ریاست مدینہ….علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
مدینہ منورہ دنیا کی دو مقدس ترین بستیوں میں سے ایک ہے۔ مکہ اور مدینہ کی عقیدت ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔ مکہ مکرمہ میں نبی کریمﷺ نے 13 سال تبلیغ کی اور اس کے بعد اللہ کے حکم پر ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں آپﷺ نے ایک عظیم مذہبی فلاحی ریاست کو قائم کیا۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ اس ریاست نے روحانی اور مادی اعتبار سے پوری دنیا کی رہنمائی کا فریضہ بہترین طریقے سے انجام دیا۔ اسی مدینہ منورہ میں بیٹھ کر سیدنا صدیق وفاروق رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺ کے مشن مبارک کو آگے بڑھایا۔ مدینہ منورہ کی ریاست ہر مسلمان کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مدینہ طیبہ کی ریاست کو ہر دور میں ایک ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ اس فکر میں پیش کرنے والوں میں جہاں مسلمان مفکرین اورعلماء شامل ہیں‘ وہیں پر بہت سے سیاسی رہنما بھی مدینہ طیبہ کو ماڈل کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے ہمنوا اور پیروکار اس سوچ اور فکر کی وجہ سے بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ میں مندرجہ ذیل خصوصیت پائی جاتی تھیں:
1۔ ایمان بالغیب اور خشیت الٰہی کی تبلیغ اور فروغ: مدینہ طیبہ کی ریاست نے ایمان اور اسلام کے فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ توحید کی دعوت کو اس ریاست میں بھرپور طریقے سے عام کیا گیا۔ مسجد نبوی شریف کے منبر مبارک سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کا ابلاغ پوری شدومد سے ہوتا رہا اور لوگوں کی قلوب و اذہان کو خشیت الٰہی سے پُر کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے جدوجہد کی جاتی رہی۔ اللہ کے فضل سے یہ جستجو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اور اللہ کا خوف لوگوں کے اذہان وقلوب میں اس طرح سرایت کر گیا کہ لوگ جلوت تو جلوت رہی ‘خلوت میں بھی گناہ کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں معمولی سے معمولی گناہ پر بھی اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے تھے۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اتنا غالب ہوا کہ لوگ بحیثیت مجموعی صحیح اورغلط میں زبردست طریقے سے امتیاز کرنے والے بن گئے۔ شرک اور توحید ‘ اندھیرے اور اجالے اور حلال وحرام کا فرق انہیں اچھی طرح معلوم ہوگیا اور ہر گناہ سے بچنا اہل ِمدینہ کا شعار بن گیا اور معمولی سی معمولی غلطی پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر گڑ گڑا کر ندامت کے آنسو بہانا ‘مدینہ طیبہ کے معاشرے کا وطیرہ تھا۔
2۔ اتباع اور حب رسول ﷺ کا فروغ:نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے بسنے والے باسی نبی کریمﷺ کی محبت سے سرشار رہا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کے وضو کے قطرات کو زمین پر گرنے کی بجائے‘ اپنے جسم کے ساتھ مل لیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ادنیٰ اشارہ ابرو پر اپنی جانوں کو نچھاور اپنے باعث سعادت سمجھتے تھے۔ ایک جنگ میں قبیلہ بنو دینار کی ایک عورت کے باپ‘ بھائی‘ بیٹا اور شوہر شہید ہو گئے‘ لیکن انہوںنے ان تمام زخموں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور نبی مہربان ﷺ کی بحفاظت واپسی کو اپنے لیے باعث خوشی اور غم سے دوری کا سبب قرار دے دیا۔
3۔نظام صلوٰۃ: مدینہ منورہ میں نمازوں کی ادائیگی کا نظام بڑے منظم انداز میں قائم تھا اور لوگ حیی علی الصلوٰۃ اور حیی الفلاح کی آواز کو سن کر مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے اور اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والے بن جاتے۔
4۔زکوٰۃ وعشر کا نظام: مدینہ منورہ میں زکوٰۃ وعشر کے نظام کو قائم کیا‘ جس کے ذریعے غریب مفلوک الحال اور استحضال زدہ طبقات کی بھرپور طریقے سے حمایت کی جاتی تھی۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں غریبوں اور مفلوک الحال طبقات کی دردمندی ہر دل میں موجود تھی اور لوگ زکوٰۃ‘ عشر‘ صدقات اور خیرات کے ذریعے اپنے بھائیوں کی بھرپور طریقے سے اہتمام کیا کرتے تھے۔
