سرخیاں، متن، ٹوٹا اور شعر و شاعری…ظفر اقبال
کاغذات نامزدگی پر پارلیمنٹ کہاں کھڑی اور ملک
کے باقی ستون کہاں ہیں:نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”کاغذات نامزدگی پر پارلیمنٹ کہاں کھڑی اور ملک کے باقی ستون کہاں ہیں‘‘۔ ہاں یاد آ گیا کہ پارلیمنٹ کھڑے ہونا تو درکنار کہیں بیٹھی یا لیٹی ہوئی بھی نہیں نظر آتی، البتہ باقی ستون کہاں گئے۔ اس کا کھوج لگانے کے لیے اپنے آدمی دوڑا دیئے ہیں کہ اگر کہیں ملیں تو آ کر بتائیں اور یہی وجہ ہے کہ کچھ دنوں سے میں دو ستونوں کے بارے میں گل افشانی بھی نہیں کر رہا۔ ایک ستون بہت جلد ظاہر ہو گا اور مجھ غریب کو کیفر کردار تک پہنچائے گا حالانکہ میں اب کسی کا کیا لیتا ہوں اور پہلے بھی ملک ہی کا لیا تھا کہ آخر میں اس کا شہری نہیں ہوں اور اس پر میرا کوئی حق نہیں ہے، ہیں جی؟ رات کو بُرے بُرے خواب آ رہے ہیں اور جب میں پہلے اندر ہوا تھا تو اس وقت بھی بُرے بُرے خواب آیا کرتے تھے۔ حالانکہ اندر یا باہر ہونے سے بُرے خوابوں کا کیا تعلق ہے اور انہی بدخوابیوں کی وجہ سے میں نے عدلیہ کے خلاف بیان بھی دینا طوعاً و کراً بند کر دیئے ہیں۔ آپ احتساب عدالت سے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کالا باغ ڈیم کی بحث فیڈریشن سے کھیلنے کے مترادف ہے: خورشید شاہ
سابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ”کالا باغ ڈیم کی بحث فیڈریشن سے کھیلنے کے مترادف ہے‘‘ حالانکہ فیڈریشن سے کھیلنے کے لیے ہم خود ہی کافی تھے، کسی اور کو یہ تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ کرپشن، ملک سے پانی کا ختم ہونا اور ڈیموں کا نہ بننا بجائے خود فیڈریشن سے کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے، نیز ملک کھربوں کے قرضے میں ڈوب چکا ہے اور کسی وقت بھی دیوالیہ ڈکلیئر ہو سکتا ہے، اس کے بعد فیڈریشن کی باتیں کرنا بھیایک مذاق سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پنجاب میں پیپلز پارٹی رزلٹ دکھائے گی اور حکومت بنائے گی‘‘ حکومت تو وہ پنجاب میں پچھلی بار بھی بنا لیتی، صرف رزلٹ دکھانے کی کسر رہ گئی تھی، تاہم اس دفعہ رزلٹ پورا دکھائے گی کہ کتنے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں اور کتنے ہارے ہیں اور کتنے ہارتے ہوئے بچے ہیں۔ آپ اگلے روز سکھر میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھٹو ہی پاکستان اور جمہوریت کا دفاع کر سکتا ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”بھٹو ہی پاکستان اور جمہوریت کا دفاع کر سکتا ہے‘‘۔ اگرچہ میں بھٹو کے ساتھ ساتھ زرداری ہوں اس لیے یہ بات کچھ مشکوک سی لگتی ہے۔ اس کے علاوہ نامی گرامی انکلوں کی سبز قدمی بھی لازماً شاملِ حال رہے گی جو اپنا دفاع تو کر نہیں سکتے۔ ملک اور جمہوریت کا دفاع کیا کریں گے۔ اگر زرداری صاحب کو پانچ سال کے لیے اقتدار ملا تھا، بلکہ انہوں نے اپنی ذہنی توانائی کی وجہ سے حاصل کیا تھا، کیونکہ وصیت کی دستاویز تیار کروانا کوئی معمولی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”پارلیمانی سیاست میں بھٹو ہو گا تو پاکستان کا دفاع بہتر ہو گا‘‘ اسی لیے پوسٹروں اور اشتہاروں سے پاپا جانی کی تصویر ہٹا دی گئی ہے اور اگر وہ میری ہمدردی رکھتے ہیں تو جلسوں میں شرکت سے بھی احتراز کیا کریں گے۔ آپ اگلے روز حلقہ لیاری سے کاغذات نامزدگی جمع کرا رہے تھے۔
الیکشن ہارنے کی تیاری؟
ہمارے دوست اور دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن الیکشن ہارنے یک تیاری کر رہی ہے۔ ہماری ناقص رائے میں اسے اس سلسلے میں کسی خاص تیاری کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ الیکشن سے پہلے اس کی قیادت اور متعدد معتبرین جیل جا چکے ہوں گے اور باقی جن کے خلاف تحقیقات مکمل ہو چکی ہوں گی وہ جیل جانے کی تیاریوں میں ہوں گے۔ اس صورت حال میں اس کے پاس جبکہ مزید پکڑ دھکڑزوروں پر ہو گی، ماسوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ الیکشن کا بائیکاٹ کر کے اپنی رہی سہی عزت بچانے کی کوشش کرے جبکہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا زخم بھی ابھی تازہ تازہ ہو گا، تاہم اس کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرانے کا بھی مقصد پورا نہیں ہو گا کیونکہ مارشل لاء لگوا کر سیاسی شہید بننے کا تو اسے موقع نہیں ملے، یہاں بھی اس کے ہاتھ خالی ہی ہوں گے۔ مزید یہ کہ لاتعداد پنچھی سزا یابیوں کے بعد ویسے بھی اڑانیں بھر چکے ہوں گے، ہیں جی؟
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے!
تمہی کو بھاگنا ہو گا اٹھا کے زنجیریں
ہمیں تو جانا نہیں اپنی سر زمین سے کہیں
سمیٹو درد کے ٹکڑے، بکھر نہ جائے یہ گھر
ظفرؔ ہماری تمہاری نہیں نہیں سے کہیں (صابر ظفرؔ)
جب میرے سر سے سائبان گیا
یوں لگا جیسے آسمان گیا
جانے کیسی ہوا تھی ہاتھوں میں
خاک چھانی تو خاکدان گیا
جب ہوا سے دیا بجھا گوہرؔ
میرا اپنی طرف بھی دھیان گیا (افضل گوہر)
نظر چرا کے کہا بس یہی مقدر تھا
بچھڑنے والے نے ملبہ خدا پہ ڈال دیا (زبیر قیصر)
ابھرتا گیا مجھ میں وہ لمحہ لمحہ
میں تحلیل ہوتی گئی دھیرے دھیرے (بلقیس خان)
یہ اور بات کرے دل میں گھر نہیں کروں گا
پر اس مقام سے آگے سفر نہیں کروں گا (ابھیشیک شکلا)
یہ تعلق بھی کیا تعلق ہے
فرق تجھ کو کوئی پڑا نہ مجھے (عبدالرحمن واصف)
اس لیے بھی مجھے پھینکا نہ گیا
اس کے سامان میں آیا ہوا ہوں (امرؔ روحانی)
پیڑ بھی شاید نہ اب باقی رہے
آندھیوں میں آشیانہ تو گیا (جاناں ملک)
آج کا مقطع
شعر میرا مسافر ہے ، اس کو ، ظفر
آخر اک دن کہیں پر ٹھہرنا تو ہے