روز قیامت کیا منہ دکھائیں گے…یاسر پیرزادہ
چودہ سو سال پہلے کے عربوں کا کلچر بہت دلچسپ تھا، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کے الفاظ میں ’’وہ بزدل بھی تھے اور بہادر بھی۔ جہاں شرف انسانیت کے اظہار کا موقع ہوتا وہاں وہ بزدل ثابت ہوتے تھے۔ وہ جن، فرشتے ، ارواح کے علاوہ ستاروں اور پتھر کی مورتیوں تک سے ڈر کر ان کے آگے سر خم کردیتے تھے۔ یہ تو تھی ان کی بزدلی۔ ساتھ ہی وہ بڑے جری اور بہادر بھی تھے مگر اس وقت جب کسی قافلے کو لوٹنا ہو یا معمولی سی بات پر آپس میں خوں ریزی کرنی ہو۔ وہ مہمان نواز بھی تھے اور مہمان کش بھی۔ جب کسی کو اپنی زبان سے پناہ دے دیتے تو ان کے لئے مہمان نواز تھے ، لیکن جب زائرین حرم کو لوٹنا ہو تو انہیں مہمان نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بڑے فصیح ، بلیغ تھے۔ لیکن اس وقت جب اپنی خود ستائی یا دوسروں کی ہجو کرنا ہویا اپنے معاشقے کی عریاں داستانیں بیان کرنا ہوں۔ لیکن جب قبیلوی عصبیت مسلط ہو تو اظہار حق میں وہ گونگے بن جاتے تھے۔ سوتیلی ماؤں بہنوں کو وراثت میں لے کر اپنی بیوی بنا لینا ان کے نزدیک کوئی عیب نہ تھا۔ تعداد ازدواج کی کوئی حد بندی نہ تھی۔ انسان بعض اوقات بتوں پر بھینٹ چڑھا دیئے جاتے تھے۔ غرض عقائد اوہام کا مجموعہ اور اخلاق ناگفتہ بہ تھے۔‘‘مولانا نے جو تصویر کشی کی اُس میں کوئی مبالغہ نہیں ، سچ تو یہ ہے کہ تاریخ میں عربوں کی اس سے بھی عجیب روایات ملتی ہیں ، مثلاً اگر کوئی شخص صحت مند اولاد چاہتا اور کسی وجہ سے خود اس قابل نہ ہوتا تو اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد سے ملنے کی اجازت دے دیتا تاکہ صحت مند اولاد ہو سکے ، اسے عرب لوگ نکاحِ استبضاع کا نام دیتے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک عورت بیک وقت کئی مردوں سے تعلق رکھتی اور پھر جب اولاد پیدا ہوتی تو جس کا نام لے کر چاہتی کہہ دیتی کہ یہ بچہ تمہارا اور اسے ماننا پڑتا ، انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔کچھ عورتیں اپنے گھروں پر جھنڈا لگاتیں جنہیں جھنڈے والیاں کہا جاتا تھا ، یہ مردوں کے لئے ایک قسم کی نشانی ہوتی کہ جو چاہے ان عورتوں سے مل سکتا ہے۔ کچھ رسوم تو ایسی ہیں جن کا یہاں ذکر بھی نہیں کیا جا سکتایوں سمجھئے کہ دور جاہلیت میں ایسا ہر کام علانیہ بلکہ فخریہ ہوتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جب بیوی پر زنا کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی شرط رکھی تو مقصد اسی علانیہ بے حیائی کو روکنا تھا، یہ چار گواہوں کی شرط آج ہمیں عجیب لگتی ہے مگر اُس عرب معاشرے میں یہ کام چار تو کیا دس دس بندوں کی موجودگی میں ہوتے تھے ۔اسلام کے بعد یہ کام بند ہوا۔
یہ اس معاشرے کی ہلکی سی جھلک ہے جس کی تطہیر محمد عربی ﷺ نے بیس برس سے بھی کم عرصے میں کی اور ایسے کہ پھر نتیجے میں دنیا کی ایک عظیم سلطنت اور تہذیب وجود میں آئی۔ تاریخ میں اس کی کوئی دوجی مثال نہیں ملتی۔آپ ﷺ کی شخصیت پر ان گنت کتابیں موجود ہیںمگرسیرت محمد ﷺ پر سب سے پہلی ،مستند اور جامع کتاب محمد ابن اسحاق ابن یاسر نے لکھی۔ ابن اسحاق نے اپنی پوری زندگی پیغمبرانہ روایت کا علم حاصل کرنے میں صرف کی ، تیس برس کی عمر میں ابن اسحاق مصر گئے جہاں انہوں نے اس علم سے متعلق لیکچرز لئے ، جب وہ مدینہ واپس آئے تو سیرت محمدﷺسے متعلق مواد کی تیاری میں جُت گئے جو انہوں نے اس دوران اکٹھا کیا تھا۔ مشہور تاریخ دان ابن شہاب الزھری کا ابن اسحاق کے بارے میں کہنا تھا کہ مدینہ میں علم اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک ابن اسحاق وہاں موجود ہیں۔