منتخب کردہ کالم

زندگی رواں رہتی ہے!…حسنین جمال

زندگی رواں رہتی ہے!…حسنین جمال

تم نے کہا تھا کہ ہم دونوں ہمیشہ ساتھ رہیں گے، یہاں تک کہ ہمارے بالوں میں چاندی اتر جائے اور پھر ہم کسی ایک دن اکٹھے ہی مر بھی جائیں گے۔ تم میرے بغیر کیسے مر سکتے ہو؟ میں اور ہمارا آنے والا معصوم بچہ کہاں جائیں؟ ہم زندہ ہی کیسے رہ سکتے ہیں جب تم جانے میں پہل کر چکے ہو؟
تم کس طرح مجھے اپنی دھڑکنیں سناتے تھے اور بتاتے تھے کہ یہ میرا نام لے رہی ہیں۔ کیا باقی لوگ بھی ہماری طرح محبت کرتے ہوں گے؟ کیا ان کے جذبات بھی ہماری طرح لافانی ہوتے ہوں گے؟ کیا واقعی وہ بھی ہماری طرح ہی ہیں؟ تم یہ سب بھری دنیا چھوڑ کے آخر کس طرح مجھ سے پہلے چلے گئے؟ میں ایسے جینا نہیں چاہتی! میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں، تم جہاں بھی ہو بس مجھے اپنے پاس کھینچ لو۔ تمہیں معلوم ہے، میں تمہارے بارے میں اپنے جذبات نہ ہی لفظوں میں بیان کر سکتی ہوں اور نہ ہی تمہارے مرنے کے بعد اب میرے غم کا کوئی حساب رہ گیا ہے۔ میں کہاں جا کے سر ماروں؟ اور اس بچے کو کیسے سمجھاؤں جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا لیکن وہ بھی تمہیں ہر وقت یاد کرتا ہے۔
کچھ بھی کرو، بس تم یہ خط پڑھو اور میرے خواب میں آ کے مجھے اس مشکل سے نکلنے کی راہ دکھاؤ۔ اسی امید پہ یہ خط میں نے اتنی تفصیل سے لکھا ہے اور اسے تمہارے کفن میں ڈال رہی ہوں۔ تمہیں جواب دینا ہو گا، غور سے اسے پڑھو اور خواب میں آ کر مجھے جواب دو، مجھ سے بات کرو۔ مجھے بتاؤ جب یہ بچہ اس دنیا میں آئے گا تو یہ کسے باپ کہے گا؟ کوئی ایک بندہ ہے اس دنیا میں جو میرے دکھ کا ایک فیصد بھی اندازہ کر سکے؟ اس بے تحاشا بڑے اور پھیلے ہوئے نیلے آسمان کے نیچے جو مصیبت مجھ پہ ٹوٹی ہے، ایسا کبھی کسی کے ساتھ نہیں ہوا ہو گا!
تم اب کسی اور ہی دنیا میں ہو، تم تو اتنے دکھی ہو ہی نہیں سکتے جتنی میں ہوں، نہ تمہیں میرے غم کا وہاں کوئی اندازہ ہو گا۔ تمہیں پتہ ہے یہ جو میں ایویں بیٹھے ہوئے لکھ رہی ہوں یہ لفظ بھی اس ان حد تکلیف کو بیان نہیں کر سکتے۔ تم ہر قیمت پہ اس خط کو دیکھو گے اور میرے خواب میں آ کے مجھے اس کا جواب دو گے، میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں، محسوس کرنا چاہتی ہوں، کسی بھی بہانے! میں بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں، اتنی کہ ہزاروں کاغذ سیاہ ہو جائیں لیکن بس، میں اب رکتی ہوں۔ تمہیں میرے خواب میں آنا ہو گا اور میری بات ماننی ہو گی!
اس خط کے ساتھ ایک چپل بھی رکھی ہے، وہ میں نے تمہارے لیے اپنے بالوں سے بنائی تھی۔ کاش اسے پہننے سے پہلے تم نہ جاتے!
یہ خط وان کے باپ کے لیے ہے‘‘
خط لکھنے والی کون بدنصیب تھی، یہ کبھی معلوم نہیں ہو گا۔ جس کو لکھا گیا وہ شخص آج سے پانچ سو برس پہلے کوریا میں رہتا تھا۔ وہ ایک پرانے قبیلے کا باسی تھا۔ اس کی ایک خوبصورت سی داڑھی تھی، وہ لمبا اور وجیہہ انسان تھا۔ اس کا نام ینگ ٹی تھا۔ جب وہ تئیس برس کی عمر میں مرا تو رسومات کے مطابق اس کی لاش کو ممی میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہ کیوں مرا، یہ وجہ بھی آرکیالوجسٹ معلوم نہیں کر سکے۔ بس اس کی ممی دریافت ہوئی، ساتھ ہی اس کے سینے پہ رکھا ہوا یہ خط ملا، چپلیں ملیں اور سن 2000ء کے بعد سے یہ لو لیٹر امر ہو گیا۔
یہ خط پرانی کورین زبان میں تھا۔ ماہرین نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور دنیا کے سامنے لے آئے۔ اس خط کو بنیاد بنا کر بہت سے افسانے لکھے گئے، تھیٹر ڈرامے ہوئے، فلمیں بنیں اور وہ سب بھی تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہو گیا۔ یہاں فراز کی ایک نظم ہو جائے، پھر بات کرتے ہیں:
