سرخیاں، متن، شکیل عادل زادہ، علی اکبر ناطق اور مسعود احمد…..ظفر اقبال
لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے، ہم تو بجلی پوری کر گئے تھے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے‘ ہم تو بجلی پوری کر گئے تھے‘‘ اور اگر آپ نے میرے سابقہ دعوئوں کا یقین کر لیا ہے‘ تو اس کا بھی کرنے میں کیا ہرج ہے‘ ہیں جی؟ اگرچہ ہمارے وقت میں بھی آخر تک کافی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی‘ کیونکہ لوگ اسے استعمال ہی اتنی بے رحمی سے کر رہے تھے‘ جتنی تیزی اور بے رحمی سے ہم نے حکومت کی تھی اور اگر واقعی بجلی نہیں تھی‘ تو اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے‘ جن کی ایمانداری کی میں قسمیں کھایا کرتا تھا۔ اور اب انہوں نے چوہدری نثار کو ٹکٹ دینے کا اعلان کر کے میرے زخموں پر مزید نمک چھڑکا ہے‘ان کے میں خون کا پیاسا ہو رہا ہوں‘ کیونکہ یہ ” خلائی مخلوق‘‘ کو ہمارے حق میں قابو کر سکتے تھے‘ جو انہوں نے نہیں کیا اور اب شہباز صاحب کی جگہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں ‘جو خود تھوڑے ہی عرصے میں ہمارے ہی ساتھ شمار ہونے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”سب کچھ ٹھیک کر گئے‘ اپنے دور کے ذمے دار ہیں‘‘ لیکن تف! شاید میں یہ بیان غلط دے گیا ہوں‘ کیونکہ ہمیں تو عمران خان نے کام ہی نہیں کرنے دیا اور جب بھی کوئی کام کرنے لگتے ‘وہ آ کر ہمارا ہاتھ پکڑ لیتا تھا‘اب ہم اسے کیا کہتے اور کہہ بھی کیا سکتے تھے‘ کیونکہ ہمیں تو حکومت سے ہی سر کھجانے کی فرست نہیں ملتی تھی‘ جو عدلیہ کی آنکھ کا روڑہ بنی ہوئی ہے‘تاہم پہلے میرا نعرہ تھا کہ مجھے کیوں نکالا‘ اب یہ ہو گا کہ لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے اور جو بجلی ہم پوری کر گئے تھے‘ وہ کم بخت ایک دم کہاں چلی گئی ہے‘ ہیں جی؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ میں جتنی بار بھی ‘ہیں جی؟ کہوں کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ووٹ کو عزت دو کا مطلب ہے ‘گو عمران گو‘‘ کیونکہ عمران ہی اب سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے‘ جس سے نمٹنا چاہتے ہیں‘ ورنہ ووٹ کو تو عزت کبھی ملی ہے اور نہ کبھی ملنے کا امکان ہے‘ کیونکہ اس کا مطلب صرف ہمیں کامیاب کرانا ہے ‘اس لیے مجھے اپنے نعروں اور ان کے مطلب و معنی بدلنے کا بھی پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”لوڈشیڈنگ کا بے تحاشہ پروپیگنڈا ہمارے خلاف سازش ہے‘‘ کیونکہ پانامہ مقدمات کی طرح ہمارے خلاف صرف سازش کی جاتی ہے‘ حالانکہ مواد ماشاء اللہ اتنا ہے کہ سازش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ کیونکہ سب کچھ اللہ کے فضل سے کیا ہے‘ کیا ہی اتنی دیدہ دلیری سے کہا تھا کہ کسی سازش یا محنت کی کیا ضرورت تھی‘ کیونکہ اربوں کے اثاثے ایکدم آسمان سے تو نہیں اتر آئے‘ ہیں جی؟ مزید مبارکباد۔ امید ہے، ہیں جی سے اب تک آپ کی پوری تسلی ہو گئی ہو گی۔باقی ‘ہیں جی‘ اگلی ملاقات پر ۔یار زندہ صحبت باقی۔آپ اگلے روز اسلام آباد سیکٹر ای ون میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
