ریڑھ کی ہڈی کی مرمت…نسیم احمد باجوہ
پہلے تین فوجی آمر (ایوب خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف) پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے وزرائے اعظم؛ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو ‘ پھر پہلے صدرآصف زرداری اور آخر میں نواز شریف۔ ان لوگوں کی بہت سی باتیں انہیں ایک دُوسرے سے جُدا کرتی ہیں ‘مگر ایک بڑی اہم پالیسی ان سب کے درمیان قدر مشترک ہے۔ وہ انہیں ایک دُوسرے سے اتنا ملاتی ہے کہ لگتا ہے کہ اُن سب کا تعلق ایک ہی پارٹی سے ہے اورایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ بوتل کے باہر رنگا رنگ کے لیبل‘ مگر بوتل کے اندر ایک ہی مشروب۔ فوجی وردی ہو یا شیروانی‘ لباس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ جب دل و دماغ ایک ہوں‘ معاشی نظریہ ایک ہو‘ معاشی پالیسی ایک ہو‘ نظریات ایک ہوں‘ منشورایک ہو‘ تو مندرجہ بالا حکمران (غالبؔ سے تحریف کی معذرت کے ساتھ) اصل میں سارے ایک تھے۔ اقبالؔ نے قصہ جدید و قدیم کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ دلیل کم نظری ہے۔ کہاں‘ اقبالؔ اور کہاں یہ مسکین کالم نگار‘ مگر مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھی اتنے ہی وثوق کے ساتھ ان میں فوجی حکمرانوں اور چار جمہوری رہنمائوں کے درمیان سطحی فرق پر زور دینے یا اُسے اُجاگر کرنے یا اُسے مبالغہ آرائی سے بیان کرنے کو دلیل ِکم نظری کہوں اور بار بار کہوں‘لکھوں اوربار بار لکھوں (جیسا کہ میں نصف صدی سے کرتا آیا ہوں)۔
مرحوم بھٹو صاحب کے دور میں سب سے فاش اور سب سے مہلک غلطی بڑے اداروں (بینکوںاور بیمہ کمپنیاں) سے لے کر چاول چھڑنے والے اور آٹا پسینے والے چھوٹے صنعتی یونٹوں کو قومی ملکیت میں لے کر پرلے درجے کے نالائق کام چور‘ بددیانت اور لوٹ مار کے ماہر سرکاری افسروں کے سپرد کرنا تھا۔ ان کے جانشین‘ اُن سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے۔ اُنہوں نے امریکہ‘ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے اربوں ڈالرقرض (بطورِ خیرات) لینے کے لئے اور اُن کے نادر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ‘قومی اثاثوں کو اونے پونے نجی ملکیت میں دینے کی عوام دُشمن اور ملک دُشمن روش اپنائی۔ اسے انگریزی میں کہتے ہیں: Selling Family Silver اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو گزارہ کرنے میں دُشواری پیش آئے ‘تو وہ اپنے خاندانی اثاثے‘ اپنی بوڑھی ماں کا زیور اور اپنے عمر رسیدہ باپ کی زمین فروخت کرنا شروع کر دے‘ پی آئی اے اور پاکستان ریلوے سے لے کر پاکستان سٹیل مل تک۔ پہلے ان کو کرپشن کے سرطان کے ذریعہ کھوکھلا کر دیا گیا‘ پھر یہ تجویز پیش کی گئی کہ اربوں روپوں کا ماہانہ خسارہ ختم کرنے کا صرف ایک طریقہ یہ ہے کہ ان قومی اداروں کو Privatise یعنی ارب پتی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے۔ انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر ملک کی معیشت (یعنی اس کا اقتصادی‘ مالیاتی اور پیداواری نظام) اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ گزشتہ 70 سال میں یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والے ہر حکمران نے ہماری ریڑھ کی ہڈی توڑی ہے۔ ہمیں مفلوج اور اپاہج‘ دائمی فقیر اور محتاج بنانے کے لئے شب و روز محنت کی ہے۔ اس کار ِبد میں اُنہیں اتنی کامیابی حاصل ہوئی کہ گزرے ہوئے ایک سال کے اندر ہمارے کرنٹ اکائونٹ (چالو کھاتہ) کا گھاٹا 42.5 فی صد بڑھا۔ دو سال کے اندر کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ4.88 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو گیا۔ آج ہمارے ملک میں صرف 15.7 بلین ڈالر کا زرِ مبادلہ رہ گیا ہے‘جو ہمارے ملک کو صرف نو ماہ چلانے کے لئے کافی ہوگا۔ ہماری درآمدات62.2 ارب ڈالر کی اور برآمدات صرف 29.9 ارب ڈالر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کشکول گدائی اُٹھائے ‘کبھی امریکہ کا رُخ کرتے ہیں اور کبھی چین کا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا مطلب ہے‘ روپے کی قیمت کا گرنا۔ روپے کی قدر گرے گی‘ تو مہنگائی بڑھے گی‘ بے روزگاری مفلوک الحالی اور غربت بڑھے گی۔
