سافٹ بچے پیدا ہونا بند کیوں ہوئے ؟….حسنین جمال
ہمیں بچپن سے یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ کس چیز سے امپریس ہونا ہے۔ ہمیں جنگجوؤں کی زندگی کے حالات پڑھائے جاتے ہیں، یہ پہلا درجہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہماری سکول کی کتابوں کے ہیرو عام طور پہ سائنسدان ہوتے ہیں، کوئی مشہور کیمسٹ ہو گا، کوئی فزکس کا ماہر ہو گا، کسی نے الجبرا ایجاد کیا ہو گا، کوئی پینسلین کو پہلی مرتبہ مارکیٹ میں لایا ہو گا، کسی نے راکٹ بنایا کسی نے ایٹم بم بنایا اور پھر کسی نے چلا دیا۔ یعنی جنگجوؤں اور سائنسدانوں کے درمیان ہمارا سارا بچپن گھومتا ہے۔ تاریخ میں بھی ہم وہی کچھ پڑھتے ہیں جس کا تعلق براہ راست ہماری بہادری یا ہماری عظمتوں کے کھاتے بیان کرنے سے جڑتا ہے۔ مجھے نہیں یاد کبھی سکول یا کالج میں ایسی کتاب نظر آئی ہو جس میں بیجو باورہ کا ذکر ہو، جہاں میں نے جانا ہو کہ تان سین بھی ایک زندگی گزار کے گیا تھا، جہاں سے مجھے پتہ لگ سکا ہو کہ ماسٹر مدن موہن کون تھا، عالم آرا فلم اہم کیوں تھی، رفیع پیر کون تھے یا زین العابدین کی تصویروں میں اندھی خوفناک بھوک ناچتی کیوں دکھائی دیتی تھی؟
بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ رئیل لائف ہیرو کوئی ایسا آدمی بھی ہو سکتا ہے جو سائنسدان یا جنگی ماہر نہ ہو۔ جس نے ڈاکٹر یا انجینئر ہونے کی ڈگری بھی نہ لی ہو اور جو چلنے پھرنے میں اپنے جیسے ہی نظر آتا ہو، جس کے گرد کوئی مقدس ہالہ نہ ہو۔ تب ایسے لوگوں کی زندگی کے حالات پڑھنے کا شوق ہوا اور کوشش میں رہا کہ ان لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے ۔ یہاں پھر مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان میں پینٹرز کے بارے میں تو بہرحال تھوڑا بہت لکھا بھی گیا لیکن جو لوگ بے چارے مصوری کے علاوہ کسی اور فن سے جڑے تھے ان کے بارے میں کوئی خاص سنجیدہ کام بالکل ہی نہیں ہوا۔ نصرت فتح علی خان، میڈم نور جہاں، مہاراج کتھک، فقیر حسین ساگا، استاد امانت علی، مہدی حسن یہ سب اپنی فیلڈ کے چیمپئن تھے ۔ ان پہ کبھی آپ کو مارکیٹ میں کوئی معیاری کتاب نظر آئی؟ نظر آئی بھی ہو تو کیا آپ لینا پسند کریں گے ؟
پڑوسی ملک میں صورتحال تھوڑی بہتر ہے ۔ ادھر فنکاروں کے بارے میں لکھا بھی جاتا ہے اور اسے لوگ پڑھ بھی لیتے ہیں۔ طافو کے بارے میں کوئی کتاب مجھے آج تک نظر نہیں آئی لیکن ذاکر حسین پہ اب تک بہت کتابیں چھپ چکی ہیں۔ دونوں کا فن طبلہ نوازی ہے ، کوئی شک نہیں کہ ہر دو کا مقابلہ ہی کوئی نہیں لیکن بہرحال ایک نام ہمارے پاس ہے اور ایک نام ادھر ہے ، ادھر والے کے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے تو لوگ سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں ادھر لوگ لائیو بندے کو طبلہ بجاتے نہیں سنتے ، کتاب کدھر جائے گی؟
