ریٹائرڈ اور حاضر سروس جج سے خیراتی ہسپتال تک….خالد مسعود خان
اپنے ریٹائرڈ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پارٹی ”پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کا نصب العین الیکشن میں حصہ لینا نہیں بلکہ الیکشن میں کھنڈت ڈالنا تھا۔ اس کو زیادہ وضاحت اور تفصیل سے بیان کریں تو اس پارٹی کا یعنی افتخار محمد چوہدری صاحب کا الیکشن 2018 کے حوالے سے یک نکاتی ایجنڈا صرف اور صرف عمران خان کو آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت نا اہل کروانا ہے۔ جب پاکستان بھر کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار وںکی انتخابی مہم چلا رہی تھیں ، اُدھر یہ عالم تھا کہ ”انصاف اور جمہوریت‘‘ کے نام پر بننے والی یہ پارٹی اپنا الیکشن لڑنے، اپنے کسی امیدوار کی انتخابی مہم چلانے یا پاکستان کے عوام کو اپنا انتخابی منشور پیش کرنے کے بجائے ہر جگہ صرف عمران خان کی نا اہلی بارے عدالتوں میں ”رٹیں‘‘ کرنے پر لگی ہوئی تھی۔ بقول شاہ جی اس پارٹی کے نام کے دو حصے ہیں۔ ایک جسٹس اور دوسرا ڈیموکریٹک۔ یہاں جسٹس سے مراد انصاف نہیں بلکہ جسٹس (ر) افتخار محمد ہیں اور ڈیموکریٹک سے مراد جمہوریت نہیں محض رنگ میں بھنگ ڈالنا ہے، جو جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی پارٹی اس الیکشن میں مسلسل ڈال رہی ہے۔
معاملہ وہی سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیریان کا ہے۔ اس مسئلے پر افتخار محمد چوہدری کی گیارہ رکنی پارٹی عمران خان کے الیکشن والے چاروں حلقوں میں منہ کی کھا چکی ہے مگر چوہدری صاحب کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا یہ عالم ہے کہ وہ ٹیریان بی بی کی ولدیت کے سلسلے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ لاہور، میانوالی اور کراچی میں بھی عمران خان کی نا اہلی کے سلسلے میں دائر کردہ ان کی ساری رٹیں خارج ہو چکی ہیں مگر ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”دھن حوصلہ ہے‘‘ اپنے سابقہ چیف جسٹس صاحب کا کہ الیکشن مہم کے آخری روز، جب سارے سیاسی رہنما اپنے اپنے امیدواروں اور پارٹی کے لیے سارا زور لگا رہے تھے اپنے چوہدری صاحب مستقل مزاجی سے تحفظ حقوق ٹیریان اور دفعہ 62 کے عمران خان پر اطلاق کی مہم میں جُٹے ہوئے تھے۔ ان کی گیارہ رکنی پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالوہاب بلوچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہے کہ عمران خان آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ انہوں نے سیتا وائٹ کے حوالے سے اپنی بیٹی ٹیریان کے بارے میں جھوٹ بولا، وہ بیرون ملک اسے اپنی بیٹی تسلیم کر چکے ہیں لیکن پاکستان میں انکاری ہیں۔ لہٰذا ان کو نااہل قرار دے کر الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جائے۔
ایمانداری کی بات ہے ٹیریان کی جتنی فکر اپنے سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ہے اتنی تو سیتا وائٹ کے ماں باپ کو نہیں ہوگی۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ پانچ سال بعد الیکشن آئے ہوں۔ ہر چھوٹی بڑی پارٹی اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہو۔ حتیٰ کہ مفرور سابقہ صدر پرویز مشرف کی پارٹی بھی آٹھ دس جگہوں سے (مجھے اتنا ہی پتہ ہے۔ باقی کے بارے میں کیونکہ راوی خاموش ہے اس لیے میں بھی لا علم ہوں) یعنی این اے 1 چترال سے ان کی پارٹی کا امیدوار ڈاکٹر امجد ہے جو الیکشن کمیشن میں پارٹی رجسٹریشن کی مجبوری کے باعث پرویز مشرف کے پارٹی چیئر مین کے عہدے سے استعفے کے بعد اب پارٹی کا نیا چیئر مین ہے۔ اس کے علاوہ جنرل پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ نے اپنے نو منتخب چیئر مین ڈاکٹر امجد کو اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 سے بھی امیدوار کھڑا کیا ہوا ہے۔ پرسوں جب افتخار محمد چوہدری صاحب دوسروں کو خوار کرنے کی سعیٔ لا حاصل میں مصروف تھے اپنے مفرور سابقہ صدر صاحب اپنے امیدوار ڈاکٹر امجد کے لیے چترال کے لوگوں کو وڈیو پیغام دینے میں مصروف تھے۔
