ریل حادثات سے بچائو کے اقدامات….ڈاکٹر وید پرتاب ویدک
کبھی کبھی کوئی ایک حادثہ کسی بڑے سدھار کا سبب بن جاتا ہے‘ جیسے کہ اپریل میں کشی نگر میں ہوا ریل حادثہ۔ اتر پردیش کے اس مقام پر ریلوے کراسنگ ویسا ہی کھلا پڑا تھا‘ جیسے ملک کے دیگر ساڑھے تین ہزار کراسنگ پڑے رہتے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ وہاں بچوں کی سکول بس پر ایک تیز رفتار ریل چڑھ گئی‘ جس کے نتیجے میں تیرہ بچے مر گئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ایسے واقعات اس سے پہلے کئی بار رونما ہو چکے ہیں۔ ہر برس درجنوں افراد ریلوے حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ بھارت میں گزشتہ دس برس میں بارہ سو سے زیادہ لوگ ایسے کھلے ریلوے کراسنگ پر مارے جا چکے ہیں۔ یہ سلسلہ انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ انگریز نے ریل اپنے فائدے کے لیے بنائی تھی۔ ہندوستانی لوگوں کی بغاوتوں کو دبانے کے لیے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ریل چلانا ضروری تھا۔ اس ضرورت کو پورا کیا گیا۔ پولیس اور فوج بھجوانا سب سے ضروری کام تھا۔ اس کام پر بھی توجہ دی گئی۔ مال گاڑیاں چلانا اس لیے ضروری تھا کہ انگلینڈ کے کارخانے بھارت کے کچے مال (خام مال) سے چلائے جاتے تھے۔ مال گاڑیوں کے ذریعے یہ مال ملک کے مختلف حصوں سے بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے برطانیہ روانہ کر دیا جاتا تھا۔ جو سواریاں بڑے شہروں کے بیچ سفر کرتی تھیں‘ ان کی سہولت اور حفاظت کا مکمل دھیان رکھا جاتا تھا‘ لیکن گائوں اور قصبوں سے گزرنے والی ریل کی پٹڑیوں اور ریلوے کراسنگ سٹیشنوں کی جو خستہ حالت ڈیڑھ سو سال پہلے تھی‘ وہ اب تک چلی آ رہی تھی۔ اس میں کوئی بڑی تبدیلی مشاہدے میں نہیں آئی۔ ان میں تھوڑا بہت سدھار ضرور ہوتا رہا ہے لیکن ہزاروں ریلوے کراسنگز پر نہ تو کسی قسم کے کوئی حفاظتی دروازے ہوتے ہیں کہ لوگ حادثات سے بچ سکیں‘ نہ ہی گھنٹیاں ہوتی ہیں کہ گاڑی آنے والی ہو تو لوگوں کو خبردار کیا جا سکے اور نہ ہی وہاں کوئی چوکیدار کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں سے گزرنے والوں کو آگاہ رکھ سکیں کہ اس وقت پٹڑی کراس نہ کریں‘ حادثہ ہو سکتا ہے۔ کشی نگر کا حادثہ پانچ ماہ پہلے ہوا تھا۔ اس بیچ لگ بھگ تین ہزار کراسنگز پر یا تو چوکیدار کھڑے کر دیے ہیں‘ یا ان کے نیچے سے سڑک نکال دی گئی ہے یا انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ یہ کرشماتی کام وزیر ریلوے پیوش گویل کی پہل پر ہوا ہے۔ یہ سبھی وزرا کے لیے سبق والی پہل ہے۔ اس سے بھی زیادہ کئی ضروری کام تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کیے جانے ہیں تاکہ ملک کے غریب‘ دیہاتی اور محروم دلت لوگوں کا بھلا ہو سکے‘ وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں اور بیمار ہونے کی صورت میں انہیں علاج معالجہ کی سہولت دستیاب ہو سکے۔ بھارت میں ریلوے کراسنگز پر اکثر کون لوگ حادثات کا نشانہ بنتے ہیں؟ بے زبان کسان‘ مزدور‘ دیہاتی‘ جنگلی اور معذور لوگ۔ سرکاریں انہی لوگوں کے ووٹوں سے بنتی ہیں لیکن بننے کے بعد وہ ووٹ والوں کی نہیں‘ نوٹوں والوں کی خدمت میں لگ جاتی ہیں۔ یہ پہل سچی جمہوریت کی پہل تو ہے ہی‘ میں اسے ثواب کا کام بھی مانتا ہوں۔ یہ طے ہے کہ ان اقدامات کے بعد بھارت میں ریل سے کٹ مارنے والوں کی تعداد ضرور کم ہو جائے گی۔
بھارت کیوں دبے امریکہ سے؟
امریکہ کے وزیر دفاع جیمس میٹس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو ابھی گزشتہ ہفتہ ہی بھارت سے ہو کر گئے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت کے سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو واشنگٹن جانا پڑا ہے؟ ڈوول تو حقیقت میں نائب وزیر اعظم ہی مانے جاتے ہیں۔ ہماری وزیر خارجہ سے زیادہ اہمیت ان کی ہے؟ انہیں واشنگٹن دوڑنا پڑ گیا‘ یہ فکر کی بات ہے۔ آخر اتنی کیا ایمرجنسی پیدا ہو گئی تھی؟ اخبار کہتے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے وزرا کی بات چیت کو آگے بڑھانے گئے ہیں‘ لیکن دونوں ملکوں کے وزیروں نے اپنی بات چیت کے بعد دلی میں یہ تاثر چھوڑا تھا کہ ایران اور روس کے معاملے میں امریکہ بھارت کو چھوٹ دے گا۔ بھارت پر امریکہ یہ دبائو نہیں ڈالے گا کہ وہ ایران سے تیل اور روس سے ہتھیار نہ خریدے‘ لیکن لگتا یہ ہے کہ واشنگٹن پہنچتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دونوں وزیروں کی پریڈ لے لی ہے۔ غالباً اسی لیے امریکی سرکار کی ایک نائب وزیر نے دو تین دن پہلے ایک بیان میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ امریکہ ایسے کسی بھی ملک کو بخشنے والا نہیں‘ جو ایران سے تیل خریدنا بند نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بات چین‘ بھارت‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور یورپ کا نام لے کر کہی۔ دوسرے الفاظ میں میٹس اور پومپیو کا دورۂ بھارت خالی جُھنجھنا ثابت ہوا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ جنگی ساز و سامان بنانے کا معاہدہ کر گئے اور اپنا مال بیچنے کی ہوا بنا گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں بھارت کو کیا ملا؟ بھارت کا کون سا فائدہ ہوا؟ یہ واضح ہے کہ اگر بھارت ایران سے تیل خریدنا بند کر دے گا تو اسے کافی مہنگی قیمت پر دوسرے ملکوں سے لینا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ سرکار کا سر درد بھی۔ یہ تو سبھی کو معلوم ہو گا کہ امریکہ نے چند ماہ پہلے ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی سمجھوتے کو مسترد کر دیا تھا‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران کو اپنے سامنے چاہتا ہے۔ اس سے اپنی باتیں منوانا چاہتا ہے۔ اسے اس کی پروا نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں بھارت کا دم پھول سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے میں بھارت کو ذرا سختی سے پیش آنا چاہیے۔ امریکی دبائو کے آگے بالکل نہیں جھکنا چاہیے اور اگر امریکہ درخواست کرے تو بھارت ایران اور امریکہ کے مابین ثالث کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔
مایا وتی سے بھاجپا گدگد
اگلی سرکار بھاجپا کی بنے گی یا مخالفین کی‘ یہ طے کرنے میں سب سے بڑا کردار اگر کسی کا ہو گا تو وہ اتر پردیش کا ہو گا۔ اگر اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی‘ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد بن جائے تو 2019ء کے چنائو میں بھاجپا اپنے آپ اقلیت میں آ جائے گی۔ ان تینوں پارٹیوں نے مل کر پچاس فیصد سے بھی زیادہ ووٹ جٹا لیے تھے‘ اپنی بری شکست کے باوجود! جبکہ لہر پر سوار ہونے کے باوجود بھاجپا کو 43 فیصد ہی ووٹ ملے تھے۔ ودھان سبھا چنائو میں غیر معمولی فتح حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ مہینوں میں ہی لوک سبھا کی کچھ نشستوں پر بھاجپا نے چاروں سیٹیں کھو دی تھیں‘ کیونکہ اپوزیشن ایک جُٹ ہو گئی تھی۔ اگر 2019ء میں بھی اپوزیشن ایک ہو جائے تو بھاجپا کو 80 میں سے دس پندرہ سیٹیں ہی مل سکیں گی‘ اور حقیقت یہ ہے کہ بھاجپا کو اگر اتنا بھی مل جائے تو غنیمت ہی ہو گی‘ لیکن مایا وتی نے ادھر جو حربہ مارا ہے‘ اس نے چھپن انچ کے خالی پھیپھڑے میں تھوڑی ہوا بھر دی ہے۔ بھاجپا گدگد ہے۔
مایا وتی نے 80 میں سے چالیس سیٹیں مانگی ہیں‘ جبکہ 2014ء میں وہ ایک بھی سیٹ جیت نہیں پائی تھیں۔ بسپا کو بیس فیصد ووٹ ضرور ملے تھے لیکن اس بار بیس فیصد ملنا بھی مشکل ہے۔ پھر بھی وہ اور بسپا کے اکھلیش یادو آپس میں ٹکرا گئے تو مخالفین کا سارے بھارت میں بیڑا غرق ہو جائے گا۔ اس موقع پر اکھلیش نے کافی پختگی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ اتحاد کی خاطر دو قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔ مایا وتی کی مایا اتر پردیش کے باہر بھی کارآمد ہے۔ ہندی صوبوں کے دلتوں میں ان کا جادو برقرار ہے‘ حالانکہ نوجواں دلت لیڈر چندر شیکھر اپنی بھیم آرمی کے بسپا سے مقابلے کے لئے تیار ہیں۔ دلتوں کا دل جیتنے کی قواعد میں بھاجپا نے ساری پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس نے سپریم کورٹ کے دلتوں سے متعلق فیصلے کو پارلیمنٹ میں لا کر الٹا لٹکا دیا ہے۔ بھاجپا اس میں بھی خوب رس لے رہی ہے کہ شوپال یادو نے نئی پارٹی کھڑی کر لی ہے۔ ادھر چاچا بھتیجے اور ادھر خالہ بھانجے کے لیے لذیذ بُھرتہ تیار کر رہے ہیں۔