میڈیا میں اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث صرف دو الفاظ ہیں۔ ان میں سے ایک فیلڈ ہے اور دوسرا مارشل۔ انھیں ایک ساتھ پڑھا جائے تو ایک لفظ بنتا ہے فیلڈ مارشل۔ اقوام عالم کی تاریخ میں 6جرنیل فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کر چکے ہیں ان میں سے ایک پاکستانی جنرل ایوب خان بھی تھے۔
موجودہ بحث کا محور و مرکز آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔ اس بحث کا آغاز جنرل صاحب کو مدت ملازمت میں مبینہ توسیع دینے سے ہوا تھا۔ اس کا جواز جنرل راحیل شریف کی آپریشن ضربِ عضب میں کامیابیوں کو بتایا گیا۔ اس سال کے آغاز پر اس حوالے سے اتنا شور مچایا گیا کہ آئی ایس پی آر کے ذریعے فوجی سربراہ کو وضاحت کرنا پڑ گئی۔ جنرل راحیل نے 25جنوری کو دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع لینے پر یقین نہیں رکھتے اور مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کی اس وضاحت کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ بظاہر یہ معاملہ 25جنوری کو ختم ہو گیا لیکن جنہوں نے یہ شوشا چھوڑا تھا وہ کہاں رکنے والے تھے۔
ہلکی پھلکی موسیقی جاری رہی۔ آپریشن ضربِ عضب میں جنرل صاحب کی کامیابیوں پر تعریفوں کے پل باندھے جاتے اور ساتھ ہی راگ الاپ دیا جاتا کہ انھیں توسیع ملنی چاہیے۔ پراپیگنڈہ کرنے والے یہ خاص خیال رکھتے کہ عوام تک یہ تاثر جائے کہ جنرل صاحب خود بھی اس کے خواہش مند ہیں، بلکہ دراصل وہی ہیں جو چاہتے ہیں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کر کے انھوں نے ملک و قوم کی جو خدمت کی ہے اس کے صلے میں انھیں توسیع دے دی جائے۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ حکومت تو انھیں ایک سال کی توسیع دینا چاہتی ہے مگر وہ پورے تین سال کی توسیع لینا چاہتے ہیں۔ اس دوران ’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی‘ جیسے ہورڈنگ اور پوسٹر بھی لگوائے گئے۔ توسیع کے غبارے سے چونکہ ہوا نکلنا شروع ہو گئی تھی اس لیے کمان سے نیا تیر نکالا گیا۔
فیلڈ مارشل کی کہانی مارکیٹ میں آئی تو یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر اعظم اور جنرل راحیل شریف میں معاملات طے پا چکے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت نواز شریف کی منظوری کے بعد جنرل راحیل شریف یہ عہدہ سنبھال لیں گے۔ کبھی کہا گیا کہ فیلڈ مارشل پورے اختیارات کے ساتھ ہو گا، پھر یہ بتایا گیا کہ یہ عہدہ نمائشی ہو گا۔ پوچھا گیا یہ عہدہ دینے کا مقصد کیا ہے تو معلوم ہوا کہ جنرل راحیل شریف کی آپریشن ضربِ عضب میں خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں یہ پیش کش کی گئی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں کہاگیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے دوسری میٹنگ کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جنرل صاحب کو یہ پیش کش کی، اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان بھی موجود تھے۔ راوی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اس اچانک پیش کش پر کافی حیران ہوئے تھے۔
اس دعوے کی چونکہ کوئی وضاحت وغیرہ نہیں آئی اس لیے اسے سچ کے سوا کیا سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن فیلڈ مارشل کی گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ عین ممکن ہے حکومت کی خواہش ہو کہ جنرل راحیل شریف ایک مرتبہ پھر اس بات کا باضابطہ اعلان کریں کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع لے رہے ہیں نہ فیلڈ مارشل کا عہدہ قبول کر یں گے۔ جنرل صاحب کا خیال ہو گا کہ وہ چونکہ ایک بار دو ٹوک اعلان کر چکے ہیں اس لیے مزید کسی تبصرے یا اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیا میں کسی ایشو کو کیسے اور کب تک زندہ رکھنا ہے یہ کوئی (ن) لیگ سے سیکھے۔ ماننا پڑے گا اس فن میں ان کا کوئی مقابل نہیں، دور تک بلکہ بہت دور تک۔
