ساڈی زِمی بہہ گئی مائیاں… (1)…وقارخان
ہماری زمین کے مائیوں بیٹھنے کے دن آ گئے ہیں۔ آج سونے جیسی گندم کا پیلا لباس پہنے لجاتی ہے، کل صاف و شفاف انتخابات کے زرد جوڑے میں ملبوس مائیوں بیٹھ کے شرمائے گی۔ موسم کی مناسبت سے بیساکھ کا رومانس غالب ہے، سو ہم دماغ کی باتیں کالم کے اگلے حصے تک مؤخر کرکے آج فقط دل کی باتیں کریں گے۔
بیساکھ کی اس چمکیلی دھوپ میں، جب دور نیلگوں آسمان زمین پر جھک کر تا حد نظر پھیلی گندم کی سنہری بالیوں سے گلے ملتا ہے اور پراسرار خاموشی میں فقط درانتیوں کے چلنے اور گاہے کوئل اور فاختہ کے پُر سوز گیت دلوں کے تار چھیڑتے ہیں… کیا آپ نے کبھی ایسے رومانوی ماحول میں درانتی سے گندم کی فصل کاٹتے ہوئے، شارٹ بریک لے کر، کھیت کے کنارے گھنے پیڑ کی چھائوں میں رکھے کورے گھڑے سے پانی پیا ہے‘ اور دوپہر کو اسی گھنی چھائوں میں زمین پر بیٹھ کر گھر کے مکھن سے چپڑی تندور کی روٹی اور لسی کا لنچ کرکے، کچی مٹی پر لیٹ کر ذرا دیر کو سستایا ہے؟… اب تو خیر ہمارا بیساکھ خاصا پیچھے رہ گیا ہے‘ اور ہم بہت دور نکل آئے ہیں، ورنہ ماضی کے اپنے تعلیمی دور میں ہم نے یہ سارے کام کیے ہیں۔
آج بیساکھ کی اس شکر دوپہر دور ایک کھیت میں جدید ہارویسٹر گندم کی فصل کاٹ رہا ہے‘ اور ساتھ ہی بھوسے کو الگ کرکے گندم کے دانے اپنے وسیع پیٹ میں محفوظ بھی کر رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس دیوہیکل مشین نے ایک وسیع قطعہ اراضی میں لہلہاتی سنہری فصل کا کریاکرم کر دیا ہے۔ سہ پہر تک ایک گھر کے ”بھڑولے‘‘ گندم کے دانوں سے بھر چکے ہوں گے اور اگر چاہیں تو اس گھر کے مکین آج شام کی روٹی اسی گندم کے آٹے سے کھا سکتے ہیں۔ فصل کاٹ کر سنبھالنے کا یہ جدید اسلوب ان لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہے، ماضی میں جن کا پسینہ ڈیڑھ دو ماہ تک کھیتوں اور کھلیانوں میں کبھی خشک نہیں ہوتا تھا۔ تب کہیں جا کر وہ گندم کے دانے گھر لانے کے قابل ہوتے تھے۔ فصل سنبھالنے کے یہ دن اتنے مصروف شمار ہوتے تھے کہ مثل مشہور تھی‘ کہ اس موسم میں جاٹ کی ماں مر گئی تو اس نے میت کلہوٹے (بھڑولے) میں چھپا دی تھی۔
