ساڈی زِمی بہہ گئی مائیاں… (آخری حصہ)…وقارخان
اتفاق سے اس مرتبہ ہم جاٹوں کے فصل اٹھانے اور صادق اور امین عوامی نمائندوں کی وفاداریاں بدلنے کے موسم اکٹھے آئے ہیں۔ اسی لیے عرض کیا تھا کہ آج ہماری زمین سونے جیسی گندم کا پیلا لباس پہنے لجاتی ہے اور کل صاف و شفاف انتخابات کے زرد جوڑے میں ملبوس مائیوں بیٹھ کے شرمائے گی۔
ہماری سرزمین خوش قسمت ہے کہ اس پر زمینی حقائق کے علاوہ آسمانی حقائق بھی نازل ہوتے ہیں۔ آج کی زمینی حقیقت گندم کی سنہری فصل ہے اور آسمانی حقیقت یہ ہے کہ غیر جانبدارانہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے صادق اور امین قیادت منتخب ہونے جا رہی ہے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ یقین کامل ہے کہ اس دفعہ ہماری دھرتی کا جو جوڑا بنے گا، وہ ”صادق اینڈ امین مینوفیکچرنگ انڈسٹری‘‘ میں خصوصی طور پر تیار ہوا ہے۔ ہم نے اپنے اوپر مسلط ہونے والی کرپٹ اور نااہل قیادت کے زیر اثر غموں کی طویل سیاہ رات گزاری ہے‘ مگر اب پیر فقیر کی دعا سے آئین کی دفعات 62،63 پر پورا اترنے والے نمائندوں کو لیے ایسی صبح زرنگار طلوع ہونے والی ہے، جو ہمارے دکھوں کا یوں مداوا کرے گی کہ ہم خوشی سے پکاراٹھیں گے:
کوئی کنڑکاں نِسر گیاں
گلاں ساری رات دیاں
سانوں دَھمی ویلے وِسر گیاں
پاک سرزمین اس لحاظ سے ذرا بدقسمت بھی واقع ہوئی ہے کہ وہ محبت کی طرح بلائوں میں رہ کے پلی ہے۔ مظلوم جب بھی انتخابات کے لیے مائیوں بیٹھتی ہے، ظالم سماج نعرۂ مستانہ بلند کرتا ہے ”یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘ آج بھی کچھ تجزیہ نگار جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کو اسی تاریخی تناظر میں دیکھ رہے ہیں‘ مگر اللہ نے چاہا تو اس مرتبہ ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ جمہوریت ہماری دھرتی کی واحد اور پکی سہیلی ہے، جس کے ساتھ یہ اپنے دکھ سکھ اور دل کی باتیں شیئر کرتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ظالم سماج کو یہ سہیلی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اگرصاف شفاف انتخابات کے نتیجے میں کوئی بندھن بندھ بھی جائے تو ظالم سماج کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم عرصے کے لیے سہاگن رہے۔ ماضی میں تو ایسے ستم بھی ہوتے رہے ہیں کہ ہماری زمین مائیوں بیٹھی ہے، ڈھولک بج رہی ہے، گیت گائے جا رہے ہیں یا یہ سہاگن اپنے گھر میں آباد ہے کہ ظالم سماج ذرا سی گھریلو ناچاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے زبردستی اغوا کر کے لے گیا اور دس دس سال تک حبس بے جا میں رکھا۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ مغویہ کبھی کسی تھانے میں اس مروجہ مضمون کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹوا سکی کہ میں گھر میں اکیلی تھی، نہا کر صحن میں چارپائی پر بیٹھی بال سکھا رہی تھی کہ فلاں بن فلاں مسلح پسٹل ہمراہ تین عدد نامعلوم مسلح ملزمان گھر کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر آئے اور مجھے اسلحہ کے زور پر زبردستی اٹھا کرکالے رنگ کی کار میں ڈال کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔
تاہم آج خوش قسمتی سے حالات بالکل مختلف ہیں اور ریاستی اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور جمہوریت کے ساتھ ان کی غیرمشروط وفاداری کی بنا پر عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں صادق اور امین قیادت ابھرنے کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ مردم شماری ہوچکی ہے، سینیٹ کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات مکمل ہو گئے ہیں، الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کے کیس بروقت نمٹا رہا ہے اور نگران حکومت کے لیے ناموں پر اتفاق رائے ہوا ہی چاہتا ہے۔ ان حالات میں عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے آرٹیکل62(1)F کے تحت تاحیات نااہلی کے تاریخی فیصلے میں بجا طور پر کہا ہے کہ عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے۔ ادھر عمران خان نے تاریخی فیصلہ ہٰذا سنانے پر عدالت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب مطمئن ہو جائیں، ملک میں نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ گویا کوئی ڈر نہیں رہ گیا کہ ہماری سرزمین مائیوں بیٹھے گی، مہندی لگے گی، ڈھولک بجے گی اور ”کاسنی دوپٹے والیے، منڈا صدقے تیرے تے‘‘ جیسے گیت گونجیں گے۔ تب اس مترنم فضا میں ملک کے عوام کی خوشی دیدنی ہوگی۔ باقرؔ وسیم کی نظم مذکورہ کا ایک اور بند ہے ”جد ڈھول بنے تے وگے/ شوکاں دا جذبہ جگے/ ساڈی داتر جِتھے لگے/ سو سَتھر، سُبی، بگے/ سواوڑاں اگے اگے/ پیاں دیونڑ حال دہائیاں/ کنڑکاں دیاں رُتاں آئیاں‘‘
