سب چور نہیں ہوتے…مظہر بر لاس
پچھلے کئی دنوں سے مجھے بودی شاہ کا انتظار تھا۔ گزشتہ رات موصوف کی آمد ہوئی۔ آپ کو تو پتا ہی ہے کہ جب بودی شاہ آتے ہیں تو میں بہت خوش ہوتا ہوں۔ جب وہ گزشتہ رات آئے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے پھولوں سے پیر صاحب کا استقبال کیا۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ چند مریدین بھی تھے۔ پرتکلف کھانے کے بعد گپ شپ ہوئی۔ اس دوران ایک ایک کرکے مریدین کھسکنا شروع ہوگئے۔ کچھ ہی دیر بعد صرف میں اوربودی شاہ اکیلے رہ گئے۔ بس پھر حقے کے کش تھے اور گپ شپ تھی۔ ملکی و غیرملکی حالات زیر بحث آئے، ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی بات ہوئی۔ اس مکالمے کے چند حصے آپ کی نذر کر رہا ہوں جو اس خاکسار کا بودی شاہ سے ہوا۔
خاکسار۔ بودی شاہ جی! شام پر میزائل داغ دیئے گئے ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں۔اقوام متحدہ کدھر ہے اسے انسانی حقوق کی تذلیل نظرنہیں آرہی؟
بودی شاہ۔ شام پر بمباری مسلمانوں کی کمزوری کے باعث ہوئی۔ اقوام متحدہ جانبدارہے۔ جب سے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا ہے دنیا میں ظلم کا راج ہے۔ اس اقوام متحدہ کا واحد مقصد امریکہ کو خوش رکھنا ہے۔ نیٹو ممالک ویسے ہی امریکہ کے باراتی ہیں۔ جب سے اقوم متحدہ بنی ہے مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ آخر اس عالمی تنظیم کو کشمیر اور فلسطین میں ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ مسلمانوں کو سوچنا
چاہئے کہ کیوں کسی مسلمان ملک کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے؟ او آئی سی کدھر سوئی ہوئی ہے۔ میں شام کے مسئلے پر بڑا قصور وارمسلمانوں ہی کو سمجھتا ہوں اور میرےخیال سے تیسری عالمی جنگ کی ابتدا شام سے ہوسکتی ہے۔
خاکسار۔ او پیارے بودی شاہ ! ہمارے اپنے ملک میں بھی تو حالات گڑبڑ کی طرف جارہے ہیں۔
بودی شاہ۔ جب بڑے بڑوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی تو وہ حالات کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تمہیں کچھ پتہ نہیں کہ کس کس نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے مگر تمہیں اتنا ضرور بتا دیتا ہوں کہ کوئی جتنا مرضی چیخے، حساب کتاب ہوکر رہے گا۔ اب یہ ملک اورکرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ آپ کو اپنا ملک صاف ستھرا نظر آئے گا۔ بس تھوڑا سا انتظار کرو سب ٹھیک ہونے والا ہے۔ اب چوروں کی بارات لٹنے والی ہے۔ بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت لے آئو۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ورنہ جیل حاضر ہے۔
خاکسار۔ بودی شاہ جی! میرے ایک دوست جمیل عباسی ہیں۔ انہوں نے بھٹو کی محبت میں کوڑے کھائے تھے، جیلیں بھگتی تھیں۔ اب وہ پی ٹی آئی میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر لوٹی ہوئی دولت واپس نہ آئی تو پھر کیا فائدہ جیلوں میں ڈالنے کا ۔ مزہ تو تب ہے کہ جب لوٹا ہوا سرمایہ واپس آئے۔
بودی شاہ۔ آئے گا ضرور آئے گا۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ضرور ہوگی۔ ہمارا ملک بڑے خاص دن پر بڑے خاص لوگوں نے خاص مقصد کے لئے بنایا ہے۔ جو یہاں لوٹ مار کرے گا وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اسے ہرطرف رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خاکسار۔ بودی شاہ جی! ان سیاستدانوں اور افسران نے بہت لوٹا ہے ملک کو۔ ان کا سدباب ضروری ہے۔
