سرخیاں، متن اور اس ہفتے کی غزل…ظفر اقبال
احتساب کو انتقام بنا کر کسی کی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”احتساب کو انتقام بنا کر کسی کی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی‘‘ کیونکہ اگر کسی کی سیاست پہلے ہی ختم ہو رہی ہو تو اسے مزید ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے اور جتنے مقدمات میرے خلاف زیر تفتیش ہیں‘ اس کے بعد سیاست کا نام لینا بھی ذہنی عیاشی کے سوا اور کچھ نہیں‘ جبکہ اب ویسے بھی صرف ذہنی عیاشی ہی باقی رہ گئی ہے‘ اصل عیاشی تو اب قصۂ ماضی ہو کر ہی رہ گئی ہے اور رہی سہی کسر جیل نے پوری کر دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”وزیراعظم کی چیئر مین نیب سے ملاقات سمجھ سے بالاتر ہے‘‘ کیونکہ ہمارے دور میں تو چیئر مین نیب سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وزیراعظم سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”مشکلات جگانے آتی ہیں‘‘ اور ہم حقیقی طور پر خواب خرگوش سے بیدار ہو چکے ہیں‘ جبکہ خرگوش خود بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز سے گفتگو کر رہے تھے۔
منصب مل جاتے ہیں‘ منزل ملنا ضروری ہے: فضل الرحمن
جے یو آئی (ایف) کے سربراہ اور صدارتی امیدوار نے کہا ہے ”منصب مل جاتے ہیں‘ منزل ملنا ضروری ہے‘‘ بلکہ ابھی تو منصب ملنے کے ہی لالے پڑے ہوئے ہیں اور جدھر بھی جاتا ہوں‘ ٹکا سا جواب مل جاتا ہے یا زیادہ مغز ماری کا مظاہرہ کیا گیا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ مشاورت کے بعد جواب دیں گے‘ جبکہ یہ سیدھا سیدھا فراڈ ہے اور وہ بھی میرے جیسے شخص سے لگایا جا رہا ہے۔ جو خود یہ ساری گھاٹیاں عبور کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم مل جُل کر جمہوری سفر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ میرے تن و توش سے میری رفتار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے میرا اس سفر میں ساتھ ساتھ چلنا کسی قدر مشکل ہوگا۔ اس لیے ہم سفروں سے توقع ہے کہ مجھے بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”اب تک ہم آزادی کے اصل مقاصد حاصل نہیں کر سکے‘‘ بلکہ نقلی مقاصد پر ہی گزارہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مسلم لیگ عوامی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی: میاں بشیر بیکری والا
شیخوپورہ کے سٹی نائب صدر ن لیگ میاں بشیر احمد بیکری والا نے کہا ہے کہ ”مسلم لیگ عوامی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی‘‘ کیونکہ الیکشن ہار کر وہ لاغر ہی اتنی ہو گئی ہے کہ اس میں خواہش کے باوجود سمجھوتہ کرنے کی سکت بھی نہیں ہے‘ حالانکہ بیکری سے کیک اور پیسٹریاں کھا کھا کر یہ خاصی تگڑی ہو گئی تھی اور بیکری بھی خوب چل نکلی تھی ‘لیکن اب لگتا ہے کہ الیکشن کی شکست نے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوام کے کندھوں سے مسائل کا بوجھ اتار کر ان کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا مشن رہا ہے‘‘ لیکن ہمارے قائدین کا اپنا بوجھ ہی اتنا زیادہ تھا کہ عوام تقریباً کیڑے ہو کر رہ گئے ہیں اور اب تو ان کیڑوں کو کوئی لات بھی راس نہیں آ رہی ‘حالانکہ یہ جماعت باتوں کی نہیں‘ بلکہ لاتوں کی بھوت ہے‘ بلکہ اب تو باقاعدہ جن کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آپ اگلے روز شہر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کا ہر ایکشن انہیں کٹھ پتلی ثابت کر رہا ہے: عبدالرئوف
گوجرانوالہ میں نواز لیگ کے سٹی صدر و رکن صوبائی اسمبلی حاجی عبدالرئوف مغل نے کہا ہے کہ ”عمران خان کا ہر ایکشن انہیں کٹھ پتلی ثابت کر رہا ہے‘‘ اگرچہ پتا مجھے بھی نہیں ہے کہ کٹھ پتلی کیا ہوتی ہے‘ لیکن چونکہ ہمارے قائدین بھی عمران خان کے لیے یہی لفظ استعمال کیا کرتے ہیں‘ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضرور کوئی خطرناک چیز ہوتی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شریف اور مریم نواز کو جیل بھیج کر دھاندلی کا منصوبہ مکمل کیا گیا ‘‘ ورنہ انہوں نے دھاندلی نہیں ہونے دینی تھی‘ کیونکہ میاں صاحب خود دھاندلی کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں ‘اس لیے وہ اس کے جملہ اسرار و رموز کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ محض اقتدار کے حصول کے لیے تھا‘‘ جبکہ مسلم لیگ ن ہمیشہ عبادت سمجھ کر سیاست کرتی رہی ہے اور جس کے نتیجے میں وہ اپنی اور اہل خاندان کی عاقبت پوری طرح سنوار چکے ہیں اور ان کی عاقبت اب انہیں سنوار رہی ہے۔ آپ اگلے روز سٹی سیکرٹریٹ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
بھلے ہی دل کو لاچاری بہت ہے
ترے ہونے کی سرشاری بہت ہے
محبت ہے مری صحت کا باعث
لگی ہے جو یہ بیماری بہت ہے
رواں ہیں سربسر جھوٹی امیدیں
یہ چشمہ آج کل جاری بہت ہے
ترے انصاف کے چرچے بہت ہیں
مگر اس میں طرفداری بہت ہے
یہ ہو گا یا نہیں‘ اللہ جانے
مگر کرنے کی تیاری بہت ہے
کمینے ہیں سبھی ماتحت اپنے
مجھے اتنی ہی سرداری بہت ہے
نہ سودا ہے نہ گاہک ہے کہیں پر
ہوس کی گرم بازاری بہت ہے
اٹھا رکھا ہے میں نے آسماں کو
زمیں میرے لیے بھاری بہت ہے
کوئی آساں نہیں عزت کمانا
کہ اس میں بھی ظفرؔ‘ خواری بہت ہے
آج کا مقطع
چھوڑتا بھی نہیں وہ جان‘ ظفرؔ
جان اپنی بھی چھڑاتا نہیں وہ