ردعمل اپنے جوبن پر….نصرت امین
معاشرتی ارتقا کے چند تاریخی ادوار’’زمانہ جاہلیت‘‘ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ۔ اَدب و صحافت میں یہ اصطلاح عموما ً تشبیہات کے طور پر استعمال ہوتی ہے جب کہ اسلامی تاریخ میں زمانہ جاہلیت عموما ً قبل از اسلام عرب میں بت پرستی کے دَور کو کہا جاتا ہے۔ملک کی تازہ صورتحال کے تناظر میں اگر اِس دَور کے لئے کوئی اصطلاح مقرر کی جائے تو شاید ’’زمانہ نااہلیت‘‘ موزوں ترین ہے۔
نا اہلیت کا موسم اِس وقت جو بن پر ہے۔ اَگرچہ نا اہل عناصر گزشتہ ستّر برسوں سے اِس ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہیں لیکن نا اہل ’’قرار‘‘ دیا جانا اَب ایک الگ ہی معاملہ ہو گیا ہے۔ ملک میں ابتدا سے نااہل افراد کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ سب کو ایک ساتھ نااہل قرار دینا کسی ایک جج، عدالت یا ادارے کے بس میں نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ نا اہلوں کی اِس بھرمار میں کم از کم اُس نااہل پر فوراً ہاتھ ڈال دیا جائے جس میں انتخابات اور ووٹرز پر اَثر انداز ہونے کی معمولی سی بھی طاقت اور ہمت دکھائی دے۔ اَپنی اہلیت سے بڑھ کر بولنے، تھرکنے اور جھومنے والے اَن گنت تماشہ گروں کو کم از کم اُس وقت ضرور آڑے ہاتھوں لیا جائے جب وہ ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ بول کر، تھرک کر یا جھوم کر عوام کو ’’گمراہ‘‘ کر رہے ہوں۔ ملک کے ہر اہل اور نااہل سیاست دان کو کم از کم اِس
’’ضرورت‘‘ کی سطح کا ادراک تو ہو ہی چکاہوگا: اور جس کو اب بھی یہ ادراک نہیں ہوا سمجھ لیں اُس پر نااہلیت کی تلوار لٹک رہی ہے۔
لیکن اِس سارے عمل میں ایک نظر اُن اہل افراد پر بھی ڈالنا ضروری ہے جو اَگر کسی بھی مہذب معاشرے میں پیدا ہوئے ہوتے تو پلک جھپکتے میں نااہل قرار دے دیئے جاتے۔ بہت سی شخصیات بظاہر اہل دکھائی دیتی ہیں لیکن معاملہ فقط اتنا ہے کہ اب تک ان کے ہاتھوں چند’’خاص‘‘ غلطیاں نہیں ہوئیں ! چند افراد نا اہل ہوتے ہوئے بھی اِس معاملے کو سمجھتے ہیں لہٰذا وہ ایسی کوئی غلطی نہیں کرتے! ایسے عناصر کا سیاسی مستقبل نسبتاً تابناک دکھائی دیتا ہے۔
نااہلیت کا داغ درحقیقت ابتدا ہی سے سائے کی طرح اِس قوم کا پیچھا کررہا ہے۔ البتہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تا حیات نااہلیت کے فیصلے کے ساتھ اب یہ معاملہ زور پکڑ گیا ہے۔ شدید علالت کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح کو بروقت اسپتال پہنچانے میں پر اسرار تاخیرتقسیم ہند کے بعد سرحد کے اِس طرف نااہلی کا پہلا بڑامظاہرہ تھا ۔ نااہلی کی دوسری بڑی مثال وہ سیکورٹی نظام تھا جس کے ہوتے ہوئے لیا قت علی خان دن دہاڑے شہید کردئے گئے۔ تاریخ کی تیسری بڑی نااہلی اُس اسٹیبلشمنٹ کی تھی جو ابتدائی برسوں میں ایک بار بھی عام انتخابات نہ کراسکی پھر سیاست دانوں کی مشترکہ نا اہلی کے باعث مسلط کیا جانے والا مارشل لا بذات خود نا اہلیوں کے مزید واقعات کا ذریعہ بن گیا، ایوب حکومت نے امریکی خواہشات کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے، یہ بھی ایک بڑی اور بعد میں انتہائی مضر ثابت ہونے والی نااہلی تھی!
