رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی…ہارون الرشید
عالمی کپ جیتنے والی نہ سہی، ہوش مند لوگوں سے مشورہ کیا جائے تو پنجاب میں بہترین ٹیم بن سکتی ہے اور مرکز میں بھی۔ استاد دامن کے بقول :
رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی
پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آئوندا
چوہدری سرور کو گورنر بنانے کی داد دی جانی چاہئے۔ سیاست میں وزیراعظم کے مدد گار ہوں گے ۔ برطانیہ اور باقی یورپ سے مراسم بہتر بنانے ، تجارت کے فروغ میں بھی ۔
پانچ سال اسد قیصر پختون خوا کی طاقتور اپوزیشن کو اگر سنبھال سکے تو آئندہ بھی اچھی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ میسّرلوگوں ہی میں سے بہترین کاانتخاب کرنا ہوتا ہے۔
فتح کے بعد کپتان میں بہتری آئی ۔ خاموشی سے کام کرنے کو ترجیح دی۔ اچھا شگون ہے، برقرار اور باقی رہا تو ثمر خیز ہوگا۔ کارکنوں کو بھی انہیں تحمل کی تلقین کرنی چاہئے۔ ابھی تک ان کا لہجہ وہی ہے۔ کوئی انہیں بتائے اور یاد دلاتا رہے کہ ہنگامہ آرائی اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت کی نہیں۔ عربی میں کہتے ہیں ”مضیٰ ما مضیٰ ‘‘ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ ماضی سے صرف سبق ہی سیکھا جا سکتا ہے ۔ دونوں فریق موجودہ محاذ آرائی اور طعنہ زنی کے ذمہ دار ہیں۔ اچھی نیّت بے شک بنیادی چیز ہے، تدبیراور ہنرکے بغیر،خون پسینہ ایک کئے بغیر فصل نہیں اگتی۔ نون لیگ ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام اور ان کے حلیف اگر قصور وار ہیں تو پی ٹی آئی والے بھی۔ اپوزیشن نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے کہ عملاً انتخابی نتائج کو تسلم کر لیا۔ قبل از الیکشن جو کچھ ہوا، اس پہ ان کے بعض اعتراضات بجا ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا جارحانہ طرز عمل کوئی جواز نہیں رکھتا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، خیر خواہ اخبار نویسوں تک کے بارے میں ، ان میں سے بعض ایسی زبان برت رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
کل جمعرات کی شام ، کامران شاہد کے پروگرام میں عرض کیا کہ پشاور کے اخبار نویسوں کی مزاحمت کے باوجود ، صوبے میں غیر معمولی کامیابی ، پی ٹی آئی نے حاصل کی۔ اس میں ایک نشانی ہے۔یہ کہ اہمیت بس عمل کی ہوتی ہے ۔میڈیا اور مولوی اگر کسی کو ہرا سکتے تو پاکستان کا سورج کبھی طلوع نہ ہوتا۔قائداعظمؒ کو کافرِ اعظم کہا گیا تھا۔
تیس برس ہوتے ہیں، طائف میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے ہنگام، کراچی کے شاعر نے لکھا۔
گل رنگ زمیں خونِ پیمبر سے ہوئی تھی
طائف کا بڑا نام ہے تاریخِ وفا میں
اللہ اللہ … تاریخِ انسانی کی معزز ترین ،نجیب ترین ہستی اور شہر کے آوارہ لونڈے۔ وہ جو جوازِ تخلیقِ کائنات تھے۔ جن کی عمرِ عزیز کی اللہ نے قسم کھائی ہے۔ آج کچھ طعنے سنے تو قلق نے آن لیا۔خدا کا شکر ہے کہ پھر طائف یاد آگیا۔ مدّتوں سے آرزو ہے کہ ہرے بھرے شہر کے نواح میں اترا جائے۔ ننگے پائوںکچھ دیر کیلئے آدمی اِس کی گلیوں میں کھو جائے ۔ کبھی وہاں آپؐ کے قدم پڑے تھے۔
ایڑیوں سے رستا لہو اور اس خاک داں کی طرف فرشتے کی پرواز ۔زمین پرجھک کر فلک نشیں نے کہا: حکم صادر ہو تو دو پہاڑوں کے بیچ اس بستی کو پیس دیا جائے۔ فرمایا نہیں ، فرمایا : اگر وہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں اللہ کے راستے پر چلیں گی۔
ہم سب کو اللہ ادراک اور شعور عطا کرے، اللہ کا راستہ صبر کا راستہ ہے،صبر ، سچائی اور حکمت کا۔ اسی کو ہم نے کھو دیا اور جذبات کی وحشت میں جینے لگے۔ میرے محترم اور بزرگ دوست ، مرحوم ظہیر کاشمیری نے کہا تھا۔
میں ہوں وحشت میں گم ، تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
بنی اسرائیل کی طرح ہم صحرا میں بستے ہیں۔ژولیدہ فکریِ میں ، قیاس اور گمان بلکہ بدگمانی میں ۔ سایوں کے تعاقب میں ۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی
اور اس دانائے راز نے یہ کہا تھا:
شبے پیشِ خدابگریستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلِ دَارند و محبوبے نہ دارند
رات اللہ کے سامنے میں رویا کہ مسلمان کیوں خوارو زبوں ہیں۔آواز آئی کیا تو نہیں جانتا کہ یہ قوم دل تو رکھتی ہے مگر اس کا کوئی محبوب نہیں۔ افرادیا اقوام، انہیں ایک تمنا درکار ہوتی ہے، منزلِ مقصود ۔
