منتخب کردہ کالم

روشنی کا مینار‘‘: ڈاکٹر خالد آفتاب! .. کامران شاہد

روشنی کا مینار‘‘: ڈاکٹر خالد آفتاب! .. کامران شاہد

ان محرابوں کو دیکھتا دیکھتا میں جوان ہوا۔ نظریں ان کی طرف اٹھتی ضرور ہیں‘ مگر تقدس کی ایک تاب ہے جو یہ سہہ نہیں سکتیں‘ جھک جاتی ہیں۔ شوق نظر دل کی انتہائوں میں اتر کر اگر دھڑکن بن جائے تو اسے عشق لافانی کہتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے میرا رشتہ وہی ہے جو ایک سائل کا درگاہ سے ہوتا ہے کہ ہر پل یہی لگن رہتی ہے کہ روشنی کا یہ مینار میری تاریک راہوں کو منور کر دے۔ہے مبالغہ تو مبالغہ ہی سہی مگر خود کو گورنمنٹ کالج سے وابستہ کر لیا۔ عہدِ بلوغت سے ہی اپنے وجود کو اس کے گرد طواف کرتا پایا ہے۔ بچپن کی خواہشات عجیب ہوتی ہیں۔ میرے بھی دل میں ایک عجب خواہش تھی کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح گورنمنٹ کالج کے ساتھ ہمیشہ کے لئے بندھ جائوں۔
گورنمنٹ کالج کی مین بلڈنگ تک پہنچنے کا راستہ گویا پستی سے بلندی کا سفر ہے۔ یہ سفر کٹھن سہی مگر مسافر رشک بھرے قدموں سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ یہ تو وہی راستے ہیں جنہوں نے شاہکار پیداکئے۔ درختوں کا یہاں ایک سلسلہ بے ترتیب سا ہے مگر طالبعلموں کا بھی ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ان پیڑوں کے سایوں سے لپٹ کر روح کو سیراب کرتے ہیں۔امیر ہو یا غریب گورنمنٹ کالج کا دامن انصاف کے پیمانوں کی طرح یکساں ہے۔ علمی لگائو تو یقینا ہر درسگاہ کے ساتھ ہو جاتا ہے‘ مگر یہاں قلب کی کچھ ایسی شناسائی بن جاتی ہے کہ اس درسگاہ کے دروازوں سے نکل کر بھی طالبعلم خود کو اسی کے حصار میں گھرا پاتے ہیں۔اپنے وجود کو ایک مرتبہ اس سے منسلک کر کے پھر انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا۔
گورنمنٹ کالج کی زندگی میں 1980ء کی دہائی تباہی کی ایک داستان ہے۔کالج کے حسن کو طلبا یونینز کی بدمعاشی نے گہنا دیا تھا۔ کالج کی کینٹین غنڈے طالبعلموں کی گولیوں سے ہروقت چھلنی رہتی ۔ پرنسپل بیچارے اپنی عزت بچائے‘ چھپتے پھرتے تھے۔ اساتذہ کو ”اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا اور کلاس لیکچر کے دوران چاک مارکر ان کی خاطر تواضع کرنا گورنمنٹ کالج میں معمول بن چکا تھا۔ نیو ہوسٹل ہر طرح کی منشیات اور ہر طرح کے قد کاٹھ کے مجرموں کی سرعام آماجگاہ تھا۔ذوق آگاہی کے جو نقش فیض‘ پطرس اور اقبال نے چھوڑے تھے ،ان کی تباہی کا اک دلخراش سلسلہ رواں دواں تھا۔ سیلاب تھا یا طوفان جو بھی تھا‘ روشنی کے اس مینار کو یقینا بجھا رہا تھا۔ چراغ کی آخری لو بجھنے کے قریب تھی۔ تاریکی کی رات ابدی ہونے لگی تھی کہ تاریخ بدل گئی۔ دن اور رات پلٹ گئے۔ وہ آفتاب تھا ۔ آفتاب ہی کی طرح آیا۔ دھند سے بھرا اُفق اس کی تاب نہ لا سکا۔ طاغوت کو ہار ماننا پڑی کہ مقابل سینہ سپر خالد آفتاب تھا کہ جن کی قیادت نے علم کے گرتے ہوئے میناروں کو تھام لیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے گنتی کے جو تین چار اچھے کام کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر خالد آفتاب کی گورنمنٹ کالج میں بطور پرنسپل تعیناتی تھی۔ خالد صاحب گورنمنٹ کالج میں اکنامکس کے ہیڈ تھے کہ گورنمنٹ کالج کی ابتر حالت پر گفتگو
