رنگین تصویریں اور سوشل میڈیا…حسنین جمال
یہ بڑی عجیب سی بات ہے، ہم لوگ کہیں بھی گئے، کچھ بھی کھایا، کسی سے بھی ملے، جو بھی کام کیا بس ساتھ ساتھ تصویریں کھینچ لیں۔ ہمیں خود بھی آئیڈیا نہیں ہوتا لیکن ہم اپنی پوری زندگی کا ایک ریکارڈ بنا رہے ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگ ڈائریاں لکھتے تھے۔ روز کے سارے قصے جب دل چاہا تفصیل سے لکھ دئیے۔ جب موڈ ہوا مختصر نوٹس لے لیے مگر وہ چیز بڑی یادگار ہوتی تھی۔ جیسے دادا کی ایک دو ڈائریاں جو باقی تھیں وہ آج میں دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ یار کیسی سادہ اور مزیدار زندگی تھی۔ دادا فارسی میں ڈائری لکھتے تھے، جتنی سمجھ آ گئی، آ گئی، باقی سر پہ سے گزر جاتی ہے۔ تو وہی کام آج کل ہم لوگ کرتے ہیں لیکن ہمیں خیال نہیں ہوتا۔ پچھلے آٹھ دس برسوں میں جتنی ڈیجیٹل تصویریں آپ نے کھینچی ہیں انہیں ذرا اکٹھا کر کے دیکھیں۔ ہر تصویر کی پراپرٹیز میں تاریخ ہو گی جب وہ کھینچی گئی اور پھر وہ پورا دن آپ کو مکمل تفصیل کے ساتھ یاد آ جائے گا۔
کیمرہ موبائلز آنے کے بعد تصویر کھینچنا ہمارے لیے اب نرا کھیل بن گیا ہے لیکن اصل میں ہم ایک پوری کتاب مرتب کر رہے ہوتے ہیں (ویسے گوگل فوٹوز یہ کام بہت بہتر کر سکتا ہے، کوشش کیجیے)۔ وہ کتاب جس میں ہر گزرے وقت کا تذکرہ موجود ہے مگر جو صرف اس وجہ سے نظر انداز ہو جاتی ہے کہ وہ ڈیجیٹل امیج ہے۔ اگر یہی سب کچھ پرنٹ تصویر کی شکل میں ہوتا تو کیا زیادہ بہتر نہ ہوتا؟ لیکن تب اتنی تصویریں ہی نہ ہوتیں، یہ جو چھینکنے پہ بھی سیلفی لی جاتی ہے‘ یہ اس وقت کہاں ممکن تھا بھائی جب کیمرے میں فلم ڈلوانے، دھلوانے اور البم میں سجانے کے الگ الگ پیسے ہوا کرتے تھے اور کل ملا کے پانچ آٹھ سو گل ہو جاتے تھے۔
تو کیس یہ بنتا ہے کہ تصویر ڈیجیٹل ہونے سے اس نے ڈائری کی جگہ تو لے لی‘ مگر ہمیں احساس نہیں ہونے دیا۔ سوشل میڈیا بھی اسی ڈائری کی ایک شکل ہے۔ پہلے جو باتیں ڈائری کے صفحوں میں بڑے خوف اور تکلف سے لکھی جاتی تھیں‘ اب وہی فیس بک یا ٹوئٹر کی چورنگی پہ کھڑے ہو کے دھڑلے سے بتائی جاتی ہیں، اور یہ بڑا فٹ کام ہے، سپیک اپ کلچر کا فائدہ یہی ہوا کہ ہر کسی کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی سہولت رہتی ہے۔ لیکن پورے سوشل میڈیا سے تصویریں نکال دیں تو پیچھے کیا بچتا ہے؟ خالی ٹیکسٹ؟ اس میں ظاہری بات ہے لوگوں کو بہت کم دلچسپی ہو گی۔ تو ایک تھیوری یہ بنائی جا سکتی ہے کہ پرسنل ڈائری اور پرنٹ فوٹوگراف جب موجودہ زمانے میں آئے تو انہوں نے سوشل میڈیا کی شکل اختیار کر لی۔ ایک تھیوری بننے کے بعد چونکہ لکھنے والے کو آرام آ جاتا ہے اس لیے اگلی دریافت کی بات کر لی جائے۔
