ریٹرننگ افسرا ن کا کردار….کنور دلشاد
ہمارے انتخابات کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انتخابی عمل قابل اعتماد ہو تو ملکی استحکام کا زریعہ بنتا ہے، لیکن بد قسمتی سے وطن ِعزیزمیں انتخابات کے بالعموم شفاف نہ ہونے دھن‘دھونس‘دھاندلی کے عمومی ہتھکنڈوں کے علاوہ بعض حلقوں کی جانب سے مرضی کے نتائج کی خاطر اختیار کئے جانے والے ناجائز حربوں کے سبب انتخابی عمل پر وہ اعتبار اب تک قائم ہی نہیں ہو سکا‘ جو قومی یکجہتی کے فرائض کا باعث بنتا۔ تاریخ کے صفحات کو گہری نظروں سے دیکھا جائے ‘تو قوم کا پہلا انتخابی تجربہ 1951ء میں صوبہ پنجاب کے انتخابات کی شکل میں سامنے آتا ہے‘ جس میں ہونے والی دھاندلی نے انتخابات کو مذاق بنا ڈالا۔اس کے بعدمشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے اور جس کے نتیجے میں آل پاکستان مسلم لیگ‘ سوائے ایک نشست کے بری طرح شکست سے دوچارہوئی‘اس طرح صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں ریفرنڈم اور جمہوریت کے نظام کے تحت صدارتی انتخاب اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے رہے‘ جو ملک کی انتخابی تاریخ کے مذاق ترین انتخابات کی زد میں آتے ہیں۔ حقِ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ملک میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے‘ جو جزوی طور پر بڑی حد تک شفاف کہلائے‘ مگر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور طاقتور حلقوں نے ان کے نتایج تسلیم نہ کر کے ملک کے دو لخت ہوجانیکی راہ ہموار کر دی جبکہ 1977ء کے انتخابات کے نتائج کے خلاف شروع ہونے والی تحریک‘ آئینی نظام کی بساط لپیٹے جانے کا سبب بن گئی‘ جس کے نتیجہ میں جنرل ضیاالحق گیارہ سال تک بلاخوف و خطر حکومت کرتے رہے۔گیارہ سال کے دور حکومت میں نام نہاد مجلس شوریٰ‘ریفرنڈم اور غیر جماعتی بنیادوں پر 1985ء میں انتخابات ہوئے اور جنرل ضیا ء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعداور سپریم کورٹ کی مداخلت سے اور ان کے تاریخی فیصلے؛ بے نظیر بھٹو بنام وفاق پاکستان‘ اکتوبر 1987ء میں جب یہ فیصلہ سامنے آیا کہ ملک میں پارٹی کی بنیادوں پر انتخابات کروائے جائیں گے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سابقہ عمل کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے میں جماعتی سطح پر انتخابات کرانے کی راہ ہموار کی تھی‘ جبکہ جنرل ضیا ء الحق بضد تھے کہ وہ پانچ بار غیر جماعتی طور پر انتخابات کروائیں گے‘ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان ان کی راہ میں حائل ہو گئی‘ اس طرح نومبر1988ء میں اور 24اکتوبر 1990ئ‘نومبر 1993ئ‘3فروری 1997ئ‘10اکتوبر 2002ئ‘18فروری2008ء اور 11مئی 2013ء کو انتخابات ہوتے رہے۔ اب 25جولائی کے انتخابات‘ اگر نہ شفاف ہوئے ‘تو قومی سلامتی و بقا کے لئے مزید مشکلات جنم لیں گی‘ لہٰذا ملک و قوم سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے ازالے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تعاون کریں اور مکمل طور پر شفاف‘دیانتدار اور غیر جانبدار انتخابات یقینی بنائیں جائیں۔
پاکستان کا المیہ اور آج کی سیاست کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا سر کردہ اس ذہنی سیاسی وسعت سے عاری ہے‘ جس سے قومیں نئے خواب دیکھتی ہیں اور ان کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے جد و جہد کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں فکری بنیادیں کافی سطحی ہیں اور ان کے ساتھ دانشورو ں کا گروہ شامل نہیں ہے۔مفاد پرست سیاست دانوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے وفاقی ڈھانچے پر کاری ضرب لگا کر ملک کو پانچ آزاد ریاستوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اب وہ تمام حدیں عبور کرکے ریاست کے ہر ادارے کے لئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں ۔