اللہ کی رحمت ‘اگر آدمی کے شامل ِحال نہ ہوتی؟ اگر ہمیشہ عدل کے ترازو میں وہ تولا جاتا تو کیا ہوتا؟
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں‘ گھر کے صحن میں‘ اگر معصومیت کے پیکر یہ بچے اودھم نہ مچا رہے ہوتے؟ آسمانوں پہ اگر بادل نہ ہوتے؟ چٹانوں میں چشمے نہ پھوٹتے؟ میدانوں میں دریا نہ بہتے؟ شجراور چمن زار نہ ہوتے؟ اس کرۂ خاک کی ویرانیوں میں خوش گلو‘ اگر نہ ہوتے؟ اگر شاعر‘ ادیب اور داستاں گو عطا نہ کیے جاتے؟ کانوں میں موسیقی کی تانیں‘ اگر رس نہ گھولتیں؟ فصاحت اگر جادو نہ جگاتی ؟ اگر میرتقی میرؔ اور اسد اللہ خاں غالبؔ نہ ہوتے؟ اگر خواجہ مہر علی شاہؒ اور علامہ اقبالؔ نہ ہوتے؟
ویران زندگیوں میں اجالا کرنے والا عارف اگر نہ ہوتا؟ پرسوں پرلے روز کسی نے خبر دی کہ پروفیسر احمد رفیق اختر بیمار ہیں اور بیماری کی تشخیص ہو نہیں سکی۔ درد کا سبب ہی معلوم نہیں‘ تو درماں کیا ہو۔
ایک عشرہ ہوتا ہے۔ میرے چھوٹے بھائی محمد شعیب مسلم بیمار تھے۔ لاہور ہی نہیں‘ کراچی اور نیویارک کے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ راولپنڈی کے ایک معالج کی شہرت بہت تھی۔ بوڑھے آدمی‘ ایم بی بی ایس کی ڈگری‘ مگر علاج ہومیوپیتھک کیا کرتے۔ ایک شام میں انہیں ڈھونڈتا رہا۔ بہت مشکل سے‘ بہت تاخیر کے ساتھ رابطہ ہوا۔ عرض کیا کہ ایک ذرا سا مسئلہ پیدا ہو جائے‘ تو وہ بھی حل نہیں ہوتا۔ ذرا سا نزلہ زکام یا معدے کی خرابی۔ ہیومیوپیتھی میں علامتوں پہ علاج ہوتا ہے۔ مریض کن کیفیات سے گزرتا ہے۔ دو تین علامتیں بیان کیں ‘تو باقی ڈاکٹر صاحب نے بتا دیں۔ ششدر‘ میں نے ان سے پوچھا کہ مریض کی حالت کا اندازہ آپ کو کیسے ہوا؟ بولے :مرض کی نوعیت سے۔ دوا تجویز کی‘ قدرے افاقہ ہوا‘ مگر علالت کی جڑ پکڑی نہ جا سکی۔ سدِباب کیسے اور کیونکر ہوتا۔
پروفیسر احمد رفیق اختر سے گزارش کی ‘تو بولے:رحیم یار خاں سے انہیں بلوائیے۔ اس خیال سے میں پریشان ہوا کہ ایسا طویل سفر گراں نہ ہو۔ اس کے سوا‘ مگر چارہ بھی کیا تھا۔ شام کو ان کے ہاں پہنچا ‘تو ڈاکٹر عبدالجلیل بھی تشریف فرما تھے۔ سکاٹ لینڈ میں ہوتے ہیں۔ جدید ادویات کے محقق۔ پروفیسر صاحب کے شاید سب سے زیادہ ذہین‘ سب سے زیادہ خوش مزاج شاگرد۔ برسبیل ِتذکرہ ایک بار‘ ہزاروں کی بھری بزم میں پروفیسر صاحب سے میں نے کہہ دیاکہ کیوں انہیں وہ اپنا وارث نہیں بنا دیتے؟ ان کا جواب ہمیشہ یاد رہے گا۔ بولے: ان کی دستار بندی کر دوں‘ مگر وہ بے بھائو کی پڑیں گی کہ زمین پہ آ رہے گی۔ عجیب بات یہ ہے کہ بدمزہ ہونے کی بجائے ڈاکٹر صاحب اس پہ مسکرائے اور شاد رہے۔ صوفی یہی ہوتا ہے‘ اپنی ذات سے بالا‘ اپنی خواہشات کا قاتل۔ اعلیٰ ترین مقاصد کے لیے ایثار کرنے والا‘ شاکر اور منکسر۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کی موجودگی میں پروفیسر احمد رفیق اختر نے شعیب سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔ شعیب نے بتایا کہ فلاں آدمی کو دیکھتے ہی‘ جو پرانا رفیق ہے‘ اسے بدبو کا احساس ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے ڈاکٹر جلیل کی طرف دیکھا اور کہا: ڈاکٹر صاحب‘ مرض جسمانی نہیں نفسیاتی ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلایا۔
دوسری چیزوں کے علاوہ مریض اب فنگس کا شکار تھا۔ شوکت خانم ہسپتال میں علاج کرایا گیا۔ ہوائی جہاز کے درجہ اوّل میں سوار کرکے نیویارک پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے دیکھا تو دوا دارو سے انکار کردیا۔ کہا کہ کمزور آدمی سخت دوائوں کے اثرات کو سنبھال نہ پائے گا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ کچھ کھا نہ سکتا تھا۔ لاچار وہ بستر پہ پڑا رہتا۔ پروفیسر صاحب سے جب بھی میں بات کرتا‘ جواب میں ایک جملے پر وہ اکتفا کرتے ”وہ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ۔شدید رنج اور قلق کے عالم میں ‘ ایک دن ان سے کہا: وہ کچھ کھا نہیں سکتا۔ دوائیں دی نہیں جا سکتیں۔ آپ مجھے طفل تسلی کیوں دیتے ہیں۔ خلافِ معمول تین منزلوں کی سیڑھیاں اتر کر‘ پروفیسر صاحب الوداع کہنے آئے۔ اپنی بات میں نے دہرائی تو بولے: آپ سے کہا نا ‘وہ ٹھیک ہو جائے گا‘ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔ میں نے کہا:ایک آدمی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ کہا: زندگی میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں‘ جہاں یہ کرنا پڑتا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ صحت یاب ہو جائے گا۔
بے چارگی اور بے بسی کے دو ماہ بیت چکے تھے۔ چند برس پہلے شعیب کے بڑے‘ یعنی میرے چھوٹے بھائی محمد زبیر کا انتقال بھی پراسرار حالات میں ہوا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اسے زہر دیا گیا۔ طرح طرح کے اندیشے سنپولیوں کی طرح‘ قلب و دماغ میں رینگتے رہتے۔
پھر ایک دن عجیب واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت جب پاکستان میں دن کا ایک بجا تھا اور نیویارک میں فجر کی اذان ابھی بلند نہ ہوئی تھی‘ فون کی گھنٹی بجی۔ صحت مند اور پرجوش لہجے میں شعیب نے کہا: میں بالکل ٹھیک ہوں۔ پیٹ بھر کے میں نے کھانا کھایا ہے۔ بھوک امڈی چلی آتی ہے۔ کچھ آلو پڑے تھے‘ وہ بھی ابال کے کھا لیے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور پوچھا: یہ معجزہ کیسے ہوا؟ اس نے بتایا کہ نقاہت اور بیماری کے باوجود پیہم وہ دعا پڑتا رہا‘درویش نے جو اسے بتائی تھی ” اللہ نور السّمٰوات والارض‘‘۔ حیرت کے ساتھ پروفیسر صاحب سے میں نے سوال کیا: بیماری کی التجا یہ تو نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ اور دعائیں تعلیم فرمائی تھیں۔ اس آیت کا علالت سے کیا تعلق؟ کہا: یہ اس اللہ کا ذکر ہے‘ ہر چیز جس کے حکم سے تخلیق ہوتی ہے ؛The creative God۔ خواجہ گیسو درازؒ‘ یہ دعا لاعلاج مریضوں کو بتایا کرتے۔ میں اس کا تجربہ کر چکا تھا‘لہٰذا کارگر ہونے کا پورا یقین تھا۔