تصویریں کبھی کبھی ٹائم مشین والا کام بھی کرتی ہیں۔ آپ کوئی البم دیکھ رہے ہیں، صفحے پلٹتے جا رہے ہیں اور اچانک کسی ایک تصویر پہ آ کے سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ باریک سے باریک تفصیل بھی ایسے یاد آتی ہے جیسے ابھی کل کا سین ہے۔ بعض اوقات تصویریں آپ کو مجبور کر دیتی ہیں کہ آپ اس جگہ دوبارہ جائیں جہاں وہ بنائی گئی تھیں لیکن وہاں جا کے آپ کو پتہ لگتا ہے کہ وہ تو وقت تھا جو تصویر میں قید تھا، وہ تو لوگ تھے جو مجسم تھے، وہ تو بس ایک لمحہ تھا جو پرفیکٹ تھا، جب تصویر میں موجود ہر انسان مسکرا رہا تھا، اس کے چہرے پہ پریشانی والی لکیریں نہیں تھیں، بال کالے تھے، گال سیبوں کی طرح تھے اور آنکھیں چمکتی تھیں… اب ان میں سے کچھ ہیں تو وہ ویسے نہیں ہیں، اور جو ہیں ہی نہیں تو ان کے بغیر اس جگہ پہ باقی کیا رہ جاتا ہے؟ خالی اینٹیں؟ لکڑی کا دروازہ؟ کچا صحن؟ بیری کا درخت؟ یا زرد دیواریں؟ گھر واپس جب آؤ گے تم، کون تمہیں پہچانے گا؟ کون کہے گا تم بن ساجن، یہ نگری سنسان؟
ایسا کریں کوئی تصویر اٹھا لیں، پرانی سی، اماں ابا کی شادی کی یا پھر اگر دادا کے زمانے کی کوئی پڑی ہے تو وہ دیکھ لیجیے، اس میں موجود بہت ہی تھوڑے چہرے ہوں گے جنہیں آپ پہچانتے ہوں گے، باقی کون تھے؟ کیا ویسے چہرے اب دیکھنے کو ملتے ہیں؟ جیسے کپڑوں، جوتوں، جیولری، ہیئر اسٹائل کا فیشن بدلتا ہے ویسے ہی کیا واقعی چہروں کا فیشن بھی نہیں بدل جاتا؟ وہ ایک چہرہ جو کسی تصویر میں بالکل انجان سا ہے آخر اس کی بھی تو ایک شکل ہے، اس نے بھی اپنے وقت کے حساب سے بہترین فیشن کیا ہو گا، لمبی قلمیں رکھی ہوں گی، علیگڑھ کٹ پائجامہ پہنا ہو گا، تھوڑی شکنوں والی شیروانی ہو گی، سر پہ محمد علی جوہر والی ترکی ٹوپی یا جناح کیپ ہو گی، دونوں نہیں ہیں تو سلیقے سے مانگ نکالی ہوئی ہو گی، تو وہ حلیہ، وہ چہرہ، وہ سب کہاں گیا؟ جہاں بھی گیا خیر سے جائے تصویر میں باقی ہے۔ اب کیسے مزے کی بات ہے کہ ایک دن ایسے ہی ہم بھی تصویروں میں ہوں گے اور کوئی بچہ دیکھے گا تو وہ کافی دیر غور کرنے پہ بھی نہیں پہچانے گا، پھر وہ کسی تائی، چاچی، نانی، دادی سے مدد لے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ اوہو، اس عینک والے فرنچ کٹ آدمی کا نام یہ تھا، اس نے بھی ایک زندگی گزاری تھی، یہ بھی کسی کی یادوں کا حصہ تھا اور اب یہ کسی کو یاد تک نہیں۔ تو بس یہ زندگی ہے، یہی پرانی محبتیں ہیں اور یہ تصویر ہے۔ تھوڑا غور کریں تو یہ پورا سینیریو اس آسمان جیسا ہے جو آج کل ہم رات کو دیکھتے ہیں۔ سارے چمکتے ہوئے ستارے یہ سب کے سب آج سے کئی ہزار سال پہلے چمک کے پتہ نہیں اب کہاں کس حال میں ہوں گے، جو ہم تک اب پہنچتی ہے وہ تو بس ان کی روشنی سے بنی ہوئی ایک تصویر ہے۔ ان کا بہت پہلے گزرا ہوا کل جسے ہم آج دیکھتے ہیں!