ملک ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور 25جولائی کے انتخابات سے ہی ملک کی وحدت کا فیصلہ ہوگا اور ملک کی وحدت کو بچانے کے لئے عوام کو 25جولائی کو فیصلہ کرنا ہے۔موجودہ حالات میں ووٹ کو اس چناؤ کے لئے ظاہر کرنے یا مشاورت میں حصہ لینے کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔ووٹ یا رائے کا اظہار ایک امانت ہے‘ جو اگر سورہ النسا میں دیئے گئے اللہ کے اس حکم کے مطابق ہو کہ ”امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘‘ تو عبادت ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ووٹ ذات‘ برادری کے لالچ میں نہ دیا جائے۔امید وار کی اہلیت‘دیانت اور کردار کو سامنے رکھا جائے ‘یہ بات بھی ملحوظ رکھی جانی چاہئے کہ ووٹ کی جس پرچی کو بھی امانت سمجھ کر پوری احتیاط سے درست طور پر نشان لگایا جائے گا‘ وہ ملکی نظام کو مثالی بنانے کا ذریعہ ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اہلیت کے لئے نئی شرائط کے اجرا کے بعد اداروں کو کوہ ہمالیہ جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی بیان حلفی میں شامل شق این کے تحت مسترد کر دیے گئے‘ جس میں امیدوار سے اپنے حلقے میں عوامی مفاد میں کئے گئے کاموں سے متعلق پوچھا گیا ہے‘ جبکہ عمران خان تو کبھی بھی اپنے حلقے میں ہی نہیں گئے۔ عمران خان اور دیگر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آٖٖٖٖٖٖٖٖف پاکستان نے کاغذات نامزدگی کیساتھ حلفیہ فارم میں بڑا سوچ سمجھ کر شقیں شامل کی گئی ہیں۔ فارم کی اوتھ کمشنر سے تصدیق کرانے کے بعد ہی حلفی صورت میں ریٹرننگ افسران کو جمع کرائے گئے تھے۔حلفی بیان میں غلط بیانی کرنے اور حقائق چھپانے کے جرم میں تا حیات نا اہلیت کی تلوار ہمیشہ کے لئے لٹکی رہے گی ۔فارم میں عوامی مفاد پر مبنی ترقیاتی منصوبے اور پارٹی کے منشور پر عمل در آمد کرانے کے بارے میں شق شامل کی گئی ہے ۔اور امید واروں کو حلف دینا ہوگا کہ انہوں نے اپنے حلقے میں کیا ترقیاتی کام کرائے۔بادی النظر میں عمران خان اور دیگر امید واروں کے کاغذات نامزدگی الیکشن ٹربیونلز میں منظور ہو جائیں گے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 25جولائی کے انتخابات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا ہے‘ جس کے ذریعے 83000پولنگ اسٹیشنوں کا گوگل نقشے پر ڈیٹا موجود ہوگا اور واٹس ایپ کے ذریعے پریذائڈنگ افسران منٹوں میں رزلٹ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوانے کی استعداد رکھتے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بادی النظر میں دھاندلی کے سد باب کے لئے جامع حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ اس کے باو جود کریمنل ذہن کے ورکرز‘ اگر شرارت سے باز نہ آئے۔ اس کی ذمہ داری ریٹرننگ افسران پر عائد ہوتی ہے‘ تاکہ ان پر گہری نظر رکھیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت اپنے حلقے میں دھاندلی‘ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی ذمہ دار ریٹرننگ افسران کی فورسز ہونگی۔
حالیہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسران نے کاغذات نامزدگی کے حلف نامے کو مد نظر رکھتے ہوئے‘ جو کاغذات نامزدگی منظور کئے اور امید واروں سے ذرائع وسائل کا نہیں پوچھا‘ اس سے قوم ریٹرننگ افسران کی کار کردگی سے مایوس ہوئی۔ریٹرننگ افسران نے چیف جسٹس آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کی رو کے مطابق عمل نہیں کیا اور اس سے بادی النظر میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کا جھکائو مخصوص سیاسی پارٹیوں کی طرف رہا۔ انہیں ریٹرننگ افسران نے پولنگ عملے کا تقرر کرنا ہے‘ لہٰذا ان کے سیاسی رجحانات کو بھی مد نظررکھا جائے۔