کرنے کیلئے انہیں اچانک گورنر ہائوس طلب کر لیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے جہازی سائز کے پرائون کھاتے ہوئے خالد صاحب سے گورنمنٹ کالج کی بدحالی کا سبب جاننے کی کوشش کی۔خوف اور جھجک دونوں ہی خالد صاحب سے گھبراتے ہیں۔ لہٰذا برملا وہ بول اٹھے کہ جناب وزیراعظم مسائل کی جڑ تو آپ کے پہلو میں بیٹھی ہے۔ سب نے نظریں گھما کر دیکھا تو پہلو میں اس وقت کے لاہور کے میئر جلوہ افروز تھے۔ ان کی نرینہ اولاد نے گورنمنٹ کالج کے ماحول کو گندگی کی حد تک آلودہ کیا ہوا تھا۔ خالد صاحب کی بات سنتے ہی میئر صاحب کا آدھا پرائون حلق میں اور آدھا باہر گر گیا۔ وزیراعظم پاکستان بھی ایک استاد سے اس طرح کے جرأت آمیز رویے کی شاید توقع نہیں کر رہے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی سربراہی بہرحال خالد آفتاب صاحب کو ملی اور ثابت ہوا کہ ہاتھوں میں تیر اورتیغ تھامے بغیر بھی گفتار کی بے باکی ہی ذہنوں میں انقلاب برپا کر سکتی ہے اور نسلوں کا ایک سلسلہ ہے جو شعور کے نئے انقلابات سے روشناس ہوا۔
خالد صاحب کو جب پہلی مرتبہ میں نے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔دل چاہا کہ ان کی ذہانت پر کوئی نظم لکھوں‘ ہاتھوں میں تھمے قلم نے کہا کہ یہی تو وہ کردارِ بے مثال ہے کہ جس کی تقلید سے علم کی نئی نئی راہیں کھلیں گی۔خود سے مکالمے کا آغاز ہوا۔ فیصلہ ہوا ان کے دامن سے بندھ جائو کہ اس کسب فیض سے ہی میرے علم کی تکمیل ہوگی۔دل خودبخود آپ کی تعظیم کی طرف آمادہ ہو گیا۔ پہلے دن سے ہی ان کے سحر میں کھو گیا‘ آج تک بھی ان ہی کے سحر میں مبتلا ہوں۔ ہم نے فوجوں کو سرحدوں پہ لڑتے دیکھا ہے اورہم نے خالد آفتاب صاحب کو بھی محاذ پر ڈٹے دیکھا ہے۔ فرق یہ ضرور ہے مگر کہ گورنمنٹ کالج کی عظمت بحال کرنے کیلئے آپ نے اکثر جنگ کو تنہا ہی لڑا ہے۔گورنمنٹ کالج پر خالد صاحب کا احسان ہے کہ اپنے خون کے رشتوں کو بھی اس ادارے کی سربلندی کی خاطر قربان کر دیا!علم کے نئے چشمے پھوٹے ہیں ان کے عہد میں! تعلیم سے بھی بڑھ کر کردار سازی کی اک مہم تھی جو ان کی سرپرستی میں چلی۔اگر خالد صاحب کی گورنمنٹ کالج پر یادداشتوں ”AGAINST ALL ODDS: INSTITUTION BUILDING IN THE REAL WORLD‘‘ کا مطالعہ کریںتو حالت زوال میں مقید عوام بھی جان جائیں گے کہ عروج کس بلندی کا نام ہے!
میں خالد صاحب کے ساتھ تین رشتوں میں بندھا ہوا ہوں۔ وہ میرے استاد ہیں‘ ان کی سربراہی میں اپنے پروفیشنل تعلیمی کیرئیر کا آغاز گورنمنٹ کالج سے کیا اور تیسرا اہم رشتہ برخورداری کا ہے۔ ان کی محبت اور شفقت نے میرے دل و دماغ کو ان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ میری زندگی کا سب سے بڑا خواب صرف اور صرف گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھانا تھا۔ اس خواب کی تکمیل بھی آپ ہی کے دست شفقت سے ہوئی۔
کرپشن کا دوردورہ ہے۔ اس مملکت خداداد میں‘ ابھی ابھی ایک دو تہائی اکثریت رکھنے والا وزیراعظم نااہل ہو گیا۔عصرِحاضر کے ہنگامے میں قوم کو ایک لیڈر درکار ہے‘ خزانے پر جس کی نظر نہ ہو اور میرٹ جس کی پہچان ہو۔اس قوم کو بھی ایک خالد آفتاب کی ضرورت ہے۔ علم کی روشنی کا مینار۔ایک قدآور مینار جس کی بلندی دیکھنے کیلئے محض کچھ قدم گورنمنٹ کالج کی طرف بڑھائیں کہ یہاں پر پھیلی خوشبو آج بھی اس مرد بحران کی احسان مند ہے۔