ایسے کتنے ہی واقعات اب یاد آ رہے ہیں۔ خود پروفیسر صاحب کے مرض کی تشخیص اس طرح ہوئی کہ اتوار کے دن سی ایم ایچ راولپنڈی کا ایک بند شعبہ کھولا گیا۔ جس کا تعلق درد کی تشخیص اور علاج سے ہے۔ معلوم ہوا مثانے میں پتھری ہے۔ جگر اور دوسرے اعضاء متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد کے الشفاء ہسپتال میں‘ گھنٹے بھر میں مریض کا علاج مکمل ہو گیا۔ فوراً بعد جو تصویر سوشل میڈیا پہ جاری ہوئی‘ اس میں وہ پچاس سال کے صحت مند اور خوش باش آدمی دکھائی دیئے؛ حالانکہ ان کی عمر 77 برس ہے۔
بات بھٹک کر دور نکل گئی۔ میں آپ کو اپنی پوتی فاطمہ کا قصّہ سنانا چاہتا تھا۔ اچھی بھلی صحت مند‘ خوش باش‘ بلکہ شوخ و شنگ۔ ایک دن اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھ نہ سکی۔ ڈاکٹروں سے پوچھا ‘تو کوئی وجہ نہ بتا سکے۔ ایک بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے معالج کے پاس لے جایا گیا۔ ماں باپ کی حالت خراب تھی۔ گھر میں سوگ کا عالم۔ تشخیص ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک وائرس ہے۔ چمٹ جائے‘ تو دس لاکھ میں ایک آدھ مریض ہی صحت یاب ہوتا ہے۔ علاج کا خرچ؟ ڈیڑھ لاکھ روپے روزانہ۔ فاطمہ کے والد معظم رشید سے کہا: تین چیزیں ہوتی ہیں‘صدقہ‘ دعا اور بہترین علاج۔ پانچ سالہ فاطمہ نے ایک دن ایسی بات کہی کہ خنجر کی طرح دل میں اتر گئی۔ بھاگتی دوڑتی اپنی بڑی بہنوں کو دیکھ کر اس نے کہا: کبھی میں بھی ایسی تھی‘ چلا پھرا کرتی۔ پھر ایک معجزہ ہوا‘ چوتھے دن اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔ اندیشہ مگر یہ تھا کہ عمر بھر اس کے پائوں اور ٹانگیں متوازن نہ رہیں گی۔ تب ایک دن اتفاقاً ناروے سے آنے والی ایک مہربان خاتون سے ملاقات ہوئی۔ انکشاف یہ ہوا کہ وہ اسی مرض کی معالج ہیں۔ اپنا اٹیچی کیس‘ انہوں نے کھولا اور بچگانہ جوتوں کا جوڑا نکال کر کہا: اسے پہنائیے تو۔ کیسی عجیب بات کہ یہ اس کے لیے پوری طرح موزوں تھا۔ گویا اسی کے لیے بنا ہو۔
کوئی دن میں اب اس کے پائوں کا آپریشن ہونے والا ہے۔ معمولی سا آپریشن ‘جس میں کوئی خطرہ نہیں۔ انشاء اللہ خدشات کے دن تمام ہو جائیں گے۔ اللہ بڑا مہربان ہے۔
اللہ کی رحمت ‘اگر آدمی کے شامل ِحال نہ ہوتی؟ اگر ہمیشہ عدل کے ترازو میں وہ تولا جاتا تو کیا ہوتا؟
پس ِ تحریر:لاہور سے منتخب ایم پی اے میاں اسلم اقبال پرانے دوست ہیں۔لیکن غلطی سے دو‘ تین بار انہیں میاں محمد اسلم کہہ / لکھ دیا۔ معذرت خواہ ہوں۔