سرخیاں، متن اور تازہ غزل…..ظفر اقبال
پاکستان‘ زرداری کی لوٹ مار‘ عمران کے
دھرنوں کے لئے نہیں بنا: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”پاکستان ‘زرداری کی لوٹ مار اور عمران کے دھرنوں کے لئے نہیں بنا‘‘ جبکہ زرداری تو سلیقے سے لوٹ مار بھی نہیں کر سکتے اور پکڑے بھی جاتے ہیں اور ہم ماشاء اللہ کبھی نہیں پکڑے گئے اور 35 سال کے بعد اب جا کر نیب نے کروٹ بدلی ہے اور خلاف ِ معمول ہماری پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے اور اگر برخوردار حسین نواز الحمد للہ یہ سمجھتے‘ تو یہ نوبت بھی نہیں آنی تھی جبکہ اسے پتا ہی نہیں تھا کہ یہ الحمد للہ‘ انا للہ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پنجاب کی بیورو کریسی ایماندار اور محنتی ہے‘‘ کیونکہ اگر حکومت ایماندار اور محنتی نہ ہو تو بیورو کریسی کیسے بے ایمان ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہماری ایمانداری میں کوئی شک و شبہ ہو سکتا ہے‘ محنت میں نہیں کیونکہ محنت کے بغیر خدمت کے اتنے انبار کیسے لگائے جا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”نیب آئینی ادارہ ہے‘ جسے چاہے بلا سکتا ہے‘‘ اگرچہ چند ماہ سے یہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی آئینی ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز مظفر گڑھ میں ہسپتال کے توسیعی منصوبے کا افتتاح کر رہے تھے۔
عمران صرف نعرے لگاتے ہیں‘ ہمارا منشور غریبوں کی بھلائی ہے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”عمران صرف نعرے لگاتے ہیں‘ ہمارا منشور غریبوں کی بھلائی ہے‘‘ جبکہ ہمارے دور میں والد صاحب اور انکل گیلانی سمیت ہر رہنما نے اپنی اپنی بھلائی کے ریکارڈ قائم کئے کیونکہ یہ دل کے بہت غریب تھے اور اسی لیے دن رات کی مصروفیت کے بعد منشور پر بھی عمل نہ ہو سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ ہمیں دوبارہ لگانا پڑ گیا ہے اور اگر مذکورہ بالا معززین کو اپنی اپنی غربت کی بھلائی سے کچھ وقت مل گیا‘ تو منشور پر بھی توجہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران جہاں جاتے ہیں‘ نئے نعرے اور نئے نکات کا اعلان کرتے ہیں‘‘ جبکہ ہمارا ایک ہی نعرہ اور ایک ہی نکتہ ہے‘ جسے ساری دنیا جانتی ہے اور جس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور نعرے اور نکتے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ آپ اگلے روز کراچی میں صوابی قیادت کو بریفنگ دے رہے تھے۔
اشارے نہیں‘عوام کے سہارے سے
بر سر اقتدار آئیں گے: چوہدری سرور
تحریک انصاف کے سینیٹر چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ ”اشارے نہیں‘ عوام کے سہارے سے بر سر اقتدار آئیں گے‘‘ کیونکہ اشارے کا ہمیں پہلے ہی بڑا تلخ تجربہ ہے‘ جس کا ہم آخر تک انتظار کرتے رہے‘ لیکن انگلی‘ امپائر کی جیب ہی میں رہی اور باہر نکلی ہی نہیں اور مومن چونکہ ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسا نہیں جا سکتا اور ہمارے ہاں تو روحانیت کے غلبے کے بعد اب ہمارے مومن ہونے میں بھی کوئی کسر نہیں رہ گئی‘ اس لئے ہم اشارے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”ن لیگ کو کرپشن نے تباہ کیا‘‘ جبکہ ہم کرپشن سے تباہ ہونے کی بجائے کئی اور طریقے آزمائیں گے اور اس طرح یہ نیک مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”عوامی خدمت کرنے والا ان کا ساتھ نہیں دے گا‘‘ اگرچہ خدمت کا لفظ کافی بدنام ہو چکا ہے ‘اس لئے ہم بھی اس لفظ کے استعمال سے پرہیز ہی کریں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران ہوش کے ناخن لیں‘خیبرپختونخوا
کے عوام سے معافی مانگیں: حمزہ شہباز
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”عمران ہوش کے ناخن لیں‘ خیبرپختونخوا کے عوام سے معافی مانگیں‘‘ ورنہ ہم اس وقت تک پنجاب کے عوام سے معافی نہیں مانگیں گے اگرچہ ہمارے کارہائے نمایاں و خفیہ ان سے کہیں زیادہ ہیں بلکہ جو خفیہ تھے‘ وہ بھی اب روز بروز کافی نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور شاید عوام سے معافی مانگنے کی نوبت ہی نہ آئے اور اس سے پہلے ہی دھر لیے جائیں کیونکہ اگر جھاڑو ہی پھرنے والا ہو‘ تو ہم اس کے آگے کیا چیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”اداروں کی مضبوطی میں وقت لگے گا‘‘ اس لیے جتنے سال انہیں بگاڑنے میں لگے ہیں‘ ان کی مضبوطی میں بھی کم از کم اتنے ہی سال لگیں گے‘ البتہ نیب سمیت جو ادارے کچھ ضرورت سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں انہیں کمزور کرنے کے لئے بھی کافی وقت درکار ہو گا ‘جس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ پانی ابھی سے پلوں کے نیچے سے کافی بہہ چکا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں انسٹیٹیوٹ آف نیشنل ہیلتھ کا دورہ کر رہے تھے۔
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
رخنہ سا کوئی جیسے روانی میں آ گیا
کردار اک نیا جو کہانی میں آ گیا
وہ حالتِ دوام نہ تھی راس ہی مجھے
میں آپ اُٹھ کے عالمِ فانی میں آ گیا
محفوظ رہ سکا نہیں پورا حسابِ دل
آدھا لکھا تو آدھا زبانی میں آ گیا
آخر ہوئی تو ان کی توجہ بہت ہوئی
جو رائیگاں تھا کیسی گرانی میں آ گیا
چھوڑا نہیں وہاں در و دیوار نے ہمیں
ساماں تو سارا نقل مکانی میں آ گیا
بدلا تو پھر بدلتا گیا گفتگو کا رنگ
کوئی نیا سلیقہ پرانی میں آ گیا
کچھ تازہ تر تھے اس کے بھی سارے لوازمات
کچھ میں بھی اپنے عہد جوانی میں آ گیا
الفاظ میں بکھرتے گئے اور اس کے ساتھ
کچھ فرق رفتہ رفتہ معافی میں آ گیا
ایسا ہوا کہ رکنے لگی سانس بھی‘ ظفرؔ
تھوڑا دھواں بھی شعلہ بیانی میں آ گیا
آج کا مقطع
وعدے ہیں‘ امیدیں ہیں‘ ظفرؔ‘ اور دلاسے
وافر ہیں سب اشیائ‘ تہی داماں تو نہیں ہم