اس موسم میں ہماری زمین فصل کے سنہرے گہنے پہنتی ہے تو ماضی کی ایسی دلفریب یادیں امڈی چلی آتی ہیں، جن سے آپ اہل شہر تو کجا، آج ہم دیہاتیوں کے بچے بھی نا آشنا ہیں۔ آپ نفاست پسند شہریوں کے نفیس بچے تو خیر کل بھی ریشم و کمخواب میں پلتے تھے اور آج بھی، مگر انقلابات ہیں زمانے کے کہ ہم مضافاتی جو مٹی میں مٹی ہو کر بڑے ہوئے ہیں، اب ہمارے نیم نفیس بچے بھی تھریشر کے شور اور بھوسے کی ”کری‘‘ سے الرجک ہیں۔ بجا کہ ابھی ہمیں چھری کانٹے سے کھانا کھانے کا طریقہ آیا ہے، نہ چائے میں بسکٹ ڈبوئے بغیر انہیں کھانے کا سلیقہ؛ تاہم اتنے مہذب تو ہم ہو ہی گئے ہیں کہ اپنے ان مصروف ترین دنوں میں بھی وقت نکال کر کالم لکھتے ہیں‘ اور ہمارے بچے سکولوں اور کالجوں سے چھٹی بھی نہیں کرتے، جبکہ ماضی میں تو اس موسم میں کوئی اور کام کرنا اپنے اوپر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ تین سو دو لگوانے کے مترادف تھا۔
یادش بخیر! پہلی بیساکھ کو علی الصبح ہم جاٹ دیسی گھی کے گھونٹ بھر کر درانتیاں اٹھا لیتے تھے۔ اس سے قبل ہم بد ذوق بارانی چیت یعنی بہار کی دلفریب رُت کا لطف اٹھانے کی بجائے اپنی درانتیوں کے تھیلے اٹھائے، انہیں تیز کرانے لوہاروں کی دکانوں کی طرف رواں رہتے تھے۔ پھر فصل اٹھانے کا لمبا سالانہ سفر شروع ہو جاتا۔ زمیندار اور کاشتکار گھرانوں کے مرد، عورتیں اور بچے صبح سے شام تک کھیتوں میں درانتیوں سے فصل کاٹتے نہ تھکتے تھے۔ ہمارے ایسے نام نہاد بڑے گھرانوں کی خواتین تو کھیتوں میں نہیں جاتی تھیں، البتہ ہم بچوں پر ایسی کوئی ”پابندی‘‘ نہیں تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موسم میں سکول سے چھٹیاں کرنا بالکل ”لیگل‘‘ تھا۔ کبھی کسی بڑے کھیت سے اجتماعی طور پر فصل اٹھانے کے لیے ”منگالی‘‘ یا ”ونگار‘‘ مانگی جاتی اور برادری کے تمام افراد اپنی اپنی درانتیاں اٹھائے فصل کاٹنے پہنچ جاتے۔ سبحان تیری قدرت! ایسے پُرمسرت مواقع پر ڈھول کا انتظام بھی ہوتا تھا‘ اور شام کو حلوہ بھی لازم تھا، جو عید بقر عیدکے علاوہ گندم کے موسم ہی میں میسر آتا تھا۔
فصل کاٹنے کے بعد گندم کے تنکوں سے رسیاں بنا کر اُسے وہیں گانٹھوں کی شکل میں باندھ دیا جاتا‘ اور بعد میں بغیر سینگوں والے ایک جانور پر لاد کر کھلیانوں میں پہنچا دیا جاتا، جہاں فصل کے بڑے بڑے ”پسے‘‘ لگائے جاتے۔ پھر باری باری برادری کے ہر گھر کی گندم مل کر گاہی جاتی۔ یہ ”گاہ‘‘ مینول طریقے سے عمل میں آتا کہ فصل کو کھلیان پر کھلار کر اور جانوروں کے پیچھے جھاڑیوں سے بنے ”ڈِھنگر‘‘ باندھ کر انہیں بڑے سے دائرے کی شکل میں فصل پر گھمایا جاتا۔ پھر قبر کی شکل کی ایک بڑی سی ”دَھڑ‘‘ لگائی جاتی اور ”کرائی‘‘ اور ”ترینگل‘‘ سے اسے فضا میں اُچھال اُچھال کر گندم کو بھوسے سے الگ کیا جاتا۔ ”کھلاڑے‘‘ میں چارپائیوں کو دائرے کے شکل میں باندھ دیاجاتا اور بھوسہ ان کے اندر ڈال کر اور لتاڑ لتاڑ کر گنبد نما ”بوھاڑے‘‘ بنا لئے جاتے جبکہ گندم کو گھر میں مٹی سے بنے ”کلہوٹوں‘‘ اور ”گہیوں‘‘ میں ڈال دیا جاتا۔ اس سے قبل کھلیانوں میں گندم کی مقدار شماری کا دلچسپ طریقہ رائج تھا۔ یہ مقدار لکڑی یا لوہے سے بنے ایک ”چہا‘‘ نامی برتن سے شمار کی جاتی، جس میں تین سیر گندم آ جاتی تھی۔ تمام بزرگ با وضو ہو کر کھلیان میں زمین پر بیٹھ جاتے، جہاں ننگے سر کسی بچے کی بھی رسائی ممکن نہ ہوتی تھی۔ ایک معتبر بزرگ گندم کے ڈھیر سے چہا بھر بھر کر ایک الگ ڈھیری لگاتا جاتا اور باآواز بلند چہائوںکی گنتی کچھ اس طرح کرتا ” برکت بسم اللہ، دو بسم اللہ، تین بسم اللہ…‘‘ سولہ چہا کی ایک پائی اور دس پائی کا ایک خلوار شمار ہوتا تھا۔ ایک اور اَن پڑھ مگر اپنے تئیں جہاندیدہ بزرگ جھاڑو کے ”تیلے‘‘ ہاتھ میں لے کر بغور اس عمل کو دیکھتا جاتا اور ہر دفعہ سولہ چہا کے بعد ایک تیلا الگ کر دیتا۔ اس موقع پر تمام دستکار بھی پہنچ جاتے اور زمیندار ہر کسی کو اس کا مقررہ حصہ دیتے۔ نائی، موچی، کمہار، ترکھان، لوہار، جولاہے، دھبے، خادم مسجد اور امام مسجد اس گندم کے عوض سارا سال اپنے اپنے شعبے میں گائوں بھر کے لیے خدمات انجام دیتے تھے۔ زندگی میں روپے پیسے کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا، حتیٰ کہ اکثر گھر کا سودا بھی جو فقط ماچس، گڑ، پتی اور پھول صابن پر مشتمل ہوتا، وہ بھی انہی دانوں کے عوض دکان سے خریدا جاتا تھا۔ یہ مثل اسی دور کی ہے کہ ”جس کے گھر دانے، اس کے کملے بھی سیانے‘‘ جس کے گھر جتنے زیادہ گندم کے دانے ہوتے وہ اتنا ہی بڑا رانی خان تھا کہ لوگ اس کے دست نگر تھے۔
اب تو خیر ان دیہاتوں میں بھی مادیت کا ایسا سونامی آیا ہے کہ ہمارے نفس فربہ اور دل سکڑ گئے ہیں۔ ہماری زمینیں امیر ہوئیں تو ذہن غریب ہو گئے۔ کاشت کے لیے ہل کی جگہ ٹریکٹر آیا، فصل کاٹنے کیلئے درانتی کی جگہ ٹریکٹر کا دیسی بلیڈ آیا، تھریشر آیا اور اب ولایتی ہارویسٹر۔ جدید مشینری نے ہماری زمینداری تو آسان کر دی ہے لیکن ہماری زندگی کے کچھ دلفریب سے رنگ بھی ہم سے چھین لیے ہیں۔ ہمارا رومانس، ہمارا بیساکھ پیچھے رہ گیا ہے اور ہم بہت دُور نکل آئے ہیں… باقرؔ وسیم کی نظم ”کنڑکاں دیاں رُتاں آئیاں‘‘ سے اقتباس ہے:
فصلاں دی سیج سجیلی
ہر پاسے رُت رنگیلی
وَا گُھلے پئی مستیلی
پئی کنڑک نچے نخریلی
کر سر تے چُنی پیلی
ساڈی زِمی بہہ گئی مائیاں
کنڑکاں دیاں رُتاں آئیاں