منتخب کردہ کالم

زرداری کی واپسی؛ اصغر عبداللہ

آصف علی زرداری نے وطن واپس آ چکے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے وہ اس وقت بیرون ملک تشریف لے گئے تھے، جب انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کومخاطب کرکے اینٹ سے اینٹ بجادینے کی بات کی تھی، اورکہاکہ آپ نے ڈیڑھ سال بعدچلے جاناہے، ہم نے ادھرہی رہنا ہے۔ کہنے والوں نے کہاکہ آصف زرداری نے یہ بات اس تناظرمیں کہی کہ کراچی آپریشن میں ایم کیوایم کے بعد پیپلز پارٹی کے گرداگردبھی گھیراتنگ ہونے لگاتھا۔ ڈاکٹرعاصم کی گرفتاری اس امرکااشارہ تھا۔

بہرحال وجوہات جوبھی ہوں، آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجادینے والا بیان دے کر بات کوکہیں سے کہیں پہنچادیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی درجہ حرارت آناً فاناً بلندترین سطح کوچھونے لگا۔ چوہدری شجاعت حسین کے زوردینے پرآصف علی زرداری نے اپنے متنازعہ بیان کی گول مول تردیدکردی ۔ اس کے بعداندرون خانہ کیاہوا، یہ حکومتی رازدانوں ہی کومعلوم ہوگا، مگر دیکھنے میں آیاکہ آصف زرداری اس طرح لندن اور دوبئی جاکے بیٹھ گئے کہ پچھلے سال محترمہ بے نظیربھٹو کی برسی میں شرکت کے لیے بھی واپس نہ آسکے۔

آصف زرداری کی آمد سے چندگھنٹے پہلے کراچی میں ان کے قریبی دوستوں کے خلاف رینجرز کی کارروائی کاالیکٹرانک میڈیاپربہت شورمچا، مگروہ خوف زدہ ہوئے نہ اپنی واپسی موخر کی۔ کراچی ائرپورٹ پران کا خطاب بڑامتوازن تھا، مگرپھربھی یہ کہہ گئے کہ کوئی ان کو پاکستان سے باہرنہیں رکھ سکتا۔ وہ یہیں جیئیں گئے اور یہیں مرکے گڑھی خدابخش میں دفن ہوں گے۔آصف زرداری کی واپسی پرکراچی رینجرزنے کی پھرتیوں پرمولابخش چانڈیو نے ’پگڑی سنبھال جٹا‘ کہہ کے بین السطورجوبات کہی ہے، وہ بھی معنی خیزہے۔

آصف علی زرداری ایک ایسے وقت میں واپس آئے ہیں، جب وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس کے دباؤ سے کافی حدتک باہرنکل آئے ہیںاوراپوزیشن کے ’عمرانی کیمپ‘ پرمردنی چھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ حکومت کے خلاف عمران خان کی احتجاجی تحریک کی ناکامی کی ایک وجہ خودآصف زرداری ہیں کہ انھوں نے عین اس مرحلہ میںجب پانامہ لیکس پراپوزیشن کی احتجاجی تحریک فیصلہ کن مرحلہ میں تھی، پیپلزپارٹی کی باگیں کھینچ لیں اوراپوزیشن کے اندررہتے ہوئے حکومت کواس طرح ریسکیوکیاکہ اپوزیشن دیکھتی رہ گئی۔

’عمرانی کیمپ‘ کے مقابلہ میں ’ زرداری کیمپ‘ نے نوازشریف حکومت سے جو چار مطالبات کررکھے ہیں، اگرچہ حکومت نے ابھی تک اس پرکسی مثبت ردعمل کا اظہار نہیںکیا، لیکن کہاجارہاہے کہ اب ان میں سے کم ازکم ایک دلچسپ مطالبہ یعنی وزیرخارجہ کی تعیناتی پرحکومت، پیپلز پارٹی سے بات چیت کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ یہ مطالبہ پورا ہونے پراپوزیشن کوکیافائدہ پہنچے گااورحکومت کوکیانقصان ہوگا،یہ سمجھنا فی الحال مشکل ہے۔ بعینہ یہ امربھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کوسندھ سے باہرپنجاب اور آزاد کشمیرمیں متحرک کرنے کی جوکوشش کی، وہ ظاہراً ناکام ہوچکی ہے۔