بھلے دنوں کی بات ہے/ بھلی سی ایک شکل تھی/ نہ یہ کہ حسن تام ہو/ نہ دیکھنے میں عام سی/ نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے/ مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے/ کوئی بھی رت ہو اس کی چھب/ فضا کا رنگ روپ تھی/ وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی/ وہ سردیوں کی دھوپ تھی/ نہ مدتوں جدا رہے (چند لائنیں اڑاتے ہیں) سنا ہے ایک عمر ہے/ معاملات دل کی بھی/ وصال جاں فزا تو کیا/ فراق جاں گسل کی بھی/ سو ایک روز کیا ہوا/ وفا پہ بحث چھڑ گئی/ میں عشق کو امر کہوں/ وہ میری ضد سے چڑ گئی/ میں عشق کا اسیر تھا/ وہ عشق کو قفس کہے/ کہ عمر بھر کے ساتھ کو/ وہ بد تر از ہوس کہے/ شجر حجر نہیں کہ ہم/ ہمیشہ پا بہ گل رہیں/ نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں/ گلے میں مستقل رہیں/ محبتوں کی وسعتیں/ ہمارے دست و پا میں ہیں/ بس ایک در سے نسبتیں/ سگان باوفا میں ہیں/ میں کوئی پینٹنگ نہیں/ کہ اک فریم میں رہوں/ وہی جو من کا میت ہو/ اسی کے پریم میں رہوں/ تمہاری سوچ جو بھی ہو/ میں اس مزاج کی نہیں/ مجھے وفا سے بیر ہے/ یہ بات آج کی نہیں/ نہ اس کو مجھ پہ مان تھا/ نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی/ جو عہد ہی کوئی نہ ہو/ تو کیا غم شکستگی/ سو اپنا اپنا راستہ/ ہنسی خوشی بدل دیا/ وہ اپنی راہ چل پڑی/ میں اپنی راہ چل دیا/ بھلی سی ایک شکل تھ/ بھلی سی اس کی دوستی/ اب اس کی یاد رات دن / نہیں، مگر کبھی کبھی۔
اب سین یہ ہے کہ ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک وہ لڑکی تھی کہ جس نے اپنے محبوب (موسٹ لائکلی شوہر) کے مرنے پہ اس کی لاش کے ساتھ اپنے بالوں کی بنی چپلیں بھی نذرانہ کر دیں، ایک یہ ہیں فراز کی ہیروئین، یہ کہتی تھیں کہ میں کوئی تصویر تھوڑی ہوں جو ایک ہی فریم میں جڑ جاؤں اور ساری عمر ایک ہی دیوار پہ ٹنگے ٹنگے گزار دوں۔ کورین لڑکی وہ روایتی لڑکی ہے جو رامائن کی سیتا سے لے کے آج تک ویسی ہی ستی ساوتری چلی آ رہی ہے۔ فراز والی لڑکی دور جدید کی ہے جو قسمت سے تھوڑا پڑھ لکھ گئی ہے۔ آپ یقیناً کورین لڑکی کے ساتھ ہوں گے؟ میں نہیں ہوں۔
وہ خط لکھنے والی لڑکی مشکل سے بیس بائیس سال کی تھی۔ اتنی سی زندگی میں اس نے دیکھا ہی کیا ہو گا؟ ٹھیک ہے پیار محبت اپنی جگہ لیکن کیا پانچ چھ سال بعد اسے دوبارہ کسی ساتھی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہو گی؟ کیا وہ ساری عمر وہی جذبہ اور وہی بچہ پالتی رہی ہو گی؟ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو ستی کی رسم اچھی نہیں جس میں بیویاں شوہر کے ساتھ ہی جل کر مر جاتی تھیں اور پوری زندگی کے روگ سے بچ جاتی تھیں؟ کیا عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بالوں کے جوتے بنا کے مرحوم (یا زندہ) شوہر سے وفا کا ثبوت دے؟ قصہ یہ ہے کہ ہم عورت کو ”وفا کی دیوی‘‘ بنا کے اس کا بت معاشرے کے مندر میں گاڑ چکے ہیں۔ اس کی منگنی ٹوٹ جائے تو وہ قصوروار، اس کی شادی نہ چلے تو وہ بدچلن، اس کا شوہر مر جائے تو وہ منحوس، یعنی ہر ایک صورت میں وہی سزاوار ٹھہرتی ہے۔ پھر بعد میں بھی اس سے امید رکھی جاتی ہے کہ باقی ساری زندگی وہ اسی ایک نام پہ گزار دے گی۔
احمد فراز والے کیس میں لڑکی سیانی تھی، وہ جانتی تھی کہ شادی کرنے کا مطلب ایک پلنگ کے پائے سے بندھ جانا ہو گا۔ اس نے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔ اس نے اگر کبھی شادی کی بھی ہو گی تو اپنی ٹرمز پہ کی ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس نے شادی کے بعد نوکری کی ہو، اپنا کاروبار سیٹ کیا ہو، کوئی بھی چھوٹا موٹا کام کیا ہو۔ یہ طے ہے کہ وہ بے چاری ”عشق کو امر‘‘ بنانے کے چکروں میں ان گنت زچگیوں سے نہیں گزری ہو گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ اس کی زندگی کا انجام بخیر ہوا ہو گا۔
اس کمپیریزن کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھائی یہ پیار محبت کبھی آخری نہیں ہو سکتے۔ بندہ بشر ہے، ایک بار کچھ غلط ہو گیا تو اس سے جان چھڑا لیجیے، آگے دیکھیے، دنیا بہت وسیع ہے اور چمکتے سورج کی دھوپ سب کے لیے ہے۔ جس محبوب کے لیے پلکیں، سر کے بال اور اپنا آپ بچھانا پڑے اس سے بہتر ہے کوئی اور آپشن دیکھی جائے۔ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی، زندگی رواں دواں رہتی ہے!