زندگی بچانے والا سپاہی…امیر حمزہ
قرآن بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک پالیسی عطا فرمائی، یہ پالیسی انسانیت کے تحفظ کی پالیسی ہے۔ فرمایا! جس نے ایک انسانی جان کو قتل کیا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر دیا اور جس کسی نے ایک انسانی جان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ (المائدہ:32) جی ہاں! اللہ تعالیٰ یہودیوں کو انسان دوست پالیسی دے رہے ہیں۔ یہود کو تورات اور صحائف دیئے گئے تو ان میں موجود مذکورہ پالیسی مسیحی لوگوں کی بھی ہے کیونکہ تورات اور صحائف پر مسیحی لوگ بھی ایمان رکھتے ہیں اور قانون یہیں سے لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پالیسی کا قرآن میں ذکر فرما دیا تو اہل اسلام کے لئے بھی یہی پالیسی ہے یعنی تینوں الہامی مذاہب کو ماننے والوں کے لئے ایک ہی پالیسی ہے اور وہ انسانیت کے تحفظ کی پالیسی ہے۔
رائیونڈ کا نام جب ذہن میں آتا ہے تو فوراً تبلیغی جماعت کا تصور اور نقش دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہاں جو سالانہ اجتماع ہوتا ہے اس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ سالانہ اجتماع کے علاوہ سال بھر چھوٹے چھوٹے اجتماع بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگ انتہائی پرامن اور اخلاق والے لوگ ہوتے ہیں۔ لوگوں کو نیکی اور حسن سلوک کی دعوت دیتے ہیں۔ پانچ وقت کا نمازی بناتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک دہشت گرد ایسے لوگوں کو کیوں قتل کرنا چاہتا ہے۔ کیوں ان کی جان کے درپے ہوتا ہے۔ کیوں ان کو شہید کرنا چاہتا ہے؟ چند دن قبل یہاں حفاظت کے لئے پولیس کی چیک پوسٹ پر ایک دہشت گرد آیا، اس کا مقصد پوسٹ سے ذرا آگے بڑھ کر نیک اور پرامن لوگوں میں خودکش جیکٹ پھاڑنا تھا۔ یہ آگے بڑھ جاتا تو ہزاروں کے اجتماع میں سینکڑوں لوگ شہید ہو جاتے۔ اس دہشت گرد کو آگے بڑھنے سے جس نے روکا اس کا نام تنویر حسین ہے۔ تنویر حسین کے دادا دادی، ماں باپ، اہلیہ اور خاندان کے دیگر لوگوں کا اصرار تھا کہ میں ان کے گھر جائوں۔ میرے لئے یہ اعزاز تھا کہ جس تنویر نے سینکڑوں جانوں کو بچایا میں ان کے گھر میں حاضری دے کر ملک و ملت کے محسن کے کردار کو اجاگر کروں۔
آج سے ٹھیک 9سال قبل 2009ء میں جب خارجی اور تکفیری سوچ اور فکر سے لوگ آگاہ نہ تھے تب لاہور میں پولیس کے مناواں ٹریننگ سنٹر میں دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ مجھے تنویر حسین کے والد حسن محمد بتلا رہے تھے کہ میرا بیٹا تنویر بھی وہاں ٹریننگ لے رہا تھا۔ میں خود پولیس کے محکمہ سے ریٹائرڈ کانسٹیبل ہوں، میں نے بیٹے کو بھی پولیس میں بھرتی کروا دیا۔ جب حملہ ہوا تو میرا بیٹا تنویر دوسرے ہم کلاس ساتھیوں کی طرح خالی ہاتھ تھا۔ اس نے جرأت سے کام لیا اور سب سے پہلے دہشت گردوں کے گھیرے سے نکلا اور افسران کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس وقت کے آئی جی پنجاب نے اس دلیری پر تنویر کو دو ہزار روپے انعام دیا۔ اس وقت میرے خیال میں آئی جی پنجاب چوہدری شوکت جاوید تھے۔ چوہدری صاحب کا ایک بیٹا جب ایکسیڈنٹ میں حادثاتی موت کا شکار ہو کر شہید ہوا تو چوہدری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعزیت کی۔ معاشرے سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے میں نے سیرت پر کتاب ”رویے میرے حضورؐ کے‘‘ لکھی۔ چوہدری صاحب نے یہ کتاب افسروں میں بانٹی اور نظریاتی طور پر خود بھی خوارج کی تاریخ کا مطالعہ کر کے پولیس کو نظریاتی میدان میں مضبوط کیا۔ میرے کالموں کو پسند فرماتے ہیں۔ ان کا سلام مجھے پہنچتا رہتا ہے۔ ایک علمی شخصیت ہیں۔ مناواں میں ٹریننگ انچارج محمد انور تھے، وہ شہید ہو گئے۔ مجھے یہ اعزاز ملا کہ ان کے والد گرامی کے کہنے پر محمد انور شہید کا جنازہ میں نے پڑھایا۔ لوگ گومگو میں تھے کہ شہید کون ہے؟ بلکہ پولیس والوں کے بارے میں شک تھا اور دہشت گردوں کے بارے میں یہ سوچ تھی کہ وہ تو مجاہد تھے۔ الحمدللہ! میں نے جنازے سے قبل صورتحال کو واضح کیا، تب لوگوں کو پتہ چلا کہ خوارج کیا ہوتے ہیں۔