تو کیا ضروری ہے کہ بھائی یہ سب کچھ پڑھایا جائے ؟ مسئلہ اصل میں یہ ہوا ہے کہ سافٹ بچے پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں۔ جو بھی پیدا ہوتا ہے اسے اماں ابا کسی نہ کسی کمرشل فیلڈ میں کھپانا چاہتے ہیں اور وہ اپنی جگہ برحق ہیں۔ انہوں نے خود کورس کی کتابوں میں کبھی پھولوں، تصویروں، گانوں، مجسموں یا ڈانس کی بات نہیں سنی، وہ اپنے بچوں کو بھی ان خرافات سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ خود سے ایسی کسی سائیڈ پہ جانا چاہتا ہے تو اس کی فل ٹائم کلاس لی جاتی ہے ، اسے ہر ممکن طریقے سے منع کیا جاتا ہے کہ بیٹا کام وہ کرو جس میں کوئی مستقبل ہو، کماؤ گے نہیں تو کھانا کدھر سے کھاؤ گے ؟ پچھلے دس پندرہ برس میں تو اس قدر شدت سے ٹیکنیکل ماہر پیدا کیے گئے ہیں کہ اب ان کے لیے بھی نوکریاں ملنا اتنا ہی مشکل ہو گیا ہے جتنی مشکل کوئی ایم ایف اے (ایم اے فائن آرٹس) والا اٹھاتا ہو گا۔ اینٹ اٹھائیں اور نیچے سے آئی ٹی کا ماہر نکلے گا، بیٹے آپ کیا کر رہے ہیں؟ انکل بی آئی ٹی، ایم آئی ٹی… بیٹے آپ کیا کر رہے ہیں؟ انکل ایم بی اے ۔ کتنے ایم بی اے بنائیں گے اور کہاں کھپائیں گے ؟ کتنے پرسنٹ آئی ٹی والے بچے اپنی فیلڈ میں کامیاب بھی ہوتے ہیں‘ آج تک حساب لگایا ہے ؟
اس کا نقصان بہرحال یہ ہو رہا ہے کہ آرٹس کے ساتھ ایک یتیم پنا جوڑ دیا گیا ہے ۔ آپ کسی کو بتائیں کہ میں نے میوزک میں ڈگری لی ہے یا میں نے فلم میکنگ میں ماسٹرز کیا ہے تو وہ آپ کی شکل دیکھنے لگے گا کہ اچھا، پہلے تو گانا صرف گایا جاتا تھا اب اس میں ڈگری بھی لی جاتی ہے ؟ اور اس سوال میں طنز کی ساری مقدار اس بندے کے منہ پہ نظر آئے گی۔ اسی طرح فلم میکنگ والے بچوں کے متعلق بھی ایسے ہی تاثرات ہوتے ہیں۔ ڈانس شانس کی ڈگری یا ڈپلومہ لینا تو خیر اب بھی مراثیات والے کھاتے میں فٹ ہوتا ہے ۔
جب یہ سب ہوتا ہے تو پھر وہ یوتھ وجود میں آتی ہے جس سے آج کل ہر سیاسی ذہن کو شکایت ہے ۔ آپ تیس پینتیس سال ایک قوم کو ہر قسم کے آرٹ سے دور رکھیں گے ، آرٹسٹ اور فنکار لوگ مراثی کہلائیں گے ، انہیں ننگے لفظوں سے یاد کیا جائے گا تو یہ نتیجہ برابر آنا ہے ، سو فیصد آنا ہے ۔ آرٹس کے مضامین کو انگریزی میں ہیومینیٹیز بھی کہتے ہیں اور کیا ہی خوب کہتے ہیں۔ ہیومینیٹیز کا حساب اصل میں فرض کفایہ والا ہے۔ دس بچوں میں سے ایک بھی اگر فنون لطیفہ کی سائیڈ پہ جاتا ہے تو وہ اپنی سوچ کی سافٹنس سے باقی نو کو بھی کہیں نہ کہیں متاثر کرے گا۔ جہاں سو میں سے بھی ایک بچہ آرٹس یا کرافٹس کی طرف نہ جا رہا ہو ادھر پھر کیا یہی سب نہیں ہونا؟ آپ ذرا کسی پولیٹیکل پارٹی کے بارے میں سخت بات لکھیں آپ کو ایسی سائنٹیفک مغلظات سنائی جائیں گی کہ چنگا بھلا صابر درویش بھی بلبلا اٹھے گا۔
