روحانیت، سیاسی اسلام اور سیاستِ دوراں….خورشید ندیم
سیاسی امور میں مذہب کا کردار پھر زیرِ بحث ہے مگر اس بار باندازِ دگر۔
اسے عوامی سطح پر ‘روحانیت‘ کے عنوان سے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ امورِ دنیا میں ماورائے اسباب، نادیدہ قوتوں کی مداخلت کا بیان ہے۔ خیال یہ ہے کہ کچھ خاص وظائف یا اعمال کے سرانجام دینے سے مراد بھر آتی ہے۔ اُن قوتوں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے جو غیب میں رہتے ہوئے دنیا کا کاروبار چلا رہی ہیں۔ میں نے اس تصور کے فلسفیانہ اور فکری پس منظر پر، چند ماہ پہلے تفصیل سے لکھا تھا۔ یہ بتایا تھا کہ تصوف کے لٹریچر اور تذکروں میں ان قوتوں کو ‘رجال الغیب‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
تصوف کو عام طور پر مذہب کی روحانی جہت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سیاست میں مذہب کے کردار کا بیان ہے۔ یوں یہ سیکولرازم اور مذہب کی ایک بحث بن جاتی ہے‘ اور اس کا تقابل عقلیت پسندی (Rationalism) سے کیا جاتا ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سیاست کی تشکیل اور روحانیت دو مختلف موضوعات ہیں‘ جو خلطِ مبحث کا شکار ہو گئے ہیں۔
بیسویں صدی میں جب جدید انسان کو درپیش سیاسی، سماجی و معاشی معاملات کو نظاموں کی صورت میں بیان کیا جا رہا تھا تو کچھ مسلمان اہلِ علم نے، ان نظاموں سے اعلانِ برات کرتے ہوئے، مذہب کو ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کیا۔ ابتدا میں یہ ایک خالص علمی تحریک تھی۔ اس میں جدید علمِ کلام اور علوم کو سامنے رکھتے ہوئے، علمی اسلوب میں یہ بتایا گیا کہ مذہب کیسے انسان کو درپیش سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اسے تفہیم کے لیے ‘سیاسی اسلام‘ کے عنوان سے ممیز کیا جا تا ہے۔
یہ ہر پہلو سے ایک علمی تحریک تھی۔ اسے عقلی بنیادوں پر اٹھایا گیا اور مذہب کے مقدمے کو بھی، یہ کوشش کی گئی کہ جدید معیارِ علم کی بنیاد پر ثابت کیا جائے۔ علامہ اقبال کے خطبات اس طرز کی اولین کاوشوں میں سے ہیں۔ مولانا مودودی نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے فلسفیانہ پہلو سے زیادہ عملی پہلوئوں سے تعرض کیا اور اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ ہم اس تعبیر پر سوالات اٹھا سکتے ہیں لیکن اسے کسی طور غیر عقلی قرار نہیں دے سکتے۔ یہ ایک علمی اور عقلی مقدمہ (discourse) ہے۔
سیاسی اسلام کے سب سے بڑے متکلم، مولانا مودودی تصوف کے اس مروجہ تصور کے شدید ناقد ہیں جو کشف و الہام اور کرامات سے عبارت ہے۔ وہ تصوف کے قائل ہیں مگر اس میں ان ماورائے اسباب امور کا گزر نہیں جن کا شہرہ ہے۔ مولانا نے شیخ احمد سر ہندیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے کام کی بہت تحسین کی‘ مگر اس پہلو سے تنقید بھی کی ہے کہ وہ تصوف کے باب میں مسلمانوںکی بیماری کا صحیح ادراک نہیں کر سکے۔ انہوں نے اہلِ اسلام کے لیے وہی غذا تجویز کی جس سے پرہیز لازم تھا۔
یہ وہی ‘غذا‘ ہے جسے دورِ جدید میں ‘روحانیت‘ کہا جا رہا ہے۔ وہی کرامات اور وظائف کی دنیا جس کا عالمِ اسباب سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس میں ننگے پاؤں مزاروں کا سفر ہوتا ہے اور یہ سمجھا جا تا ہے کہ کچھ اذکار اور خود تجویز کردہ اعمال سے دنیاوی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی نظامِ فکر ہے نہ تبدیلی کا لائحہ عمل۔ اس میں مرشد کے راستے سے لوگ خدا تک پہنچتے اور تا حیات اس کے واسطے سے بے نیاز نہیں ہوتے۔
سیاسی اسلام میں یہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس تعبیر پر یقین رکھنے والے عالمِ اسباب میں اپنے لیے ایک لائحہ عمل بناتے ہیں۔ وہ سیرتِ پیغمبرﷺ سے اپنی جدوجہد کی حکمتِ عملی اخذ کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے اس کو بیان کیا کہ جو اس راہ کا مسافر ہے، اس کو جان لینا چاہیے کہ اس میں بدر اور احد کی منزلیں آتی ہیں، ہجرت کرنا پڑتی ہے اور کبھی تلوار بھی اٹھانا ہوتی ہے۔ جان و مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ پھر کہیں جا کر فتحِ مکہ کی منزل آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی حاصل ہوتی ہے لیکن اُس وقت جب انسان عالمِ اسباب میں آخری درجے کی کوشش کر گزرتا ہے۔
بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون بحیثیت جماعت اس فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ طیب اردوان کا فکری شجرہ نسب بھی اسی سے ملتا ہے۔ اردوان اگر یہاں تک پہنچے ہیں تو کسی وظیفے یا مزار پر چڑھاوا چڑھانے سے نہیں، مسلسل جدوجہد سے پہنچے ہیں جو عالمِ اسباب میں کی گئی۔ ایک شہر کے میئر سے ملک کے صدر تک کا سفر اس کا گواہ ہے۔ اس سارے سفر میں کوئی مرحلہ مافوق الفطرت نہیں۔
پاکستان بھی ایک جدوجہد کا نتیجہ ہے جو عالمِ اسباب میں کی گئی۔ یہ سفر سالوں میں طے ہوا۔ قائد اعظمؒ سمیت بہت سے لوگوں کو اپنا خونِ جگر دینا پڑا۔ تحریکِ پاکستان کی تاریخ دو اور دو چار کی طرح بیان کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ تاریخ کی ایک روحانی تعبیر کرتے اور ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کوئی مافوق الاسباب واقعہ ہے، اس لیے اس کا قیام الٰہی منصوبہ ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ بھی برآمد کیا جاتا کہ چونکہ یہ خدا کا فیصلہ ہے، اس لیے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں۔
کہنا یہ ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے، جسے ‘روحانی سیاست‘ کہا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ اپنی سیاسی جدوجہد کو پیغمبرانہ جدوجہد پر قیاس کرتے اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ وہی معاملہ کریں گے جو وہ پیغمبروں کے ساتھ کرتے ہیں؛ چنانچہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہمارا کام فضائے بدر پیدا کرنا ہے۔ اگر ہم یہ کر گزریں تو فرشتے آج بھی آسمان سے اتر کر ہماری تائید کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ فضائے بدر پیدا کیے بغیر بھی، محض رجال الغیب کی مدد سے یہ منزل سر کرنا چاہتے ہیں۔
میں یہاں اِس بحث سے گریز کر رہا ہوں کہ رسولوں کے باب میں اللہ کی سنت کیا ہے اور نصرتِ الٰہی کا الہامی قانون کیا ہے جو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ کیسے مذہب کے نام پر لڑے جانے والے معرکوں کو مافوق الفطرت واقعات سے تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ ایران عراق جنگ کے دنوں میں جو کچھ ایران میں لکھا گیا، اس میں بے شمار ایسے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی افواج کو غیبی مدد حاصل رہی۔ اسی طرح افغانستان کی جنگ سے بھی ایسے واقعات منسوب ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے بھی اس طرح کے واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔
آج کل روحانی سیاست کا ایک بار پھر چرچا ہے۔ عمران خان صاحب کی کامیابی کی بھی روحانی توجیہہ کی جا رہی ہے۔ یہ ‘کامیابی‘ ہمارا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں، کس کا کیا کردار تھا، سب جانتے ہیں۔ اس میں اسباب کی دنیا میں کیا ہوا اور ماورائے اسباب معاملات کن ‘رجالِ الغیب‘ کے ہاتھ میں تھے، ہمیں سب خبر ہے۔ یہی معاملہ تاریخ کا بھی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ دنیا بنا کر اس سے لا تعلق ہو گیا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اس زمین پر ایک پتا بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا؛ تاہم یہ زندگی اس نے چند اصولوں پر بنائی ہے۔ اس کو وہ اپنی سنت کہتا ہے۔ وہ کچھ اپنی سنت کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ اب بھی مداخلت کرتا ہے مگر اپنی سنت کے مطابق۔ ان سنتوں میں ان تصورات کا کہیں گزر نہیں جنہیں آج روحانیت کے تحت بیان کیا جا رہا ہے۔
جنہوں نے اسلام کے سیاسی غلبے کی جدوجہد کی، ان سے نظری اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کا اس روحانیت سے کوئی تعلق نہیں، جو آج کل موضوعِ بحث ہے۔