منتخب کردہ کالم

ستّے خیراں اور امجد بابر کی شاعری

وزیراعظم کا یہ واضح اعلان کہ وہ میثاق جمہوریت پر قائم ہیں‘ آصف علی زرداری کے لیے کُھلا پیغام ہے کہ ایک تو اُنہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا‘ نیز ان کے کسی مزید قریبی دوست کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ اس سے پہلے بعض وزراء کی طرف سے بھی باپ بیٹیوں کے الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں آنے پر خوشی کا اظہار کیا جا چکا ہے اور آج سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی انہیں پیشگی خوش آمدید کہہ دیا ہے‘ نیز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر کو بھی رنگ و روغن سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ زرداری کو عمران خان کے ساتھ مل کر اُن کے خلاف تحریک چلانے سے باز رکھا جائے‘ جبکہ عمران خان کا یہ بیان بھی آ چکا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی نے پاناما لیکس کے خلاف تحریک چلائی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے‘ جبکہ اس سے پہلے پی ٹی آئی اس ضمن میں تامّل کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ مزید برآں‘ زرداری کے بی بی کی برسی کے موقع پر بھی تقریر میں کسی تحریک‘ حتیٰ کہ پارٹی کے چار نکات کے ذکر سے بھی اجتناب کیا گیا تھا اور مخالفین نے اسے مایوس کن قرار دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کو یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ تحریک انصاف سے مل کر بھی نوازشریف کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ چہ جائیکہ کہ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا سکے‘ اس لیے کہ ایک تو ان دونوں کے پاس اتنی سٹریٹ پاور ہی نہیں ہے اور دوسرے حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لینے سے اُسے حاصل بھی کچھ نہیں ہو گا اور اگر اس کا کوئی فائدہ پہنچے گا تو صرف عمران خان کو‘ اس لیے وہ کوئی تحریک شروع کرنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ سوچے گی‘ جبکہ قومی اسمبلی کا رکن بننے کا مطلب بھی یہ ہے کہ نوازشریف اپنی بقیہ میعاد پوری کر لیں!
یہ بات مزید قابل غور ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے آغاز اور تیزی نے حکومت کے حق میں فضا کو خاصا ہموار کر دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے‘ بیشک یہ سب کچھ ایک تو عمران خان کے دبائو کا نتیجہ ہے اور دوسرے حکومت اپنے طور پر الیکشن کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے جبکہ سی پیک منصوبہ جس میں مزید ڈیڑھ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور جو واقعی پاکستان کی تقدیر بدلنے جا رہا ہے اس کا کریڈٹ بھی صرف اور صرف نوازشریف ہی کو ملے گا جو اس کے حقدار بھی ہیں‘ بیشک پیپلز پارٹی یہ کہتی رہے کہ اس کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ ایک بڑے منصوبے کا آغاز کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن شروع کر کے اُسے چھوڑ دینا‘ بہرحال کوئی اچھی بات نہیں ہے اور زرداری اس کا کوئی کریڈٹ بھی نہیں لے سکتے۔ علاوہ ازیں اس میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
جہاں تک پاناما لیکس کے مقدمے کا تعلق ہے تو سابق چیف جسٹس کے اسے بیچ میں چھوڑ دینے سے حکومت کو مہلت بھی ملی ہے اور ایک طرح کا ریلیف بھی‘ چنانچہ اب سارا کچھ نئے سرے سے شروع ہو گا؛ تاہم اس تاخیر کا نفسیاتی فائدہ بھی حکومت کو پہنچے گا۔ سابق چیف جسٹس کا یہ رویہ اپنی جگہ پر معنی خیز ہے اور غیر متوقع بھی۔ نئے چیف جسٹس کے بارے میں یہ افواہ بھی اڑائی گئی ہے کہ وہ حکومت کے حوالے سے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کے جواب میں انہیں بیان بھی دینا پڑا کہ عدالت کسی دبائو میں نہیں آئے گی‘ تاہم ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ چیف جسٹس کو لارجر بنچ کی سربراہی نہیں کرنی چاہیے۔
بیشک سپریم کورٹ اس کا فیصلہ میرٹ پر ہی کرے گی لیکن اُسے ملکی حالات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ اس کے کسی فیصلے سے عوام کا کوئی سخت رد عمل تو سامنے نہیں آئے گا۔ سو، اگر فیصلہ عمران خان کے خلاف آتا ہے تو مخالفانہ ردعمل اسی جانب سے آئے گا جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو گی کیونکہ حکومت ایک تو اپنے پائوں پر مضبوطی سے کھڑی ہے اور دوسرے عوام کی ایک واضح اکثریت بھی اسی کے ساتھ ہے‘ اس لیے اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آتا ہے تو ردعمل شدید بھی ہو سکتا ہے جس پر زور دینے کے لیے اس کے پاس پورے پورے ذرائع بھی موجود ہیں۔
اس لیے بظاہر حکومت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ عمران خان بھی اس مقدمہ سے کچھ زیادہ پُرامید دکھائی نہیں دیتے‘ تبھی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر انہیں عدالت سے انصاف نہ ملا تو وہ پھر سڑکوں پر آ جائیں گے جبکہ وہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد ہے اور وہ اس کا فیصلہ تسلیم کریں گے؛ چنانچہ اس نئے بیان سے عمران خان کی اخلاقی پوزیشن کو بھی نقصان پہنچا ہے جو بار بار یوٹرن لینے سے بھی پہلے کچھ ایسی خاص اچھی نہیں تھی۔ چنانچہ حکومت کو بظاہر تو ”ستّے خیراں‘‘ ہی نظر آتی ہیں‘ تاہم کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی یعنی ع
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
واضح رہے کہ لقمان حکیم کی طرح نواز شریف کے پاس بھی ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ وہ کسی وقت بھی کوئی صدری نسخہ استعمال کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے وہ کر بھی چکے ہیں۔
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
امجد بابر کی شاعری
آپ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں اور گوجرہ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ نثری نظم لکھتے ہیں؛ چنانچہ نمونہ مشتے از خر وارے حاضر ہے :
محبت کی آخری سطریں
وجود میں / خالی پن کی اذیت کراہتی ہے / بے ترتیب سانسیں / آنکھوں کی سُرخی سے / خراج طلب کرتی ہیں / خواب کی دیوار / انگاروں سے مخاطب ہو کر / سرکتی ہے / تمہارے شوق کے نشے میں گُم وصال / آہیں بھرتا ہے / تمہاری یاد کا نشانِ عظمت / سینے پہ سجائے / کوئی مرتا ہے / جہانِِ زندگانی میں / ایسا ہی ہوتا رہے گا/ فقط چہرے ہی بدلیں گے / وفا کی کہانی کا طلسم / باقی رہے گا / میں اور تم / دیمک کے چاٹنے تک / زندہ رہیں گے۔
حیرت ہے
ڈی این اے کی تختی پر / آنکھوں کے صحرا میں / ٹپ ٹپ گرتے خوابوں پر / کائنات میں بدلنے والے / لمحہ لمحہ مناظر پر / نیلے سمندر میں بارش کی رم جھم پر/ سبز میدانوں کی تُخم ریزی سے / تخلیق شدہ ثمرات کے فضل رِبّی پر / یادوں کے بازار میں چلتے پھرتے / سایوں کے اوراق کی خستہ خالی پر / ایک ناکام محبت کی بربادی پر حیرت ہے / حیرت ہے۔
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اُس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا