سدا بہار نازک دور اور عام انتخابات…..وقار خان
بحرانوں میں گھری پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد ایسے ہی حالات میں ن لیگ کی حکومت نے بھی اپنی آئینی مدت پوری کر لی۔ اب نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد مستقل نازک دور سے گزرنے والے اس ملک میں عام انتخابات 2018ء کا عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق فیصلے کے بعد ڈانواں ڈول ہونے والا یہ عمل سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پھر سے سنبھل گیا ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلہ مذکورہ کے بعد کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں جو تعطل آیا‘ اس کی بنا پر الیکشن کمشن کو ایک مرتبہ پھر شیڈول پر نظر ثانی کرکے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کی حتمی تاریخ 11 جون مقرر کرنا پڑی اور تمام امیدواروں نے اس مقررہ دن تک اپنے کاغذات جمع کرا دیے‘ تاہم خوش قسمتی سے انتخابات کی تاریخ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نگران حکومت، بڑی سیاسی جماعتیں‘عدالت عظمیٰ‘الیکشن کمیشن اور فوج 25 جولائی کو عام انتخابات کرانے پر متفق اور پرعزم ہیں۔
بے یقینی کی سدا بہار فضا میں منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد 25 جولائی کو انتخابات کرانے کے اعلان پر کم ہی لوگوں کو اعتبار تھا۔ اوپر سے یکم جون کو نگران وزیر اعظم کے عنان حکومت سنبھالنے کے دن لاہور ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کے ترمیم شدہ کاغذات نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے ان میں کی جانے والی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا اور کاغذات کی وصولی معطل کر دی‘ جس سے شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہو گئے۔ عدالت عالیہ کی فاضل جج نے اپنے حکم میں کہا کہ پارلیمنٹ کے تیارکردہ کاغذات نامزدگی کے تحت انتخابات کرائے جاتے تو جرائم پیشہ افراد باآسانی منتخب ہو جاتے‘ کیونکہ فارم سے غیر ملکی آمدن‘ ٹیکس ڈیفالٹ‘ قرض نادہندگی‘ اثاثوں‘دہری شہریت‘ مجرمانہ ریکارڈ‘ تعلیم‘پیشے اور زیر کفالت افراد سے متعلق اہم سوالات حذف کر دیے گئے ہیں۔ شفاف انتخابات کے لیے عدالت کے اس حکم کو تاریخی قرار دیا گیا؛ چونکہ آئین کے آرٹیکل 62،63 کے مطابق نئے فارم جاری کرنے کا حکم بھی ہوا، لہٰذا سمجھا جانے لگا کہ اس عمل میں بروقت انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا۔ اس سے قبل عدالت عالیہ کی طرف سے متعدد حلقہ بندیوں کی معطلی‘ بلوچستان اسمبلی کی انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد اور اسی مضمون پر مشتمل پرویز خٹک کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط نے بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ۔
کاغذات نامزدگی کے متعلق حکم مذکورہ کو اسی روز نگران حکومت‘الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی اسمبلی نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتوار 3 جون کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ان اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالت نے ہر صورت میں انتخابات مقررہ دن کرانے کا حکم دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہو گا۔ 6 جون کی سماعت میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے موجودہ کاغذات نامزدگی برقرار رکھتے ہوئے امیدواروں کو قرضوں، اثاثوں، واجبات، دہری شہریت، ٹیکس اور غیرملکی سفر پر مشتمل بیان حلفی ریٹرننگ آفیسرز کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا۔ بیان حلفی میں شریک حیات اور زیر کفالت افراد کے کاروبارکی تفصیل، فوجداری مقدمات کی معلومات اور پیشہ کے علاوہ پاسپورٹ اور این ٹی این نمبر دینا بھی لازم قرار دیا گیا۔ عدالت نے امیدواروں کو خبردار کیا کہ جھوٹا بیان حلفی دینے یا بیان حلفی کا کوئی حصہ غلط ثابت ہونے پر ان کے خلاف توہین عدالت سمیت دیگر قوانین کے تحت کارروائی ہو گی۔ قوی امید ہے کہ اس عدالتی حکم سے جہاں بروقت انتخابات کا انعقاد یقینی ہے ‘وہاں اب صرف آئین کے آرٹیکل 62،63 پر پورے اترنے والے امیدوار ہی الیکشن لڑ سکیں گے‘ جبکہ بدعنوان، جرائم پیشہ اور ٹیکس نادہندگان ان آرٹیکلز کی چھلنی سے خودبخود گر جائیں گے۔ جو لوگ جھوٹے بیان حلفی دے کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے‘ انہیں قانون گرا دے گا اور اسمبلیوں میں فقط دیانتدار اور کھرے پارلیمنٹیرین ہی رہ جائیں گے۔
ادھر پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی 5 جون کی پریس کانفرنس کو بھی خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے پر قوم کو مبارک باد دی اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ عام انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ انہوں نے 2018ء کو ملک میں تبدیلی کا سال قرار دیا، تاہم انہوں نے سوشل میڈیا پر سکیورٹی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور فوج کو سیاست میںگھسیٹنے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک فوج بھی نہ صرف بروقت انتخابات چاہتی ہے‘ بلکہ ماضی کے برعکس سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کے تحت وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے۔ گویا اقتدار و اختیار کے تمام مراکز 25 جولائی کو عام انتخابات کے انعقاد پر متفق ہیں۔
چونکہ ہم اپنے ملک میں سیاسی عمل کے حوالے سے کوئی خوشگوار تاریخ نہیں رکھتے اور مستقل نازک دور ہی ہماری پہچان بن چکا ہے، لہٰذا موجودہ خوش کن حالات کے باوجود، وسوسوں، اندیشوں اور قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہے۔ ہرگزرے دن کے ساتھ عام انتخابات کے التوا کے خدشات کمزور ہوتے جا رہے ہیں‘ مگر کچھ حلقوں کے نزدیک ابھی تک ان خدشات کو مکمل بے بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بیٹھے عسکریت پسند اور ملک میں موجود ان کے کارندے ان انتخابات کے انتظار میں سوچی سمجھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گرمی، بارشیں اور سیلاب بھی اس عمل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بے لگام سوشل میڈیا کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ الزام تراشی، گالم گلوچ، بے ہودگی اور فتویٰ بازی سے ماحول جنگ آلود ہونے کا خطرہ ہے، جو پرامن انتخابات کے لیے زہر قاتل ہوگا۔
سوشل میڈیا نے تو خیر ویسے بھی بحیثیت ایک صالح قوم کے ہمارے حسن ِ کمالات کو رونقِ کوچہ و بازار بنا دیا ہے‘ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس نے ہماری اخلاقیات کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں اور جمہوری رویے پختہ نہ ہونے کے سبب ان کا غیرقانونی اور غیراخلاقی استعمال ترقی کی طرف گامزن ہے۔ جماعتوں کے میڈیا سیل جس طرح اپنے سیاسی مخالفین اور ان کی سیاست سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے صحافیوں کو نشانے پر رکھتے ہیں اور ان کے خلاف جو غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے، اس پر اپنا سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اس خطرے کی بو بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات ہوں گے اور شکست کھانے والی جماعتیں انتخابی نتائج کو قبول نہیں کریں گی۔ پنجاب میں ن لیگ کا اب بھی قابل لحاظ ووٹ بینک موجود ہے۔ نواز شریف کیمپ کے تیور بتاتے ہیں کہ اگر ن لیگ کو غیرجمہوری طریقے سے دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف سے بھی زیادہ پرزور تحریک چلائے گی۔ جبکہ عمران خان تو اب یا کبھی نہیں کے اصول کے تحت اتنے پرجوش ہیں کہ انہیں بھی کسی صورت اپنی شکست قبول نہ ہو گی۔ اسی طرح ‘ہنگ پارلیمنٹ ‘وجود میں آنے پر بھی جوتوں میں دال بٹنے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ایسے تمام حالات، عوامل اور غیرجمہوری رویوں سے جمہوری عمل کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ کوڑھ زدہ کہی جانے والی جمہوریت کو اس مقام تک پہنچانے اور سدا بہار نازک دور کو برقرار رکھنے میں ہمارے بیمار رویوں کا بھی خاصا ہاتھ ہے۔
حسن ِظن رکھنے میں حرج کوئی نہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود تمام ریاستی ادارے اور شہری سیاسی عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ حرج تو خیر یہ سوچنے میں بھی کوئی نہیں کہ آخرہم سات عشروں سے مسلسل نازک دورسے کیوں گزر رہے ہیں؟ ہمیں اب دنیا سے سیکھ لینا چاہیے کہ جمہوریت کا تسلسل، مثبت جمہوری رویے اور پرامن اور شفاف انتخابات ہی ہمارے بہتر اور روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، اور نازک دور سے ہماری گلوخلاصی ہو سکے گی۔