تبدیلی کا سونامی اب رک نہیں سکتا۔ سارے چور اور لٹیرے اس طوفان میں خس و خاشاک کی مانند بہہ جائیں گے ۔ پھر طوفان ہٰذا کے بطن سے صاف ستھری قیادت برآمد ہو گی اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا پاکستان جگمگا رہا ہو گا۔ ہمارے پاس مستقبل کے اس دلفریب منظرنامے کے حق میں ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف اقامے کی بنا پر تاحیات نااہل ہو چکے ہیں۔ احتساب عدالت میں ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات فائنل سٹیج پر ہیں اور ایک مستند صادق اور امین رہنما شیخ رشید احمد اپنے الہامی علم کے زور پر بار بار ان کے جیل جانے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر بھی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہو گئی ہے اور پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور صادق اور امین رہنما اسے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالت کی جانب سے صادق اور امین قرار پا چکے ہیں۔ ان کی جماعت کو بھرپور عوامی حمایت کے علاوہ ملک کے تقریباً ہر حلقے میں مضبوط اور صادق اور امین امیدوار بھی میسر ہیں۔
ان انتخابات میں عوام کی پوری کوشش ہو گی کہ ن لیگ کے قلعے پنجاب میں دراڑ ڈال کر اسے دیوار سے لگایا جائے تاکہ اس کے کم سے کم امیدوار منتخب ہو سکیں۔ عوام اس جماعت میں باقی رہ جانے والے صادق اور امین ارکان کو بھی چن چن کر انہیں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں تاکہ اپنی پسندیدہ جماعت تحریک انصاف کے لیے رستہ ہموار کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس جماعت کو بھی اٹھا لیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں شاندار کارکردگی کی بنا پر تحریک کی پوزیشن پہلے ہی مضبوط ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں جو احسن کردار بلوچستان گروپ نے ادا کیا تھا، آئندہ انتخابات میں بھی نظر آئے گا۔ سندھ میں عوام کی ترجیح پیپلز پارٹی ہو گی، جبکہ ایم کیو ایم کو وہ کارنر کرنا چاہتے ہیں۔ ان انتخابات میں عوام عمران خان کے حق میں لگ بھگ وہی فضا بنانا چاہتے ہیں، جو انہوں نے 1997ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کے حق میں بنائی تھی اور انہیں شاندار کامیابی دلائی تھی؛ تاہم عوام کو تجربے نے سکھایا ہے کہ بھاری مینڈیٹ سے نمائندے شترِ بے مہار ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان کی کوشش ہے کہ معلق سی اسمبلی وجود میں آئے اور ن لیگ کے کرپٹ ارکان کو چھوڑ کر باقی جماعتوں کے صادق اور امین رہنما مل کر حکومت بنائیں، کیونکہ مل کر کوئی بھی کام کرنے میں برکت ہوتی ہے۔
دھرتی مائیوں بیٹھی ہے، گندم کے بعد غیرجانبدارانہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی فصل تیار ہے اور اسے کاٹنے والے بے قرار‘ مگر احتیاط کا یہ عالم ہے کہ عمران خان کہتے ہیں: ضمیر فروشوں کو پارٹی سے نکال دیں گے‘ حالانکہ صادق اور امین لوگوں سے بھری اس جماعت میں ایک بھی ضمیر فروش نہیں‘ مگر خان صاحب پھر بھی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ان کی ٹوکری میں ایک بھی گندا انڈانہ رہے۔ ادھر بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ عمران نے سینیٹ الیکشن میں ہمیں ووٹ دیا، آئندہ بھی سپورٹ کریں گے۔ اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ جناب زرداری بھی صداقت اور امانت کے معاملے میں کتنے حساس واقع ہوئے ہیں۔ پس اگر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات جیسی قابل رشک صورتحال پیدا ہوئی اور عمران خان کی قیادت میں پی پی نے ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو ایم ایم اے کے جید صادق اور امین بزرگان کیونکر اس نیک کام میں پیچھے رہیں گے؟ ہم اپنی بات باقرؔ کی اسی نظم کے ایک اور اقتباس پر ختم کرتے ہیں:
کنڑکاں دی رُت چنگیری
جس کیتی کارا گیری
اوہودے گھر وچ آئی ڈھیری
اوسے دی پگ اچیری
کی کرنی گل ودھیری
گل چھڈ باقرؔ سائیاں
کنڑکاں دیاں رُتاں آئیاں