ابن اسحاق بعد میں مدینہ سے چلے گئے ، یہ واضح نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے گئے یا انہیں جانے پر مجبور کیا گیا کیونکہ اُن کے بعض دشمن بھی مدینہ میں تھے ، بہرکیف مدینہ سے وہ کوفہ گئے اور پھر بالآخر بغداد میں جا بسے، سن 150ہجری میں آپ کا انتقال ہوا، بغداد میں مدفون ہیں ۔ابن اسحاق کی سیرت رسول اللہ ﷺ کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Alfred Guillaumeنے کیا ، یہ پروفیسر عربی کا استاد تھا اور یونیورسٹی آف لندن کے شعبہ مشرق وسطیٰ کا سربراہ تھا۔ آکسفورڈ نے یہ کتاب The Life of Muhammad کے نام سے شائع کی ہے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق ابن اسحاق کی کتاب سے پہلے بھی رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ، غزوات سے متعلق کتب بھی لوگوں نے مرتب کی تھیںگو کہ ان کی تواریخ کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں مگر بہرحال یہ سب کام پہلی صدی ہجری کا ہی ہے۔پہلا نام اس ضمن میں حضرت عثمان ؓکے بیٹے ابان کا ہے ، دوسرا نام رسول اللہ ﷺ کے کزن عروہ بن ال زبیر کا ہے ، آپؓ کی والدہ حضرت اسما ؓ تھیں جو حضرت ابوبکر ؓکی بیٹی تھیں ، حضرت عروہ ؓ کو اپنے زمانے میں اسلام کی تاریخ پر استاد مانا جاتا تھا ، بنو امیہ کے خلیفہ عبدالمالک کو جب بھی تاریخ کے کسی مسئلے پر رہنمائی کی ضرورت پڑتی وہ آپ سے ہی رجوع کرتا۔یہ واضح نہیں کہ انہوں نے کوئی باقاعدہ کتاب مرتب کی یا نہیں البتہ ابن اسحاق نے ان کی بیان کردہ روایات سے ضرور استفادہ کیا ہے۔اسی طرح عبد اللہ بن ابو بکر ؓسے بھی ابن اسحاق نے کافی معلومات اکٹھی کیں۔ موسی بن عقبیٰ وہ شخص تھے جنہیں ہم ابن اسحاق کا ہم عصر کہہ سکتے ہیں، تاریخ پر ان کا کچھ کام محفوظ رہ گیا ہے ، ان کے کام کے بارے میں امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ موسی بن عقبی ٰ کی کتاب سب سے مستند اور قابل اعتماد ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ابن اسحاق نے اپنی کتاب میں ان کے حوالے سے کوئی روایات بیان نہیں کیںجبکہ واقدی ، ابن سعد اور طبری نے جا بجا ان کا حوالہ دیاہے۔ غزوات سے متعلق کچھ ریکارڈ دوسری صدی ہجری میں عراق ، شام اور یمن میں بھی مرتب کیا گیا مگر ابن اسحاق نے اس کو مستند نہیں جانا۔ وجہ چاہے جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ جس قدر جامع اور منظم انداز میں ابن اسحاق نے اپنی کتاب مرتب کی اس کا مقابل دور دور تک ہمیں نظر نہیں آتا۔ابن اسحاق کی اِس کتاب کی تدوین ابن ہشام نے کی ۔
کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں جس کے متعلق تاریخ میں اس قدر عرق ریزی سے ریکارڈ مرتب کیا گیا ہو، یہ اعزاز صرف مسلمانوں کے پاس ہے کہ ان کے رسول ﷺ کی زندگی کا نہ صرف باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا بلکہ اس کو محفوظ کرنے کے لئے ایک علیحدہ علم کی شاخ ایجاد کی گئی ۔آج بارہ ربیع الاول ہے ، آپ ﷺ کا یوم ولادت ، ہم سب خود کو آقا ﷺ کے غلام کہتے ہیں، محبت کا دعوی کرتے ہیں ، ان کے نام کی حرمت پر کٹ مرنے کی قسم کھاتے ہیں ، مگر آپ ﷺ کے بتائے ہوئے اخلاق اپنانے کو تیار نہیں ، ہم مدینے حاضری دینے جاتے ہیں ، روضہ رسول ﷺ کی جالی تھام کر روتے ہیں ، آپ ﷺ سے شفاعت کے طالب ہوتے ہیں ، مگر واپس آکر وہی کام شروع کردیتے ہیں جو چھوڑ کر گئے تھے،وہی بد دیانتی وہی جھوٹ وہی خیانت وہی مکر و فریب اور وہی منافقت۔ پتہ نہیں روز قیامت ہم اپنے نبی ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے، خدا ہی ہمارے حال پر رحم کرے