آزادکشمیرکے الیکشن میں پیپلزپارٹی کوبدترین شکست کاسامناکرناپڑا۔ پنجاب لوکل باڈیزالیکشن میں بھی پیپلزپارٹی چت ہوگئی ہے۔ حتیٰ کہ ضلع رحیم یارخان میں اس کوجومحدودکامیابی حاصل ہوئی، وہ اس کوبھی نہیں سنبھال سکی اور چیئرمین ضلع کونسل کے الیکشن میں ن لیگ کے مقابلہ میں ڈھیرہوگئی۔ پی پی سے کہیں بہترتوق لیگ رہی، جو ن لیگ کی تما م ترکوششوں کے باوجود نہ صرف چیئرمین ضلع کونسل اٹک کی نشست لے اڑی، بلکہ تلہ گنگ اور جلالپور جٹاں گجرات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ضلع کونسل گجرات کے چیئرمین کاالیکشن جس معمولی مارجن سے وہ ہاری ہے، وہ بھی ن لیگ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آصف زرداری نے واپسی پریہ عزم بھی ظاہرکیاہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کو متحدکریں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں سے رابطوں کے لیے رابطہ کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔کراچی میں آصف علی زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ہونے والی ملاقات کوبھی اس سلسلہ کی کڑی قراردیاجارہاہے، لیکن زرداری کیمپ کے حکومت کے چارمطالبات کی طرح یہ بات بھی عجیب سی لگتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پچھلے تین سال میں جب بھی نوازشریف حکومت کواپوزیشن کی طرف سے کسی خطرہ کا سامناہوا، آصف زرداری نے حکومت کوریسکیوکیا۔

عمران خان، طاہرالقادری اورچوہدری برادران کی دھرنا تحریک میں حکومت کاجانبرہونا مشکل نظرآرہاتھا، لیکن آصف زرداری اس طرح کندھے سے کندھا ملا کرحکومت کے ساتھ کھڑے ہوئے کہ دھرناتحریک ٹھنڈی پڑگئی۔ اس کے بعد حکومت کے خلاف پانامہ لیکس کاہنگامہ اٹھا۔اس پرپیپلزپارٹی کے اعتزازاحسن نے ابتدائی طورپرحکومت کوضرورٹف ٹائم دیا، مگر پھر معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ کاکہنا تھا کہ نوازشریف حکومت کے خلاف کسی احتجاجی تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے فیصلہ کن مرحلہ میں پیپلزپارٹی نواز شریف حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کی پہلی وجہ تویہ نظر آتی ہے کہ پیپلزپارٹی کواندیشہ ہے کہ اگرنوازشریف کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، تواگلانشانہ آصف زرداری ہوں گے۔

دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاست کا مرکز و محور سندھ ہے، جہاں اگلے الیکشن میں اس کی انتخابی کامیابی کا دارومدارسندھ حکومت اورانتظامیہ پر ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کامسئلہ صرف رینجرزآپریشن ہے، جس کی تکلیف دہ زدگاہے گاہے آصف زرداری کے دوستوں پربھی پڑجاتی ہے۔قرائن بتاتے ہیں کہ اس مسئلہ پر وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی کی رائے جوبھی ہو،وزیراعظم نواز شریف کی ہمدردیاں آصف زرداری کے ساتھ ہیں۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اورنوازشریف کے دست راست اسحاق ڈارمیں جوگوناہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہ بھی محتاج بیاں نہیں۔ لہٰذا، جب آصف زرداری کہتے ہیں کہ وہ ’جمہوریت‘ کو گرنے نہیںدیں گے تواس مطلب عملی طور پر ’حکومت‘ ہوتاہے، کیونکہ حکومت میں ان کاسٹیک نواز شریف سے کسی طورکم نہیں۔اندازہ یہ ہے کہ آصف زرداری کی نظریں اگلے الیکشن پرہیں اوران کی حکمت عملی یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں ایک طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا تسلسل قائم رہے اوردوسری طرف پنجاب میں ن لیگ کو کمزورکرنے کے لیے اس کی مخالف قوتوں کے ساتھ اتحادکیاجائے،جن میںظاہرہے کہ چوہدری برادران کا گروپ ہی سب سے نمایاں ہے۔

آخری بات یہ کہ آصف علی زرداری نے یہ جوکہاکہ اب وہ پنجاب میں ڈیرہ لگائیں گے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ وہ اس طرح کی باتیںکہتے رہتے ہیں۔ وسطی پنجاب کو منظوروٹو کی جگہ قمرزمان کائرہ اورندیم افضل چن کی نئی قیادت مہیا ضرورکردی گئی ہے ، مگررحیم یارخان چیئرمین ضلع کونسل کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے صدرمخدوم احمد محمود کے گروپ کی ناکامی پنجاب پیپلزپارٹی کے لیے معمولی صدمہ نہیں۔ یہ ن لیگ کی طرف سے پیپلزپارٹی کو پیغام ہے کہ پنجاب میں اب اس کوپاوں جمانے نہیں دیے جائیں گے۔

اس پس منظر میں نظر بظاہریہی آتاہے کہ آصف زرداری نے حکومت کے خلاف گرینڈالائنس کا مقصداگلے الیکشن سے پہلے پہلے پنجاب میں اپنے لیے کوئی گنجایش پیداکرناہے؛ مگر پنجاب میں آصف زرداری کی ’مفاہمت کی سیاست‘ کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی سیاست زوال کا شکار ہے، جس کی بحالی کا فی الحال کوئی امکان نظرنہیں آتا، شاعرنے کہاتھا،

دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے!