سرخیاں، متن اور تازہ غزل….ظفر اقبال
جو کچھ مارشل لاء میں نہیں ہوا اب ہو رہا ہے : نواز شریف
مستقل نااہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”جو کچھ مارشل لاء میں نہیں ہوا اب ہو رہا ہے‘‘ اسی لئے خاکسار نے یہ اودھم مچا رکھا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ مارشل لاء لگانے والوں نے شاید بھنگ پی رکھی ہے کہ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا۔ میرا خیال ہے کہ ملک میں بھنگ کی پیداوار اور فروخت پر پابندی لگا دینی چاہیے، شاید اسی وجہ سے مجھے نااہل کر دیا گیا کہ میں کہیں بھنگ پر پابندی نہ لگا دوں اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ سول حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا اور 70 سال سے یہ تماشا لگا ہوا ہے اور ووٹ کی قدر و قیمت صفر ہو کر رہ گئی ہے اور اگر میری نااہلی واقعی برقرار رہتی ہے تو بتائیے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ ”عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے ‘‘ جبکہ ایک منتخب وزیر اعظم کو ہمیشہ کیلئے نااہل کر دینا کوئی انصاف نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
میری صحت کا راز یہ ہے کہ روزانہ دو کلو گالیاں کھاتا ہوں: نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ”میری صحت کا راز یہ ہے کہ روزانہ دو کلو گالیاں کھاتا ہوں‘‘ بلکہ میں نے تو اپنے جگری دوست نواز شریف کو بھی افزائے صحت کیلئے یہی نسخہ بتایا تھا لیکن انہوں نے خود گالیاں کھانے کی بجائے اداروں کو نشانے پر لے لیا ہے، دراصل انہیں بات کی سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ اب کافی عرصہ گزرنے کے بعد انہیں سمجھ آ گئی ہو گی، تاہم اگر وہاں کے عوام انہیں دل ہی دل میں ایسا کرتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے۔ اس لئے امید ہے کہ ریفرنسز کے فیصلوں کے بعد وہاں کے عوام دل کی باتیں زبان پر بھی لانا شروع کر دیں گے جہاں سے ان کی صحت میں بہتری کا باقاعدہ آغاز ہوگا جبکہ اداروں کو گالیاں دینے سے ان کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ گالیاں کھا کھا کر وہ ادارے مزید صحتمند ہو گئے ہیں اور اسی سے میرے نسخے کی تائید ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک تقریب کے دوران ایک نوجوان کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
ہمیں ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے: طلال چودھری
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ ”ہمیں ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے ‘‘ حالانکہ یہ ایک نہایت آسان کام تھا جس کیلئے کسی سازش کی ضرورت ہی نہیں تھی اور سازش کرنے والوں نے محض اپنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ وقت ضائع کرنے والی قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ علاوہ ازیں جہاں تک ہمیں دیوار سے لگانے کا تعلق ہے تو وہ بھی صحیح نہیں کیا گیا اور ہمیں اس دیوار سے لگایا گیا ہے جس پر ہمارا نوشتہ تھا اور اب ہمارے دیوار سے لگنے کا پہلا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب نوشتہ دیوار کو پڑھ ہی نہیں سکتا، اس لئے دیوار پر لکھنے والوں کو چاہیے کہ اس نوشتے کیلئے کسی اور دیوار کو منتخب کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھ کر عبرت حاصل کر سکیں کہ ویسے بھی اب ہمارے پاس کچھ حاصل کرنے کیلئے خالی عبرت ہی رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز جڑانوالہ میں معززین حلقہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
کیا سارے سیاستدان چور ہیں ؟ یہ
حالات بھی جھیل جائوں گا: سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ”کیا سارے سیاستدان چور ہیں ؟ یہ حالات بھی جھیل جائوں گا‘‘ جبکہ میں چار پانچ ایسے سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو چور نہیں ہیں اگرچہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کچھ زیادہ پسند نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ چوری وہ کرنے سے گھبراتا ہے جو پرلے درجے کا بزدل ہو اور مجھے بزدل لوگ ہرگز اچھے نہیں لگتے جبکہ میں اپنے قائدین کی طرح خاصا بہادر آدمی ہوں اور جو کچھ بھی کیا ہے پوری دلیری کے ساتھ کیا ہے کیونکہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ اگرچہ کسی گیدڑ کو سو سالہ زندگی بسر کرتے نہیں دیکھا گیا اور جہاں تک جھیلنے کا تعلق ہے تو جو کچھ ہمارے قائد کو جھیلنا پڑے گا ہم سب بھی ان کے ساتھ ایک ہی جگہ جھیل رہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”اس لڑائی میں کوئی نہیں جیت سکتا، ماسوائے نیب کے ۔ جو اب تک ہمارے ہاتھوں ہارتی چلی آتی رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ریلوے میوزیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں یہ تازہ غزل:
تری امید ترے انتظار میں گم ہے
یہ وہ سفر ہے کہ جو راہگزار میں گم ہے
تری خبر کا پتا بھی نہیں رہا کب سے
تری خوشی بھی دل سوگوار میں گم ہے
مجھے بھی تیری توجہ کی جستجو ہے بہت
تلاش کر، یہ تیرے اختیار میں گم ہے
قبولیت کا اشارہ ملا ہوا تھا جسے
وہ آرزو ابھی پایان کار میں گم ہے
وہ خواب جو مجھے آیا نہیں دوبارہ کبھی
یہ لگ رہا ہے کہ اپنے مدار میں گم ہے
کوئی عقب کی ہوا ہے چلی ہوئی کب سے
سو میرا قافلہ گردو غبار میں گم ہے
نہ اس کنارے پہ ہے اور نہ اس کنارے پر
کہ جانے والا کہیں آر پار میں گم ہے
وہ آفتاب محبت جو مجھ سے دور نہیں
یہیں کہیں مرے لیل و نہار میں گم ہے
ظفرؔ کبھی تری محفل میں باریاب نہ تھا
اور اب وہ تیرے شمار و قطار میں گم ہے
آج کا مقطع
سکندر نے ظفرؔ، مرکر تہی دستی کی تب کی تھی نمائش
یہاں لاکھوں، کروڑوں زندہ انسانوں کے دونوں ہاتھ خالی ہیں