منتخب کردہ کالم

روہنگیا مسلمانوں کی لہورنگ کہانی ….ابراہیم راجا

روہنگیا مسلمانوں کی لہورنگ کہانی ….ابراہیم راجا

آواز ڈوب گئی اور سانس بھی ، خون کے فوارے پھوٹے ، آخری چیخ حلق میں اٹک گئی ، پھر آنکھیں پتھرا گئیں، دو نہیں چار آنکھیں ۔ آٹھ ماہ کے ننھے فرشتے کی، اُس کی بے بس ماں کی بھی ۔ وہ ماں جسے پانچ برمی فوجی نوچ رہے تھے،درندوں کی طرح ، جس کا شیرخواردودھ کے لیے بِلکتا تھا، تیز دھار چاقو سے اُس کا گلا ہی چیر دیا گیا،ماں کے سامنے ۔یہ کوئی فسانہ نہیں، سچی کہانی ہے ، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جو بیان کی گئی ہے ۔ روہنگیامسلمانوں کی دو چار نہیں،لہو میں ڈوبی ایسی ہزاروں داستانیں ہیں۔
اقتدار میں آکر لوگ بدلتے نہیں، بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ یہ کسی عام شخص کا نہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، وہ علی ؓ جنہیں شہرِعِلم کا دروازہ قرار دیا گیا ۔ آنگ سان سُوچی اقتدار ملنے کے بعد بدلی نہیں،بے نقاب ہوئی ہیں۔انتیس برس ہوتے ہیں، جمہوریت، عدم تشدد اور صلہ رحمی کا نعرہ سُوچی نے لگایا ، عالمی مدد سمیٹی او ر ہمدردیاں بھی ۔فوج کے ہاتھوں دس ہزار شہریوں کے قتل پر اپنی سیاست چمکائی ، انیس سو اکیانوے میں امن کا نوبیل انعام پا لیا۔ مختلف ادوار میں پندرہ برس نظر بندی کاٹی، کبھی رہا، کبھی قید، بظاہر انسانی حقوق کے لیے ۔ان کے کہے ہوئے ایک جملے کو بہت پذیرائی ملی ”میں ایک ماں ہوں، میرا اپنے بچوں سے دور رہنا بڑی قربانی ہے ، اِس حقیقت سے لیکن میں ہمیشہ آگاہ رہتی ہوں کہ دوسروں نے مجھ سے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، میں جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو کبھی نہیں بھول سکتی ، وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی تشدد کا بھی شکار ہیں،اس لیے کہ ان کے اہل خانہ کو تحفظ حاصل نہیںــ‘‘۔پھر
وقت بدلا اور سُوچی کاپرانا روپ بھی ۔ رہائی اور پذیرائی نے سُوچی کوسفاکی کی حد تک خود غرض بنا ڈالا، اُن کے انسانی جذبات سیاسی مفادات کے پہاڑ تلے دب گئے، وہ جس سوچ کے خلاف لڑیں ، موقع ملنے پر اسی سوچ کی وکیل بن گئیں ۔نئی سُوچی نے اپنے نئے چہرے کی پہلی جھلک دوہزار تیرہ میں دکھائی ۔ بی بی سی کی صحافی مِشال حسین سُوچی کا انٹرویو کر رہی تھیں ، اس دوران بہت سے سوال ہوئے ، سُوچی نے ان کے جواب بھی دیے ۔روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے متعلق سوالات پر مگر وہ تلملااٹھیں۔ ان کے لاشعور میں سمایا تعصب الفاظ کی صورت زباں پر آگیا، غصے میں انہوں نے بڑبڑایا” مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا انٹرویو کوئی مسلمان کر رہا ہیــــ‘‘۔دنیا حیران تھی ،یہ وہی سُوچی ہیں جو تشدد اور تعصب کے خلاف لڑتی رہیں ؟وقت رینگتا رہا، دو ہزار سولہ میں سُوچی کی پارٹی ”نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ــ ــ‘‘بھاری ا کثریت سے اقتدار میں آگئی ۔آئین کے تحت سُوچی صدر نہیں بن سکتی تھیں،اس لیے کہ ان کے شوہر اور بچے غیر ملکی تھے، سُوچی صدر نہ بن سکیں، تمام حکومتی اختیارات مگر انہی کے پاس آگئے۔ پہلے انہوں نے بیک وقت پانچ وزارتیں سنبھالیں، پھر ان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا گیا، اسٹیٹ کونسلر کا عہدہ جو وزیراعظم کے مساوی ہے۔اب ان کی آنکھوں پر لالچ اور اقتدار کا خول چڑھ چکا ہے ۔ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت تو ایک طرف، اس کا اعتراف کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ جانتے بوجھتے ایسا کر رہی ہیں، سیاسی فائدوں کے لیے، یہ معروف صحافی پیٹر پوفم کا کہنا ہے ، وہ پیٹر جنہوں نے ماضی میں سُوچی کی جدوجہد پر سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ” The Lady and The Peacock‘‘ لکھی ۔پیٹر کے مطابق سُوچی اب ظالم فوج کی وفادار پالتو جانور بن چکی ہیں۔ان کی خاموشی آخری درجے کا گھٹیا پن ہے، یہ انسانی حقوق کے ممتاز عالمی کارکنوں کی رائے ہے ۔