تھیوری پہ واپس آئیے، پرسنل ڈائری اور ماضی کی پرنٹ فوٹو گراف کو ملا کر پیدا ہونے والا سوشل میڈیا ہمیں یہ سب باریکیاں سوچنے نہیں دیتا۔ پہلے ہم سفر کرتے تھے تو اسے یادگار بنانے کے لیے تصویریں لیتے تھے، اب ہم سفر ہی اس لیے کرتے ہیں کہ یادگار تصویریں لی جائیں۔ اب ہمارے آس پاس اتنی ساری تصویریں موجود ہیں کہ ہمیں کسی ایک تصویر پہ غور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا، کرنا بھی چاہیں تو ایک ٹوں ٹوں ہوتی ہے اور بندہ فوراً دوسری طرف توجہ کر لیتا ہے۔ اب کسی قتل کی، خود کشی کی، بم دھماکے کی یا مرے ہوئے بندے کی تصویر بھی ہمیں اپنی طرف نہیں کھینچتی، وہ ہمارے لیے بس ایک ڈیجیٹل عکس ہے، جیسے اور بہت سارے ہیں، جیسے سیلفیاں ہیں، جیسی دوسری اخباری تصویریں ہیں۔ اس سب کا ایک حل ہے۔ اگر تصویر انجوائے کرنی ہے تو اسے بلیک اینڈ وائٹ کرکے دیکھیں۔ ٹیڈ گرانٹ ایک لکھنے والے تھے، 1913ء میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں فوت ہوئے۔ انہوں نے تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ سے کلر میں آتے دیکھا، انسانی تاریخ کی وہ یادگار صدی پوری دیکھی جب آدمی ٹیلی گراف سے موبائل فون اور پھٹیچر موٹر سائیکل سے خلا بازی تک ترقی کر گیا۔ ٹیڈ گرانٹ کہتے تھے کہ جب آپ کلر تصویر لیتے ہیں تو آپ لوگوں کے کپڑوں کے رنگ اور آس پاس کی دوسری چیزیں اپنی بھرپور شکل سے کیچ کرتے ہیں لیکن جب آپ بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگراف لیتے ہیں تو جو آپ کے ہاتھ آتا ہے وہ اس لمحے کی روح ہوتی ہے۔
رنگ برنگی خوبصورت تصویروں کی اس بھیڑ میں صرف بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگراف وہ چیز ہے جو ہمیں دوبارہ کسی منظر کی باریکیوں میں جا کے لطف اندوز ہونے کا موقع دے سکتی ہے‘ اگر ہم چاہیں۔ گوتم بدھ کے زمانے میں بھی لوگ رنگ بنانا جانتے تھے اور اجنتا یا ایلورا کے مہان فنکاروں کو بھی رنگوں سے واقفیت تھی، انہوں نے اپنے سارے بت کالے، سفید، گرے یا مٹیالے رنگوں سے اسی لیے بنائے کہ وہ ان میں وہ دکھانا چاہتے تھے‘ جو رنگین بتوں میں نہیں ہوتا۔ رنگین تصویروں میں سے احساس ختم ہو جاتا ہے۔ وہ بوریت جو اب سوشل میڈیا پہ بھی دور نہیں ہوتی اس کا حل شاید یہی ہے کہ ہمیں اپنی اصل کی طرف پلٹنا پڑے گا۔ ہاتھ سے لکھی جانے والی ڈائری، پرنٹ ہو کر کاغذ پہ رنگ بکھیرتی بلیک اینڈ وائٹ تصویر اور اپنے لوگ… جیسا کبھی کبھی لائٹ جانے کے وقت ہوتا ہے