اللہ نے جتنی عزت افتخار محمد چوہدری کو دی اتنی پاکستان کی تاریخ میں کسی چیف جسٹس کو نہ تو اس سے پہلے نصیب کی اور نہ ہی آئندہ کسی چیف جسٹس کو ملنے کی امید ہے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ جس طرح محنت کر کے افتخار محمد چوہدری نے اس عزت کا خانہ خراب کیا ہے اس کی مثال بھی پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اس کارِ خیر میں ان کے برخوردار ارسلان چوہدری کے اعمال اور ابا جان کی پردہ پوشیوں کے علاوہ چوہدری صاحب کے سیاست میں کود پڑنے کا بڑا دخل ہے۔ افتخار چوہدری صاحب کی مقبولیت محض دو اڑھائی سال برقرار رہی۔ لیکن ڈاکٹر قدیر خان اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول و محترم تھے مگر سیاسی جماعت تو ان کی نہ چل سکی، افتخار چوہدری کس باغ کی مولی تھے۔
زاہد فخری ایک بار فیصل آباد کی ایک تقریب کا حال سنا رہا تھا۔ بتا رہا تھا کہ یہ تقریب فیصل آباد کے ایک شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار، نقاد اور ادیب کے اعزاز میں ہو رہی تھی اور اس تقریب کا سارا اہتمام اور خرچہ خود اسی ادیب نے کیا تھا۔ تقریب کے دوران ایک مقرر کے صاحبِ تقریب کی شان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ مجھے آج صاحبِ شام کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا گیا ہے۔ موصوف (نام لکھنا مناسب نہیں) جتنے مختصر عرصے میں اپنی شاعری، افسانہ نگاری، کالم نگاری اور تنقید کے باعث فیصل آباد کے ادبی افق میں (یہاں ایک وقفہ آتا ہے) ذلیل و رسوا ہوئے ہیں، اس کی فیصل آباد کی ادبی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد تقریب میں وہ افراتفری اور دنگا فساد ہوا کہ خدا کی پناہ۔ یہ واقعہ مجھے ایسے ہی برسبیل تذکرہ یاد آ گیا ہے۔ اس کا افتخار محمد چوہدری سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مناسبت۔
دوسری طرف ایک حاضر سروس جج کی تقریر نے آج کل دھوم مچا رکھی ہے۔ موصوف کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس کئی سالوں سے زیر التوا تھا اور اب اس کی تاریخ لگی ہے۔ اور وہ اس ریفرنس کو ”الم غلم‘‘ کرنے کے لیے اداروں پر وہ الزامات لگا رہے ہیں جو کسی حاضر سروس جج کے مرتبے کے شایان شان تو کیا ہوںگے اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے ریڈر کی شان کے بھی خلاف ہیں۔ ان کے الزامات کے دو فریق ہیں۔ ایک چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور دوسرا فریق ایک حساس ادارہ۔ سوال یہ ہے کہ ان کا ذریعہ معلومات کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے۔ بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔
یاد آیا کہ سابقہ چیف جسٹس صاحب کو بھی یہ سیاست وغیرہ چھوڑ کر کوئی اور مناسب کام کرنا چاہئے۔ اللہ نے انہیں پہلے بھی ان کی اوقات سے زیادہ عزت عطا کی تھی اور مجھے امید ہے کہ وہ دوبارہ بھی وہی عزت حاصل کر لیں گے۔ عمران خان نے کینسر ہسپتال بنایا، ابرار الحق نے بھی ہسپتال بنایا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ایس آئی یو ٹی کی بنیاد رکھی۔ جماعت اسلامی الخدمت کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے۔ کشمیر میں محمود احمد صاحب کی قائم کردہ ”ریڈ فائونڈیشن‘‘ اپنے 382 سکولوں میں ایک لاکھ سے زیادہ طلبہ کو معیاری اور سستی تعلیم دے رہی ہے۔ اس میں دس ہزار کے لگ بھگ یتیم بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ تعلیم کے فروغ کے لیے مصروف عمل ہے اور اس کا بنیادی مقصد بھی دیہات کے غریب طلبہ کو انتہائی سستی اور معیاری تعلیم دینا ہے۔ ان کے ہاں بھی کل پچانوے ہزار میں سے ساڑھے چار ہزار یتیم اور پچپن ہزار وہ بچے ہیں جو فیس نہیں دے سکتے۔ یعنی کل ساٹھ ہزار کے لگ بھگ بچے مکمل مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میری چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے لیے تجویز ہے کہ وہ پاکستان میں آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کا ایک اعلیٰ درجے کا خیراتی ہسپتال بنائیں ۔ اللہ انہیں اسی میں دوبارہ عزت عطا کرے گا۔