مالی خسارہ کو ختم کرنے کے لئے اسحاق ڈار قسم کے عوام دُشمن وزیر خزانہ دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے کا سہارا لیتے رہے ہیں‘ جس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا اور اس کا نتیجہ پٹرول سے لے کر اشیائے صرف (خصوصاً خوراک) کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا باعث بنا۔ اس کالم کی محدود جگہ اجازت نہیں دیتی کہ میں تمام بڑے قومی اثاثوں کا ذکرکروں‘ اس لئے صرف پاکستان سٹیل مل پر توجہ مرکوز رہے گی۔ امریکہ شروع دن سے پاکستان میں سٹیل مل کے قیام کا مخالف تھا ۔70 کی دہائی میں سوویت یونین (موجودہ رُوس اس کا سب سے بڑا حصہ تھا) نے ہمیں سٹیل مل بطور تحفہ بنا دی۔ پچھلے 30 سال سے یہ سٹیل مل ہمارے لئے سفید ہاتھی بن گئی ہے‘ جو ہر سال اربوں روپوں کے خسارہ پر چلائی جا رہی ہے اور اب یہ کمر توڑ خسارہ بجا طور پر ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ سٹیل مل ابھی تک نجی ملکیت میں نہیں دی گئی۔ اب اُفق پر اُمید کی جو نئی کرن اُبھری ہے‘ اُس کا نام ہے PSM Stakeholders Group اس گروپ میں مل کے مزور ‘ پنشن یافتہ افراد‘ مل کے ساتھ کاروبار کرنے والے‘ اس کا خام مال فروخت کرنے والے‘ تیار شدہ فولاد خریدنے والے اور ٹھیکہ دار شامل ہیں۔ وہ بڑے پرُ اُمید ہیں کہ وہ اس مل کی پیداوار کو تین گنا بڑھا سکتے ہیں۔ اس گروپ نے نگران وزیراعظم کو خط لکھ کر مل کو خریدنے کی پیشکش کی ہے‘ مگر میری معلومات کے مطابق نگران حکومت کی کابینہ کو انتخابات کے انتظامات نے اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ اس بہترین تجویز پر غور کر سکے۔ اس گروپ نے خریداری کی پیشکش کے ساتھ تین شرائط کو نتھی کیا ہے: (اوّل) دو ہزار ایکڑ زمین قبضہ گروپ سے واگذار کراکے اس کے اصل مالک (سٹیل مل) کو واپس دلائی جائے (دوم) صنعتی اداروں کو چلانے کے لئے پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والوں کو مل کا انتظامی سربراہ بنایا جائے (سوم) سٹیل مل کو 29 ارب روپے کی مالی امداد دی جائے۔ پہلی اہم بات یہ ہے کہ سٹیل مل اس گروپ کے اراکین کا 70 ارب روپے کی مقروض ہے۔ دُوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سٹیل مل کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے اس وقت پاکستان دس ارب ڈالر کی مالیت کا فولاد ہر سال درآمد کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین (جن میں Pak China Investment Bank بھی شامل ہے) سٹیل مل کے مزدوروںاور ٹھیکہ داروں اور Stake Holders کے گروپ کی طرف سے خریداری کی پیشکش کی حمایت کی ہے۔
یہ سطور 27جولائی کی شام کو لکھی گئیں‘ یہ جب تک شائع ہوں گی۔ نئے وزیراعظم اپنی کابینہ بنانے کے مراحل میں ہوں گے۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ اس کالم میں شائع ہونے والی سطور کا تحفہ نئی کابینہ کے وزیر خزانہ اور وزیراعظم تک ضرور پہنچا ؤں‘ نہ صرف ان تک‘ بلکہ مندرجہ ذیل عوام دوست اور روشن دماغ ماہرین معیشت تک بھی؛ ڈاکٹرشاہد حسین صدیقی‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر شاہد کار دار‘ عابد حسن اور شاہد جاوید برکی (یہ دونوں ورلڈ بینک کے سابق اعلیٰ افسران ہیں) میں کراچی میں جناب شہاب الدین اوستو کے علاوہ وکلا کے ایک گروپ (عدل و انصاف فورم) سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد سے بھی رابطہ کروں گا۔ صد افسوس کہ میں خود ماہر معیشت ہر گز نہیں (بی اے کا امتحان دیا تو اکنامکس کے پرچہ میں بمشکل پاس ہوا) مگر عمر بھر کا مطالعہ اور نصف صدی سے یورپ کے معاشی نظام کا کھلی آنکھوں سے براہ راست مشاہدہ بغیر کسی تحفظ کے مجھ سے لکھوا رہا ہے کہ مذکورہ بالا فارمولا اتنا اچھا اور قابل قبول ہے کہ وہ نہ صرف سٹیل مل کا مسئلہ حل کر سکتا ہے‘ بلکہ ہمارے معاشی نظام میں چار سو اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔ ہم اس وقت گرے پڑے ہیں‘ اگر ہمیں اُٹھنا ہے اور اُٹھ کر چلناہے ( اور وہ بھی تیز تر قدموں سے) تو سب سے پہلے اپنی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کی مرمت کرنا ہوگی۔