بودی شاہ۔ نہیں پیارے! نہ سب سیاستدان چور ہیں اور نہ ہی سب افسران لٹیرے ہیں۔ یہ چند لوگ ہیں۔ ا ن چند لوگوں کے باعث سب لوگ بدنام ہوگئے ہیں۔ مانا کہ کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہو۔ فوج میں بھی لوگ کرپشن پر پکڑے گئے۔ اس ملک کی سیاست اور افسرشاہی میں اب بھی ایسے خاندانوں کے افراد موجود ہیں جو حرام کو حلال نہیں سمجھتے بلکہ وہ صرف اور صرف رزق حلال ہی کو فضیلت دیتے ہیں۔ اب جب ملک کو لوٹنے والے پکڑے جارہے ہیں تو اسی لئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ….. ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ تم جیسے صحافی کو کیا پتا؟‘میں تمہیں کسی سیاسی خاندان کی مثال نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے خاندان کی مثال دے رہا ہوں جس نے رزق حلال کو زندگی کا شعار بنائے رکھا۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی کہانی ہے ۔اس کہانی میں ان کے ذہین ترین بچے بھی شامل ہیں۔ پروفیسر محمد انور خان جپہ جھنگ اور چنیوٹ کے درمیانی علاقے بھوانہ کے دیہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ درمیانے درجے کے زمیندار تھے اورکالج میں پڑھاتے تھے۔ زندگی رزق حلال کے باعث خوشی سے گزر رہی تھی۔ پروفیسر صاحب کو قدرت نے سات بیٹوں سے نوازا۔ سات بیٹوں سے نواز کر قدرت نے اس خاندان کو ایک بڑی آزمائش دے ڈالی۔ 1986میں پروفیسر صاحب انتقال کرگئے۔ جس وقت پروفیسر انور جپہ کا انتقال ہوا تو ان کے ساتوں صاحبزادے اسکول میں پڑھتے تھے۔ کوئی ایک بھی کالج میں نہیں تھا۔ سب سے چھوٹا بیٹا صرف چھ مہینے کا تھا۔ پروفیسر صاحب کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے اپنی ساری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کردی۔ پروفیسر صاحب کے ساتوں صاحبزادوں نے میٹرک میں اپنا اپنا امتحان اپنے اپنے وقت پر اعلیٰ امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا یہ بچے اتنےلائق تھے کہ تمام کے تمام اعلیٰ نمبروں کے باعث گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ پروفیسر انور جپہ کے ساتوں صاحبزادے راوین بنے۔ یوں گورنمنٹ کالج لاہور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ریکارڈ بنا کہ کسی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے سات بھائی، اور ساتوں کے سات ہی راوین۔ ان کی کامیابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید آگے بڑھتا ہے۔ پروفیسر انور جپہ مرحوم کے پانچ صاحبزادے سی ایس پی افسر ہیں۔ ایک صاحبزادہ پاک فوج میں ہے جبکہ ایک صاحبزادہ پیرس میں بزنس کرتا ہے۔ سیف انور جپہ، اسد طاہر جپہ، ظفر حیدر جپہ، شکیل انور جپہ اور ظہیر انور جپہ۔ یہ پانچوں سول سروس میں ہیں۔ سلیم جپہ فرانس میں بزنس کرتا ہے جبکہ پروفیسر صاحب کی وفات کے وقت چھ مہینے کے رہ جانے والے بچےکا نام نوید انور جپہ ہے۔ نوید انور اس وقت پاک فوج میں میجر ہے۔ پروفیسر صاحب کا ایک بیٹا سیف جپہ جو آج کل پنجاب میں کہیں ڈپٹی کمشنر ہے جب وہ مدینہ میں ڈائریکٹر حج تھاتو ہرمہمان کی خدمت اس لئے کرتاتھاکہ اس کے دل میں یہ بات تھی کہ مدینے میں آنے والا ہر شخص سرکار ِ مدینہ ؐ کا مہمان ہے۔ اس کی خدمت کرنا کار ِ ثواب ہے۔
پروفیسر صاحب کاایک اور بیٹاا اسد طاہر جپہ ہے۔ یہ آج کل ایف بی آر میں ایڈیشنل کمشنر ہے۔ہفتے میں پانچ دن سرکاری ڈیوٹی دیتاہے اورپھر دو دن گائوں میں گزارتا ہے۔ اس نے بھوانہ میں ایجوکیشنل سٹی بنا رکھا ہے۔ یہ اس پس ماندہ علاقے کے بچے بچیوں کی تعلیم کے بارے میں متفکر رہتا ہے۔ یہاں پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک علم کا انتظام ہے۔ صرف تعلیم ہی نہیں تربیت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں شہدا کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے جبکہ حافظ قرآن اور یتیم بچوں کو آدھی فیس کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ اسد طاہر کاخیال ہے کہ اس کےوالد تعلیم سے وابستہ تھے ان کی وفات کے باعث جو کمی رہ گئی تھی اسے پوراکیاجانا چاہئے۔ ویسے بھی علاقے کے بچوں کی تعلیم ان کے خاندان پر قرض ہی نہیں فرض ہے۔
دوستو! اس مٹی میں بڑی زرخیزی ہے۔ یہاں حلال رزق کمانے والوں، خدمت کرنے والوں کی کمی نہیں ایسا نہیں ہے کہ یہاں سب چور ہیں، صرف چورو ں کو فکر ہونی چاہئے بقول احمد لطیف؎
تماشا ختم ہونے جا رہا ہے
ہنسنے والا رونے جا رہا ہے