بھر کم دانش سے ہم ان کے کالموں کے ذریعے مستفید ہوتے رہتے ہیں، اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ سے لبریز لہجے میں فرمایا، آج کی بات کریں، اس وقت تو ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
یہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مارشل لاء کے ابتدائی ماہ وسال تھے۔ چار سو دہشت کاراج ، ایسے میں جن دیوانوں کی للکار سناٹے کو توڑنے کا باعث بنی، ان میں لاہور کے رانا نذرالرحمن بھی تھے۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی جنرل بختیار رانا لاہور کے اسمبلی چیمبرز میں دربار لگاتے۔ اخبارات میں ایک خط کی اشاعت پر رانا نذرالرحمن کی طلبی ہو گئی۔ ایک رانے کا دوسرے رانے سے مکالمہ، ”اوئے رانا! میں تے سمجھ دا ساں توں کوئی اَٹھ فُٹا جوان ہوویں گا‘ جدیاں وڈیاں وڈیاںمچھاں ہون گیاں، پُر توں تے ساڑھے پنج فٹ دا بندہ ایں، جنہیں ساڈی حکومت ہلا کے رکھ دتی اے۔ ایوب خاں ہر دس منٹ بعد پُچھدا اے کہ بھئی ایہہ کی مسئلہ اے۔ ایہدا کی ہویا؟ (اوئے رانا! میں تو سمجھتا تھا کہ تم کوئی فٹ کے جوان ہو گے، جس کی بڑی بڑی مونچھیں ہوں گی‘ مگر تم تو ساڑھے پانچ فٹ کے ہو، جس نے ہماری حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایوب خاں ہر دس منٹ بعد پوچھتا ہے کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ اس کا کیا ہوا‘‘)
دھان پان سے نذرالرحمن کا جواب تھا، ”جنرل صاحب جرأت دل میں ہوتی ہے، جب اپنا دامن صاف ہو تو کیا مسئلہ‘ جرأت کا تعلق بڑی بڑی مونچھوں اور قد سے نہیں ہوتا‘‘ نوجوان نذرالرحمن نے مارشل لاء اختیارات کے حامل تھری سٹار جنرل کے سامنے ایک حقیقت واشگاف کر دی تھی۔ جرأت تب ہی ہوتی ہے جب دامن صاف ہو۔ جنوری 1926 میں گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کے گائوں دلاور چیمہ میں آنکھ کھولنے والے نذرالرحمن نے اوائل عمری ہی سے محنت و دیانت کو شعار کیا، اس میں گھریلو ماحول کے علاوہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا بھی دخل تھا۔
ٹاٹ سکول سے فارغ ہو کر مزید تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کیا تو یہاں ہاسٹل میں قیام سمیت تعلیمی اخراجات کے لیے (جو ان دنوں بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے) ریلوے میں ٹائم کیپری بھی کی۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کے بعد پیشہء وکالت کے حلال یا حرام ہونے کے سوال نے سر اٹھایا۔ مولانا مودودی نے جوابی خط میں لکھا، وکیل اگر اس نیت سے اور اس شرط کے ساتھ کام کر ے کہ حق دار کو اس کا حق دلانے میں قانونی مدد کرے گا تو اس کا پیشہ جائز ہے اور اگر اس نیت سے بیٹھے کہ جو شخص اس کا پیسہ دے گا، خواہ وہ برسر حق ہو یا برسر ظلم، بہرحال یہ اس کی مقصد براری میں مدد دے گا تو یہ اس کے پیشے کو اصولاً حرام کر دے گا۔ مولانا نے حتمی فیصلہ خود سوال کرنے والے پر چھوڑ دیا تھا فرمایا، ”آپ کی روح مجھے سعید معلوم ہوئی، اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں فیصلہ اب آپ کو خود کرنا ہے۔‘‘ اور نذرالرحمن کی سعید روح نے وکالت کو پیشہ نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کچھ دوستوں کے اشتراک سے سائنسی آلات کا کاروبار شروع کیا۔ ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کام بھی کرتے رہے، لیکن اس میں سود اور روایتی کاروباری ہتھکنڈوں سے کوسوں دور رہے۔ رازق نے مردِ پاک دل و پاکباز کے رزق میں فراوانی کر دی۔ ایک دور تو ایسا آیا کہ یوں لگتا تھا‘ دولت کی دیوی نذرالرحمن پر عاشق ہو گئی ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار کے حوالے سے ایک دلچسپ کہانی خود رانا صاحب کی زبانی:۔ اسلم ریاض حسین سپریم کورٹ کے جج تھے۔ وہ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے مجھے اردلی بھیج کر اپنے چیمبر میں بلایا اورکہا، آپ نے موضع بھوبتیاں رائے ونڈ روڈ پر ایک ہائوسنگ سکیم بنائی ہے۔ وہاں ہماری پانچ مربع اراضی ہے، اسے بھی شامل کر لیں۔ ہماری ایبٹ آباد کی زمین حکومت نے ایکوائر کر لی ہے لیکن معاوضہ بہت کم دیا ہے۔ میں نے جواب دیا، اگرچہ میں نے کوئی سکیم نہیں بنائی، سرگودھا کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے ہاتھ زمین فروخت کی ہے، لیکن محترم جج صاحب! اگر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے جج پراپرٹی ڈیلر بن جائیں تو یہاں ایل ڈی اے زمینیں ایکوائر نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ عدلیہ کے اعلیٰ ججوں نے جوڈیشیل کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے نام پر نہر کے کنارے ایک ہائوسنگ سکیم بنائی ہے۔ جس میں بعض بیوگان کی اراضی‘ جو انہوں نے 48 ہزار روپے فی کنال خریدی تھی، اس کا دو اڑھائی ہزار روپے فی کنال حاصل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا‘ حالانکہ ان جج صاحبان میں سے اکثر کے پاس تین تین چار چار کوٹھیاں ہیں‘ جو انہوں نے کرائے پر دے رکھی ہیں۔ خود آپ نے بھی گارڈن ٹائون میں محکمہ مال کو کوٹھی کرائے پر دی ہوئی ہے۔ (رانا صاحب کی سرگزشت ”صبح کرنا شام کا‘‘ سے چند سطور) 1962ء میں ایوب خان نے مارشل لاء اٹھا کر ”بنیادی جمہوریت‘‘ کا ڈول ڈالا تو مغربی پاکستان کی گورنری کالا باغ کے نواب امیر محمد خاں کو سونپی گئی۔ نواب کی شخصیت ہی نہیں، حکمرانی بھی ہیبت ناک تھی‘ لیکن لاہور میں سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرنے والوں میں رانا نذرالرحمن بھی پیش پیش تھے۔ 2 جنوری 1965 کے صدارتی انتخابات میں، فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابل مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بے خوف سپاہی، کیرٹ اینڈ سٹک کا کوئی حربہ، خوف اور طمع کا کوئی حیلہ جن پر کارگرنہ ہوا۔ جنوری 1966 کے معاہدہ تاشقند اور پھر 1968-69 کی فیصلہ کن جمہوری تحریک میں بھی رانا نذرالرحمن اگلی صف میں نظر آئے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، اب رہے سہے پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکمرانی تھی، جنہیں اپنے سیاسی مخالفین کو فکس اپ کرنے کے کھلے اعلان میں کوئی عار نہ ہوتی۔ یہ ایک اور طرح کی دہشت کا دور تھا، پنجاب میں غلام مصطفیٰ گورنر تھا‘ جو گورنر کالا باغ کو آئیڈیالائز کرتا۔ انہی دنوں سمن آباد لاہور سے دو یتیم سید زادیوں کے اغوا کیخلاف جاوید ہاشمی کی زیر قیادت جلوس کی منصوبہ بندی میں رانا نذرالرحمن بھی شامل تھے۔ وہ اس جلوس کا بھی حصہ تھے جس نے گورنر ہائوس پر دھاوا بول دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی برطانیہ کے لارڈ ہیوم کیساتھ گورنر ہائوس میں موجود تھے۔ طالبات کی برآمدگی تک انہوں ایک صوبائی وزیر ممتاز کاہلوں کو بطور یرغمال جاوید ہاشمی کے سپرد کر دیا‘ طالبات کی برآمدگی پر جنہیں رہا کر دیا گیا۔ جاوید ہاشمی کے بقول، گورنر ہائوس پر حملے سے حزب اختلاف میں جان پڑ گئی۔ دائیں بازو کے بھٹو مخالف صحافیوں اور ادیبوں نے لکھا کہ ہم نے گرتے ہوئے قلم پھر اٹھا لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کا خوف پھیکا ہو گیا تھا۔
اس دور میں پرانی انارکلی لاہور میں رانا چیمبرز ”عوامی حکومت‘‘ کے ستم زدگان کی پناہ گاہ بن گیا تھا۔ شامی صاحب (اور ان کے رفقاء) کا دفتر بھی یہیں رہا۔ سٹوڈنٹ لیڈری کے بعد جاوید ہاشمی نے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے لیے ینگ پاکستانیز کنونشن کے انعقاد کا فیصلہ کیا، تو کوئی ہوٹل اس کے لیے جگہ دینے پر آمادہ نہ ہوا، کسی کھلی جگہ پر تو اس کے انعقاد کا تصور بھی محال تھا۔ اس موقع پر پھر رانا نذرالرحمن کام آئے۔ اس کارِ خیر کے لیے انہوں نے رانا چیمبرز کی وسیع و عریض چھت مہیا کر دی تھی۔ ادھر کنونشن کا آغاز ہوا، ادھر ساتھ والی بلڈنگ سے پولیس کی سرپرستی میں جیالوں نے پتھروں، اینٹوں اور بوتلوں سے حملہ کر دیا، چاروں طرف ہوائی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ تھی۔
سید مودودیؒ کی فِکر رانا نذرالرحمن کا پہلا (اور آخری) عشق تھا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم رہے‘ لیکن عملی سیاست کے لئے جماعت اسلامی کی بجائے سابق وزیر اعظم اورمتحدہ پاکستان کے پہلے آئین (1956) کے خالق چودھری محمد علی کی نظامِ اسلام پارٹی کا انتخاب کیا۔ وہاں سے پاکستان جمہوری پارٹی (پی ڈی پی) میں آئے۔ آخری برسوں میں کچھ عرصہ عمران خان کی تحریک انصاف کی نذر کیا، لیکن یہاں کے ماحول اور خان کی طرزِ سیاست سے نباہ نہ کر سکے۔ 91 سال عمر پائی، گزشتہ سال تک سرگرم زندگی گزارتے رہے۔ گزشتہ اگست میں رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد بجھ سے گئے۔ بد ترین حالات میں بھی مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔ پیرانہ سالی میں بھی نوجوانوں کا سا حوصلہ رکھتے‘ اور مایوس نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے۔؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ان کے پسندیدہ شعروں میں ایک تھا۔ یہ غزوہ بدر ہی کی شب تھی جب رانا صاحب اگلے جہان روانہ ہوگئے۔