نواز شریف کئی حوالوں سے ریکارڈ ساز وزیر اعظم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد اب تک 7 آرمی چیف بن چکے ہیں۔ ان میں سے 4 کا انتخاب انھوں نے کیا اور اگر 12اکتوبر 1999ء میں جنر ل ضیاء الدین بٹ کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے تو وہ چھٹی بار آرمی چیف کی تعیناتی کا اعزاز حاصل کریں گے۔ میاں صاحب نے 1991ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ کا انتخاب کر کے اس ریکارڈ ساز اننگز کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد 1993ء میں جنرل عبدالوحید کاکڑ، 1998ء میں جنرل پرویز مشرف اور 2013ء میں جنرل راحیل شریف کی تعیناتی میاں صاحب کے کریڈٹ پر ہے۔ میاں صاحب کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ ان کے کسی آرمی چیف سے مثالی تعلقات نہیں رہے۔ کسی نہ کسی ایشو پر اختلاف ضرور پیدا ہوا۔
جنرل آصف نواز سے زندگی نے وفا نہیں کی جب کہ جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جنرل پرویز مشرف نے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نواز شریف بظاہر دھیمے مزاج کے ہیں لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے۔ ان کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ بھولتے نہیں۔ وقت آنے پر حساب چکتا کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ جنرل راحیل شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آپریشن ضرب ِ عضب اور کچھ دبنگ قسم کے بیانات کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں۔ کنونشن سینٹر میں یوم آزادی کی گزشتہ سال کی تقریب ہو یا اس سال کی وہیں پر منعقدہونے والی تقریب، دونوں میں ہی سب سے زیادہ تالیاں جنرل صاحب کی آمد پر بجائی گئیں۔ان سے ہاتھ ملانے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ ان دونوں تقریبات میں وزیر اعظم نواز شریف بھی موجود تھے۔
ایک وزیر اعظم کے لیے یہ برداشت کرنا واقعی مشکل ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں اس کے آرمی چیف کو زیادہ پذیرائی ملے۔ یہ چونکہ ریٹنگز کا دور ہے اس لیے ٹی وی چینلزکے ساتھ ساتھ حکمران بھی ہر چیز سے زیادہ ریٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب کیا کیا جائے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹنگ وزیر اعظم سے زیادہ ہے۔ کبھی عمران خان کے حصے میں یہ ریٹنگ آئی تھی مگر اب سب سے زیادہ ریٹنگ والی صرف ایک ہی شخصیت ہے جس کا نام جنرل راحیل شریف ہے۔ رات دن ٹی وی چینلز پر ہم خیال اینکر حضرات میاں صاحب کی تعریفیں کرتے ہیں۔ توانائی اور ترقیاتی منصوبوں کے اشتہارات مسلسل چلتے ہیں اس کے باوجود ریٹنگ میں آرمی چیف ان سے اوپر ہیں۔ پتہ نہیں میاں صاحب سے یہ بات کیسے ہضم ہوتی ہو گی؟
میرے خیال میں سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے، مدت ملازمت میں توسیع جیسے شوشے نہ چھوڑے جائیں اور جنرل راحیل شریف کے بجائے نواز شریف کو فیلڈ مارشل بنا دیا جائے۔ فیلڈ مارشل بھی تاحیات۔ اس کے ساتھ ایک اور کام بھی کیا جائے، آرمی چیف کا عہدہ ختم کر دیا جائے۔ بری فوج کے سربراہ کو فورسز کمانڈر کی طرح کا کوئی نیا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس کا فایدہ یہ ہو گا کہ نواز شریف اپنی باقی ماندہ مدت اور پھر 2018ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد تاحیات پوری توجہ سے قوم کی خدمت کرتے رہیں گے اور آرمی چیف کا عہدہ دوبارہ کبھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ تاحیات فیلڈ مارشل وزیر اعظم نواز شریف کا دور ملک کو ترقی کی کن بلندیوں تک لے جائے گا۔ اس کا آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے۔