اسی مناواں اسٹیشن سے بچنے والا تنویر حسین چھ ماہ تک پروفیسر حافظ محمد سعید کے گھر کے باہر اس وقت ڈیوٹی دیتا رہا جب حافظ صاحب گھر میں نظربند تھے۔ یہاں رہنے کے دوران وہ ہماری کتابیں پڑھتا رہا۔ خطبات جمعہ سنتا رہا۔ جب وہاں جاتے ملاقات بھی ہو جاتی۔ یوں وہ نظریاتی اعتبار سے دہشت گردی کے خلاف جان دینے کو ایک بہت بڑا اعزاز سمجھنے لگا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت افضل شہادت ہے۔ جی ہاں! اب پولیس ناکے پر اسے اپنا عمل پیش کرنا تھا۔ اس نے دہشت گرد کو پہچان لیا۔ چنانچہ اسے روکا۔ آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اس کے افسر اے ایس پی رائیونڈ سٹی شیخ زبیر بھی یہاں موجود تھے۔ تنویر نے محسوس کیا کہ اللہ کے ہاں شہادت کا ٹائم آ گیا ہے کیونکہ وہ جسے روک رہا ہے وہ پھٹنے کو تیار ہے۔ تنویر نے ایک آدھ لمحے میں کمال کا کردار ادا کیا۔ اس نے اپنے افسر کو جو پاس کھڑے تھے، سائیڈ پر دھکیلا وہ ذرا فاصلے پر ہوئے ہی تھے کہ دہشت گرد کو قابو کرنے کی کشاکش میں جیکٹ پھٹی اور تنویر حسین شہید ہو گئے۔ شیخ زبیر صاحب زخمی ہو گئے۔ شیخ زبیرصاحب شہید کے پیچھے تھے۔ شہید کی ٹانگوں کے درمیان سے ٹکڑے شیخ صاحب کو لگے چنانچہ ان کا مثانہ اور اس سے اوپر کا حصہ شدید زخمی ہوا۔ شیخ صاحب کی جان بچ گئی۔ مثانہ پلاسٹک کا ڈال دیا گیا ہے اور تبلیغی جماعت کے سینکڑوں لوگ کہ جن کی جانیں تنویر حسین نے بچائیں، ذرا تصور کیجئے قرآن اور بائبل میں دی گئی پالیسی کے مطابق اللہ کے اس جانباز نے کتنی انسانیتوں کو بچایا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ اس کا اجر جب رب کریم نے فردوس میں اپنے بندے کو دیا ہو گا تو مولا کریم کی چاہت سے سبحان اللہ کیا منظر ہو گا۔
وہ اپنی ہمشیرہ کو خواب میں ملا، کہتا ہے، میں تو بہت خوش ہوں۔ میرے لئے فکر مند نہ ہوں۔ میں راضی خوشی جی رہا ہوں… جی ہاں! جنت میں ان شاء اللہ کہ جسے مولا کریم نے ایسے ہی لوگوں کے لئے تیار فرمایا ہے۔ وہ پانچ وقت کا نمازی تھا، ہمارے بھائی مولانا سیف اللہ قصوری نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ وہ کم گو تھا، فضول بات کرنے کاچلن اس کے قریب بھی نہ تھا۔ ہنستا نہ تھا بس مسکراتا تھا اور مسکراتا ہی اپنے رب کریم کے پاس چلا گیا۔ دادا دادی بھی راضی تھے، ماں باپ بھی شہادت پر خوش تھے۔ سوا سال کا بیٹا حاذق میری جھولی میں تھا۔ شہید کا بہنوئی آصف میرا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ میں نے کہا آصف صاحب، شکریہ آپ کا جنہوں نے میرے یاقوت اور موتیوں کی تسبیح میں ایک اور دانے کا اضافہ کر دیا۔ اس تسبیح میں پاک فوج کے جوان ہیں، حسنین اور ارسلان ہیں اور اب تنویر حسین بھی اس تسبیح کا حصہ ہے۔ آخر پر عرض کروں گا کہ پولیس میں شوکت جاوید، الطاف قمر اور ذوالفقار چیمہ جیسے دلیر اور دیانت دار افسر ہیں تو تنویر جیسے دلیر اور دیانت دار سپاہی بھی بہت ہیں۔ دنیا بھی اچھے کردار کے لوگوں کی وجہ سے آباد ہے تو ادارے بھی اچھے اہلکاروں اور افسروں کی وجہ سے نیک نام بنتے ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو بدنامی کا باعث بنتے ہیں ان کی تربیت کر کے نیک نامی کا باعث بنایا جائے۔ تنویر حسین کے کردار کا یہی پیغام ہے اور میرا بس اتنا سا ہی کام ہے کہ نیک کردار کو قوم کے سامنے پیش کر دوں۔ یاد رکھئے! جو اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں یا سلوک برا کرتے ہیں، انسانی احترام میں اس کا اللہ کے ہاں کوئی نام نہیں ہے۔