5۔ حدود اللہ کا نفاذ:مدینہ منورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ حدود کو پوری طرح نافذ کیا گیا تھا؛ چنانچہ غیر شادی شدہ زانی کو 100کوڑے اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جاتا۔ چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ‘ شراب پینے والے کوکوڑوں کی سزا دی جاتی اور کسی مومنہ عورت پر جھوٹی تہمت لگانے والے کو 80 کوڑے لگائے جاتے۔ قانون قصاص کی تنفیذ کے ذریعے قاتلوں کو قتل کرنے کا قانون مدینہ منورہ میں جاری کیا گیا۔ ان حدود کے قیام کا مقصد درحقیقت درندہ صفت انسانوں کو جرائم سے روکنا تھا؛ چنانچہ زنا کی حد حرمت نسب کے لیے‘ شراب کی حد حرمت عقل کے لیے‘قذف کی حد حرمت ناموس کے لیے اور چوری کی حد حرمت مال کے لیے لگائی گئی۔ قانون قصاص کے ذریعے انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔
6۔ اقلیتوں اور غلاموں کے حقوق: مدینہ طیبہ میں اقلیتوں اور غلاموں کے حقوق پوری طرح محفوظ تھے۔ مذہبی اختلاف یا طبقاتی تقسیم کی وجہ سے کسی کے بھی بنیادی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی بھی تصور مدینہ طیبہ میں موجود نہ تھا۔ یہود ونصاریٰ کے بنیادی حقوق بھی مدینہ طیبہ میں پورے ہوتے رہے اور ان کو مذہبی اختلاف کی وجہ سے کبھی بھی ظلم اور جبر کا نشانہ نہ بنایا گیا۔
7۔انصاف اور عدل:مدینہ طیبہ کی ریاست میں انصاف اور عدل کا دور دورہ تھا اور قانون کو یکساں طور پر امیر اور غریب کے لیے نافذ کیا جاتا۔ بنو مخزوم کی جب ایک بااثر عورت نے چوری کی اور اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفارش لے کر آئے‘ تو نبی مہرباں حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے‘ تو میں اُس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپﷺ نے اس موقع پر سابقہ قوموں کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا ذکر بھی کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا جرم کا ارتکاب کرتا ‘تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور اگر چھوٹا جرم کا ارتکاب کرتا‘ تو اس کو سزا دی جاتی۔
8۔مساوات و اخوت: مدینہ منورہ کی ریاست میں کسی سیاسی اور سماجی حیثیت کی وجہ سے اس کو دوسرے انسانوں پر فوقیت نہ دی جاتی تھی اور تمام انسانوں کو برابر سمجھا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی اس امر کا اعلان فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ ہاں فضیلت کی اگر کوئی وجہ ہو سکتی ہے‘ تو وہ تقویٰ ہے‘ جس کی وجہ سے ایک انسان دوسر ے انسان سے اللہ کی نظروں میں افضل ہو سکتا ہے۔
9۔سودی معیشت کا خاتمہ: مدینہ منورہ میں سودی لین دین کا مکمل طورپر خاتمہ کر دیا گیا اور لوگوں کو سود کے استحصالی نظام سے نجات دلا کر خیر خواہی کی بنیاد پر قرضے دینے پر آمادہ کیا گیا۔
10۔حیاء اور پردے کا فروغ: مدینہ منورہ کی ریاست میں حیاء اور پردہ اپنے پورے عروج پر تھا اور وہاں پر اختلاط ‘بے پردگی اور بے حیائی کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ مردو زن اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے جملہ امور کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔
11۔ریاست کا دفاع: مدینہ منورہ کے لوگ اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہا کرتے تھے اور خود نبی مہرباںﷺ مدینہ طیبہ کے خلاف ہونے والی ہر جارحیت کی روک تھام کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔
ریاست مدینہ میں ان اوصاف کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر اعلیٰ اور پائے دار اوصاف پائے جاتے تھے‘ اگر ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما پاکستان کو حقیقی معنوں میں مدینہ کی ریاست کے نقش قدم پر چلانا چاہتے ہیں‘ تو ان کو ریاست مدینہ میں پائے جانے والے مذکور بالا اوصاف پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ فقط ایک یا دواجزاء کے نفاذ سے یہ سمجھنا کہ ریاست مدینہ کا ماڈل مکمل ہو گیا ہے‘ درست نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مل جل کر ریاست مدینہ کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)