بیدلؔ کے شعر کا معاملہ
اگلے روز کالم میں بیدلؔ کے اس شعر ؎
بوئے گل نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخواست پریشاں برخواست
کی باز گشت کراچی سے بھی سنی گئی کہ ہماری اور آپ سب کی محبوب شخصیت جناب شکیل عادل زادہ نے فون پر بتایا کہ سلیم احمد مرحوم جو غالبؔ کے ساتھ ایسی خوش فعلیاں کرتے رہتے تھے۔ یہ انہی میں سے ایک تھی‘ ورنہ یہ معاملہ آج تک مشکوک چلا آ رہا ہے کہ یہ شعر بیدلؔ کا تھا بھی یا نہیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس بیدلؔ کا دیوان موجود ہے۔ میں اس میں سے دیکھ کر بتائوں گا۔ مولانا بیدلؔ دہلوی کا یہ دیوان جس پر بزرگ ترین گویندہ سر زمین ِ ہند، بہ اہتمام حسین آھی درج ہے‘ میرے اشتیاق کو بھانپتے ہوئے برادرِ عزیز محمد اظہار الحق نے مجھے 2فروری94ء کو اس شعر کے ساتھ گفٹ کیا تھا؎
بہ آں گروہ کہ از بادۂ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ہر کجا ہستند
میں نے دیوان کی تلاشی لی‘ تو اس میں سے اس زمین میں لکھی گئی کوئی غزل برآمد نہیں ہوئی۔ غالبؔ کے ساتھ مقدور بھر خوش فعلیاں میں بھی کرتا رہتا ہوں‘ لیکن مجھ سے زیادہ غالبؔ کو ماننے والا بھی شاید ہی کوئی ہو۔اس کے ساتھ مقابلہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
غالبؔ کے ساتھ میرا جھگڑا نہیں ظفر کچھ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں
مذکورہ بالا شعر کے بارے میں‘ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میرے خیال میں اس کے اندر یہ عیب موجود ہے کہ اس کے دونوں مصرعوں میںلفظ ”محفل‘‘ کی تکرار ہے‘ جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھی ‘یعنی پہلے میں ”محفل آ رہا ہے‘ تو دوسرے میں ”بزم‘‘ اور یہ اچھا نہیں لگتا‘ جبکہ میں خود بھی ایسی صورتحال سے اجتناب کرتا ہوں؛ چنانچہ اس سے بچنے کے لئے میں نے پہلا مصرع اس طرح کر کے دیکھا تھا ع
بولے گل‘ نالۂ دل ‘سلسلۂ دودِ چراغ
کیونکہ اس میں ایک بات یہ بھی پیدا ہوتی ہے کہ دھواں باہر زنجیر کی صورت نکلتا ہے‘ سیدھا نہیں۔ بہر حال‘ میں اسے اپنی خوش فعلیوں ہی میں شمار کرتا ہوں۔ خدا مجھے اور سلیم احمد دونوں کو معاف فرمائے! ریکارڈ کی اس درستی کا ثواب شکیل عادل زادہ صاحب کو بھی ضرور پہنچے، آمین!
بہر حال‘ میں سلیم احمد کی طرح ”غالب کون؟‘‘ کی حد تک نہیں گیا اور نہ ہی ڈاکٹر انیس ناگی مرحوم کی طرح جن کی تصنیف ِ لطیف ”غالبؔ ایک اداکار‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکی ہے اور معافی کی یہ درخواست ان کے لئے بھی ہے!
اسی روز علی اکبر ناطق کا فون بھی آیا تھا‘ جو اپنے آبائی شہر اوکاڑہ آئے ہوئے تھے اور بتا رہے تھے کہ روزے رکھنے سے مسعود احمد کی صحت اب بہتر ہو رہی ہے‘ میں نے کہا تھا کہ وہ باقی پوری عمر لگاتار روزے رکھیں‘ تو ان کے لئے مزید بہتر ہو گا۔
آج کا مطلع
ساتھ ہوتا ہے‘ ملاقات کرے یا نہ کرے
گفتگو رہتی ہے‘ وہ بات کرے یا نہ کرے