اِس پورے دور میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح وہ واحد اہل شخصیت تھیں جنہوں نے ایوب آمریت کیخلاف آخری دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ پھر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی مشترکہ نااہلی کے سبب ملک کا ٹوٹنا بھی اہم مثال ہے۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو قوم پہلا مکمل آئین دینے کے بدلے میں کسی حد تک اہل قرار دیئے جاسکتے تھے لیکن شاید تاریخ 1977میں دوبارہ مارشل لا، بھٹو کی پھانسی اور پھر افغان جنگ میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک طویل داستان رقم کرنا چاہتی تھی یہ بھی سچ ہے کہ اس دور کے بعد ملک کی سیاست میں نااہلیت گویا رچ بس سی گئی تھی۔
عام حالات میں عدالتی فیصلوں کو قبول کرنا ہی قانون اور جمہوریت کا تقاضہ ہوتا ہے۔ اِس تناظر میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلیت کے فیصلوں پر اِن کے حمایتیوں کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا سو فیصدسمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن دوسری جانب بھٹو کے حمایتیوں کے برخلاف اِن دونوں شخصیات کے حمایتیوں کا مکمل طور پر غائب رہنا ایک خاص قسم کی سیاسی نا اہلی بھی سمجھی جاسکتی ہے ۔ یہاں غیرمشروط معافی کے ساتھ عرض ہے کہ محبوب رہنمائوں کے خلاف فیصلوں پر حمایتیوں کی مکمل خاموشی، توہین عدالت کے قانون سے آگہی سے کہیں زیادہ ایک خاص سیاسی نااہلی کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نواز اور ترین کے حمایتیوں کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں اِن دونوں رہنمائو ں کی نااہلیت سے انکار اُن کے لئے کسی ذہنی و جسمانی نااہلی کا سبب نہ بن جائے۔
نااہلیت دراصل مجموعی طور پر پوری قوم کا مسئلہ بنی رہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی جج کو اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا دور ہ کرنا پڑتا ہے تویہ سراسر اسپتال چلانے والوں کی نااہلی ہے ۔ اِسی طرح اگر کوئی غیر متعلقہ ادارہ ’’انتہائی مجبوری کے تحت‘‘ معاشی و سیاسی معاملات پر بیان دیتا ہے تو یہ حکومت، متعلقہ وزارت اور اِن سے وابستہ پیشہ ور عناصر کی نااہلی کا عندیہ ہے۔
ملک کے نیوز میڈیا میں عموماً عدالتی کارروائیوں، ریمارکس اور فیصلوں کی درست رپورٹنگ نہیں ہوپاتی: ظاہر ہے، نااہلیت کسی ایک شخص کی جاگیر تو نہیں! ٹاک شوز میں جھوٹی خبر سنانا نااہلی اور اِس پر اڑے رہنا ایک انتہائی اعلیٰ درجے کی نااہلی ہے جب کہ نیوز اینکرز کا فلموں میں اداکاری کرنا بظاہر فلم انڈسٹری اور نیوز اینکرز دونوں کی نااہلی ہے۔ لیکن ملک میں نااہلیت کی اِس انتہائی مایوس کن تاریخ میں ایسی مثال بھی موجود ہے جس سے قانون اور عدلیہ پر مکمل بھروسہ کرنے کے مستقل خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔
برسو ں پہلے ایک اعلیٰ عدالت میں آئین کے آرٹیکل 62(1)(f)کے تحت نااہلیت کا ایک مقدمہ سنا جا رہا تھا۔ عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے اہل نہیں:اِس سلسلے میں لندن کی ایک نجی محفل میں بے نظیر بھٹو سے منسوب ایک واقعے کا حوالہ بھی دیا گیا!
لیکن فاضل جج کا موقف تھا کہ برسوں پرانے واقعے کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سو درخواست مسترد کردی گئی! اِن عدالتی فیصلوں میں اگرچہ سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے لیکن اگرسیکھنے کی جستجو اور لگن
روایات کا حصہ ہی نہ ہوں تو اِس تحریرسمیت ابلاغ کی کسی بھی شکل میں کسی بھی شخص تک کوئی بھی پیغام پہنچانا کم و بیش ایک بے سود عمل ہے۔