دیکھیے جو نوجوان دل و جان سے اس بات پہ ایمان رکھتا ہو کہ ہر گانے والا مراثی ہے ، ہر فنکار بھانڈ ہے ، ہر مصور چپڑقنات ہے ، ہر ڈانسر ٹکیائی ہے ، ہر فلم پروڈیوسر ”دو نمبر‘‘آدمی ہے ، اور تمام شاعر ادیب لوگ معاشرے کا سب سے بے کار اور ”ویہلا‘‘ طبقہ ہیں‘ وہ کیا کبھی کسی کی عزت کرنا سیکھ پائے گا؟ مرزا جعفر حسین نے اپنی کتاب ‘قدیم لکھنؤکی آخری بہار‘ میں فخریہ بتایا ہے کہ ان کے زمانے میں لوگ ڈیرے دار طوائفوں کے یہاں بچوں کو بھیجتے تھے تاکہ تربیت اچھی ہو سکے۔ کیا یہ بات آپ آج کل کی یوتھ ہائے ڈنڈا بردار کو سمجھا سکتے ہیں کہ وہ لوگ اپنے بچوں کو مذکورہ طبقے کے پاس ادب آداب سکھانے کیوں بھیجتے تھے ؟ اس لیے نہیں سمجھا سکتے کہ طوائف تو ایک طرف، پوری سوسائٹی کی اقدار‘ سارا کانسیپٹ ہی بدل چکا ہے، لیکن اگر وہی بچہ خود تاریخ میں دلچسپی رکھتا ہو، خود کتابیں پڑھ سکتا ہو تو وہ باآسانی جان لے گا کہ اس زمانے کا مذکورہ طبقہ اس قدر ادب آداب اور تہذیبی رچاؤ والا ہوتا تھا کہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا اور بڑے بڑے مشاہیر کے اس سے رابطے کلچرڈ ہونے کی نشانی سمجھے جاتے تھے اور اس سب میں جنسی معاملات کا دور دور تک کہیں ذکر نہیں تھا۔
اس کا حل بڑا سادہ سا ہے ۔ ہر ڈگری لیول پہ کوئی ایک ایسا اختیاری مضمون چننا لازمی کر دیا جائے جس کا تعلق خالصتاً آرٹس کی کسی فارم سے ہو، پچاس سو نمبر ہوں لیکن وہ نوکری حاصل کرنے میں مددگار ہرگز نہ ہوتا ہو۔ بچہ ڈاکٹری پڑھے ، انجینئر بنے ، بزنس پڑھے ، آئی ٹی پڑھے ، اکاؤنٹس میں جائے ، جو مرضی کرے ، بس ہر ڈگری کے ساتھ پینٹنگ، ایکٹنگ، میوزک، فوٹوگرافی، تھیٹر، ڈانس، ادب، مجسمہ سازی یا کسی ایک ایسے مضمون کی پخ لازمی لگا دی جائے جو اس کے اندر تھوڑا سا رچاؤ پیدا کر سکے ، وہ دیکھ سکے کہ دنیا میں بے تحاشا لڑنے بھڑنے یا ہر وقت اندھا دھند ترقی کرتے رہنے کے علاوہ بھی انسان نے کبھی کچھ کیا تھا، کسی غار میں تصویریں بنائی تھیں، کہیں جنگلوں میں رقص کیا تھا، کوئی گرامو فون پہ گانے گاتا تھا اور آخر میں اپنا نام لیتا تھا، کبھی خاموش فلمیں بنتی تھیں، پارسی تھیٹر کیسے سنیما میں کنورٹ ہوتا تھا، پینٹنگ میں کیسی کیسی تحریکوں نے سر اٹھایا تھا اور انسان بہرحال اس تیز ترین صدی میں ہونے والی ایجادات سے پہلے بھی جی ہی رہا تھا۔