سیاست میں بھی یہی کرنا تھا جو کرکٹ کے عالمی کپ ، شوکت خانم ہسپتال اور بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں کیا…اور بھی زیادہ احتیاط ، اور بھی زیادہ سلیقہ مندی کے ساتھ۔ اس لئے زیادہ احتیاط کہ اس کایہ میدان نہ تھا، تجربہ نہ تھا۔
مہارات کا فقدان نہیں ، ہوش مندی سے گریز اور جذبات کی شدت آدمی کو الجھاتی ہے۔رونالڈریگن صدر بنے تو خارجہ امور سے نا آشنا تھے۔پیہم ماہرین سے مشورہ کرتے رہے۔ عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی برزنسکی جیسے سیاسی مدّبر کو اپنا مشیر مقرر کیا۔ باقی تاریخ ہے ۔
عمران خان کو بھی دانا مشیر مل سکتے ہیں، جہاں دیدہ اور ہنر مند۔ ذاتی مفاد اور تعصّب سے بالا ۔انہی لوگوں ،اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسے جینا ہے ۔ اگروہ تدبیر سے کام لے، کچھ اورماہرین سے بھی مشورہ کیا کرے۔ سنا ہے کہ سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور کچھ دوسروں پہ مشتمل ایک تھنک ٹینک بالآخر بنا لیا ہے۔ اسد عمر پہلے سے موجود ہیں۔
اب ایک اور آدمی ہے، ڈاکٹر شعیب سڈل، اس کے ذکر پہ میری مذمّت کی جاتی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی کوئی فرمائش کی اور نہ کبھی اپنی ستائش کی داد دی۔ ذاتی بات کرتے ہی نہیںبلکہ قومی ترجیحات۔ پولیس تو ان کا شعبہ ہے، انٹیلی جنس، افسر شاہی اور ٹیکس وصولی بھی۔ عالمی تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے۔ مخلص ، محتاط اور ریاضت کے دھنی ۔ ایسے چند آدمیوں کی ضرورت ہے… اور قافلہ سوئے منزل روانہ ہو جائے گا ،وگرنہ وہی ژولیدہ فکری اوروہی پریشاں خیالی ۔
میں پاشکستہ جانہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
اترسوں کسی کو بنی گالہ بلایا،پرسوں کسی اور کو ، کل میجر طاہر صادق۔ ارے بھائی فیصلہ کر چکو۔ بھٹو نے کاروباری طبقے کو پامال کرنے کی کوشش کی۔ وہ ان سے نفرت کرنے لگا۔ بے نظیر بھٹو یہ نکتہ سمجھ نہ سکیں ۔ نوازشریف نے ان کی مدد سے بے نظیر بھٹو کو زچ کئے رکھا۔کاروباری طبقے کی اہمیت اب اور بھی بہت زیادہ ہے۔ حکومت اور سیاست کا آخری ہدف بھوک اور غربت کے ماروں کی فلاح ہوتی ہے۔ فعال طبقات کے بغیر بھی کاروبارِ حکومت چلایا نہیںجاسکتا ۔ عدل اورمساوات مگر کاروبار کی آزادی۔ معیشت نمو پذیر ہوگی تو ٹیکس ملے گا۔ ٹیکس ملے گا تو خوش حالی آئے گی۔کشکول سے جان چھوٹے گی۔چھ برس سے یاد دلا رہا ہوں کہ کاروباری طبقے سے مراسم استوار کئے جائیں ۔ لاہور کے میاں محمد اسلم یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ کاروباری ہیں، متّحرک اور خوش مزاج۔
(باقی صفحہ 13 پر )
یہ سامنے ڈاکٹر یاسمین راشد کھڑی ہیں۔ چہرے پہ متانت، ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور مزاج میں عزم و ہمّت۔ یہ میجر طاہر صادق ہیں، یہ سبطین خان ، یہ حسنین دریشک اور دوسرے۔ فیصلہ کیجئے بھائی فیصلہ۔ تنہا کپتان نہیں ٹیم کھیلتی ہے۔ انضمام الحق اور وسیم اکرم کے بغیر عالمی کپ نہ جیتا جا سکتا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کو ذمہ داری سونپنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مخالفت ماند پڑ جائے۔ خواتین اور درمیانہ طبقہ سکھ کا سانس لے ۔ افسر شاہی سے وہ نمٹ سکتی ہیں۔چار عشروں کا تجربہ ہے۔ جواں سال صوبائی سیکرٹری انہیں چکمہ نہ دے سکیں گے۔ پھر یہ کہ دنیا بھر میںخیر مقدم کیا جائے گا۔ تاثر ہی بدل جائے گا۔
بارہ کروڑ آبادی ہے ۔جب تک جنوبی پنجاب الگ صوبہ نہ بنے، ایک الگ سیکرٹریٹ اس کے لئے بنایا جا سکتا ہے۔ایک سینئر وزیر جس کا نگران ہو۔ سرائیکی پٹی کے درد کا درماں کرنا ہوگا۔ اسی طرح شمالی پنجاب میں نسبتاًایک چھوٹا سیکرٹریٹ بنایا جاسکتا ہے۔ بلدیاتی ادارے ! بلدیاتی ادارے ،وہی ترقیاتی عمل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ا حساس شرکت انہی سے پھوٹ اور پھیل سکتا ہے۔ مستقبل کی قیادت انہی سے ابھر سکتی ہے۔
عالمی کپ جیتنے والی نہ سہی، ہوش مند لوگوں سے مشورہ کیا جائے تو پنجاب میں بہترین ٹیم بن سکتی ہے اور مرکز میں بھی۔ استاد دامن کے بقول :
رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی
پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آئوندا