روہنگیا مسلمانوں پر کیے گئے مظالم ناقابل تصور ہیں، یہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعدالحسن کا کہنا ہے ۔اُن کی رپورٹ میں دل دہلا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں۔ زید کے مطابق یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس نوعیت کی نفرت ہے، ایسی نفرت کہ دودھ مانگتے بچے کو چاقو سے ذبح کر دیا جائے، اس کی اس ماں کے سامنے جسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، یہ کس قسم کا سرچ آپریشن ہے؟ ــ‘‘۔ اسی رپورٹ کے مطابق ، اقوام متحدہ کے نمائندے جتنی روہنگیا خواتین سے ملے، ان میں نصف سے بھی زیادہ کو زیادتی کا شکار بنایا گیا ۔ان کے اہل خانہ کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، ان کے کم سِن بچوں کے گلے اورپیٹ تیز دھار چُھروں سے چاک کیے گئے۔ برمی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کو زبردستی گھروں میں بند کیا، پھر آگ لگا کر انہیں زندہ جلا ڈالا، ان کے اسکول ، مدارس ، مساجد ، مال مویشی ، سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔اقوام متحدہ کی امدادی کارکن لینیا ارویڈ سن نے بھی ان مظالم پر ایک رپورٹ مرتب کی ۔ لینیا کے مطابق انہوں نے ایسی ہو ش اڑ ا دینے والی دکھ بھری صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان کا کہناہے وہ جس روہنگیا مسلمان سے ملیں، ا س کی کہانی ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے والی ہے ۔اقوام متحدہ کے
مطابق روہنگیا مسلمانوں کی باضابطہ نظام کے تحت نسل کشی کی جارہی ہے، سرکاری سرپرستی میں ۔پچیس اگست سے اب تک چار لاکھ لُٹے پُٹے اور لہو لہان روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں ، ان میں سوا دو لاکھ بچے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کو سب سے زیادہ ظلم کا شکار اقلیت قرار دیا جا چکا ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیمو ں کی بات الگ، عالمی برادری اور بڑی طاقتوں نے اس معاملے پر سنگ دلانہ بے حسی دکھائی ہے ۔میانمار پر کوئی خاص سفارتی دباو نہ کوئی پابندیاں۔شاید اس لیے کہ روہنگیا مسلمان ہیں، مسلمانوں کا لہو کتنا ارازں ہے، افغانستان سے پاکستان تک ، عراق سے لیبیا اور شام تک ، ہر جگہ ہم دیکھ چکے ہیں ۔ نام نہاد امت مسلمہ بھی اب جاگنے کا ڈرامہ رچا رہی ہے، روہنگیا مسلمانو ں پر ہزاروں قیامتیں ٹوٹنے کے بعد،محض اپنے عوام کے بھڑکتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور سیاسی شعبدہ بازی کے لیے ۔ روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے لیے ابتدائی طورپر آٹھ ارب روپے درکار ہیں، یہ اقوام متحدہ کا انداز ہ تھا ، چار پانچ روز پہلے تک ۔اب مہاجرین کی تعدا دبڑھ چکی، شاید بارہ پندرہ ارب روپے اب درکار ہوں ۔ اتنی رقم تو عرب وعجم میں امت مسلمہ کے شہزادوں کی شادیوں یا دو چار پارٹیوں پر لگ جاتی ہو گی ۔ کیاچند لاکھ روہنگیا مسلمانوں کا بوجھ پوری مسلم دنیا پر بھاری ہے ؟ پہلے مرحلے میں ان کی امداد، پھر بحالی اور آبادکاری کا کوئی قابل عمل منصوبہ بناناممکن نہیں ؟ بہت سے روہنگیا برمی فوج اوربھکشووں نے قتل کر ڈالے، جو بچ گئے ، وہ اور ان کی نسلیںتڑپتی، سسکتی دم توڑ جائیں گی ۔کیا ہم سب کو اسی کا انتظار ہے ؟