رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی اصل کہانی
الیکشن میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کے حوالے سے طرح طرح کی کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔ نادرا اور ای سی پی اس کی ذمہ داری لینے کی بجائے پہلو تہی کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی افواہیں چل رہی ہیں کہ یہ سسٹم پی آئی ٹی بی نے بنایا جو سراسر جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور نیشنل ڈیٹا بیس و رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کے درمیان اس سال چودہ فروری کو ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت نادرا نے الیکشن کمیشن کے لئے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم تیار کر نا تھا۔معاہدے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد جبکہ نادرا کی جانب سے چیئرمین عثمان یوسف مبین نے دستخط کئے۔ معاہدے کے تحت نادرا نے پولنگ سٹیشنز سے نتائج پریزائڈنگ آفیسر کے ذریعے موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے لئے ایک جدید نظام تیار کر کرنا تھا۔
ریزلٹ ٹرانسمشن سسٹم یا آر ٹی ایس بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نتائج پولنگ سٹیشنز سے الیکشن کمشن کو تیزرفتار اور محفوظ ترین طریقے سے منتقل کئے جا سکیں۔ تاہم پچیس جولائی کو پولنگ مکمل ہوئی تو نتائج کی آمد میں تاخیر ہونے لگی جس کی وجہ سے رات گئے تک الیکشن کمشن کی جانب سے سرکاری طور پر چند فیصد نتائج جاری کئے جا سکے۔ الیکشن کمیشن نے وجہ یہ بتائی کہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم پر یکدم لوڈ بڑھنے سے سسٹم بیٹھ گیا ہے۔ دوسری جانب نادرا نے اس کی تردید کی اور کہا کہ آر ایم ایس ٹھیک کام کر رہا ہے۔ دونوں نے چودہ فروری کو معاہدہ میڈیا کے سامنے مل کر کیا تھا اس لئے چاہیے تو یہ تھا کہ یہ چہ میگوئیوں اور افواہوں کو پھیلنے سے قبل مل کر پریس کانفرنس بھی کر دیتے۔ میڈیا نے بھی الیکشن کمشن پر بارہا زور دیا کہ وہ سامنے آئے لیکن ندارد۔ جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے اس وقت تک پولنگ مکمل ہوئے اڑتالیس گھنٹے مکمل ہونے کو ہیں لیکن سرکاری طور پر ابھی تک اٹھانوے فیصد نتائج آ سکے ہیں۔ اس کی وجہ آر ایم ایس ہے یا کچھ اور اس پر الیکشن کمیشن کو تفصیلی وضاحت پیش کرنی چاہیے اور ابہام کی اس فضا کر فوری طور پر دور کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بہت سے سازشی عناصر کو پروپیگنڈا کرنے اور بے بنیاد اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا نادر موقع حاصل ہو جاتا ہے۔ چونکہ ان دونوں اداروں نے اس معاملے میں کھل کر وضاحت نہیں دی اس وجہ سے افواہوں نے جنم لیا اور بعض افراد نے یہ سمجھا کہ شاید یہ سسٹم پنجاب آئی ٹی بورڈ نے بنا کر دیا ہے ۔ اس کی دو وجوہات تھیں؛ایک تو یہ کہ پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بیشتر کام پنجاب آئی ٹی بورڈ کر رہا ہے۔ یہ چاروں صوبوں‘ وفاق‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور سات ممالک کو بھی آئی ٹی کی سروسز مہیا کر رہا ہے۔دوسری وجہ وہ چند ’’مہربان‘‘ تھے جو پی آئی ٹی بی اور ڈاکٹر عمرسیف کی شاندار کارکردگی سے خائف ہیں‘انہوں نے اس موقع کو استعمال کیا
اورعام آدمی کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ چونکہ پاکستان میں آئی ٹی کا بیشتر کام یہی ادارہ کر رہا ہے تو لامحالہ یہ سسٹم بھی پی آئی ٹی بی نے ہی بنایا ہو گا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شرپسند عناصر نے توپوں کا رخ پنجاب آئی ٹی بورڈ کی طرف موڑ دیا اور سوشل میڈیا پر یہ جھوٹ پھیلانا شروع کر دیا کہ حالیہ الیکشن کے لئے آرٹی ایس پی آئی ٹی بی نے بنایا ہے اور اس سے تحقیق ہونی چاہیے۔ یہ جھوٹ یوٹیوب اور فیس بک پر پراپیگنڈا خبریں اور پوسٹس پھیلانے والوں کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے دیکھے اور تصدیق کئے بغیر دھڑا دھڑ پوسٹس کرنا شروع کر دیں ۔ کسی نے گوگل پر دو لفظ لکھ کر تلاش کرنے کی یہ زحمت بھی گوارا نہ کی کہ دیکھ لیں آر ٹی ایس بنانے کا معاہدہ کس کے ساتھ ہوا ہے۔ اگر آپ گوگل پرصرف یہ لکھیں گے کہwho made RTSتو پہلے لنک میں آپ کو لکھا نظر آئے گا کہ یہ سسٹم نادرا نے تیار کیا ہے۔ اسی طرح نادرا اور الیکشن کمشن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں آپ کو سینکڑوں خبریں پندرہ فروری کے آن لائن اخبارات اور گوگل سرچ نتائج میں مل جائیں گی لیکن یہاں سچ کی تلاش کس کو ہے۔بہت کم صحافی اور رپورٹر ایسے ہیں جو خبر کی تحقیق و تصدیق کرتے ہیں ۔ یوٹیوب اور فیس بک پر چونکہ مصالحہ دار خبریں لگانے سے ڈالر بھی ملتے ہیں اس لئے ایسے جھوٹ دھڑا دھڑ بک رہے ہیں جو بعض اوقات ملکی ساکھ کے لئے بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
درحقیقت پنجاب آئی ٹی بورڈ کا الیکشن کمیشن سے ایسے کسی نظام کی تیاری کا معاہدہ ہوا نہ ہی اس نے کوئی معاونت کی۔ فروری کے آخر میں الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں کے آئی ٹی بورڈز کے سربراہان کو صرف مشاورت کے لئے بلایا تاکہ سسٹم سے متعلق تجاویز لی جا سکیں۔ اس مقصد کے لئے پنجاب کی نمائندگی پی آئی ٹی بی کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف نے کی۔ ان سے اس نظام کے بارے میں صرف مشاورت طلب کی گئی لیکن الیکشن کمیشن اور پی آئی ٹی بی کے درمیان نظام کی تیاری‘ معاونت یا ڈیٹا ہوسٹنگ وغیرہ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر عمر سیف نے 27فروری 2018 کوسیکرٹری الیکشن کمیشن فتح بابر یعقوب سے ملاقات کی اور سسٹم کا جائزہ لینے کے بعد اس کی ممکنہ خرابیوں اور کمزوریوں کے بارے میں انہیں پیشگی آگاہ کردیا ۔ بعد ازاں ڈاکٹر عمر سیف نے الیکشن کمیشن کو 5مارچ 2018ء کو تحریری طور پر بھی آگاہ کر دیا تھا کہ سسٹم کا آر کی ٹیکچر مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہے ۔ ان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو جو تحریری تجاویز دی گئی تھیں ان پر عمل کر لیا جاتا توسسٹم سست روی کا شکار نہ ہوتا۔ ان میں کہا گیا کہ موبائل ایپ کو ٹیسٹ کرنے یا الیکشن میں استعمال کرنے سے پہلے درج ذیل سکیورٹی اقدامات کئے جائیں مثلاً یہ کہ اینڈرائڈ پلیٹ فارم کیلئے گوگل کی ایپلی کیشن سیف گارڈ شیلڈ اورCode Obfuscation لاگو کی جائے‘محفوظ کمیونیکیشن کیلئے موبائل ایپ اور سرور کے درمیان ڈائنامک سیشنز قائم کئے جائیں‘جاری کئے گئے ڈیٹا کو لازمی طور پر Encryptکیا جائے‘ مین سرور سے رابطہ کرنے اور ڈیٹا بھجوانے والے تمام موبائل فونز کے IMEI نمبروں کو رجسٹر کیا جائے تاکہ صرف رجسٹرڈ فونز ہی ڈیٹا بھجوا سکیں‘ ڈیٹا کو آف لائن محفوظ کرنے کا سسٹم لاگو کیا جائے تاکہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری یا عارضی خرابی کے باعث ڈیٹا محفوظ رہے اور انٹرنیٹ سے منسلک ہونے پر خودبخود مین سرور تک پہنچ جائے‘تمام موبائل فونز آٹو فوکس کیمرا فیچر کے حامل ہونے چاہئیں تاکہ مین سرور کو بھجوائے جانے والے نتائج پر مبنی کاغذات کی تصاویر واضح اور صاف ہوں‘ ان کاغذات کی تصاویر تیز ترین رفتارسے بھجوانے کے لئے نیٹ ورک فائل سسٹم یا ایمزون ایس تھری سسٹم لاگو کیا جائے اورلوڈ بیلنس کرنے کے لئے ویب فارم آرکی ٹیکچر لگایا جائے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے الیکشن کمشن کو واضح طور پر آگاہ کیا تھا کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا فول پروف شعبہ موجود ہے جہاں حکومت کے لئے اس استعداد کار کی حامل سینکڑوں ایپلی کیشنز کامیابی سے چل رہی ہیں تاہم دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہیں پایا کیونکہ معاہدہ پہلے ہی نادرا اور الیکشن کمشن کے درمیان ہو چکا تھا۔پی آئی ٹی بی کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایسی پوسٹس بنانے اور آگے شیئر کرنے والے افراد کیخلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے وگرنہ سوشل میڈیا بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے گا۔