سرخیاں، متن اور تازہ غزل….ظفر اقبال
امی‘ ابو اور بہن کا پوچھتی ہیں‘ ہم بتاتے نہیں: حسین نواز
مستقل نا اہل‘ سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مفرور بیٹے حسین نواز نے کہا ہے کہ ”امی‘ ابو اور بہن کا پوچھتی ہیں‘ ہم بتاتے نہیں‘‘ اب انہیں کیا بتائیں کہ وہ دونوں‘ بلکہ تینوں کرپشن ثابت ہونے پر اندر ہو گئے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے جو آنکھیں کھولی ہیں‘ یہ خبر سننے کے بعد دوبارہ بند ہو جائیں گی‘ بلکہ کچھ عرصہ بعد میرے اور حسن نواز کے بارے میں پوچھیں گی‘ تو بھی انہیں کچھ بھی بتایا نہ جا سکے گا کہ ہم بھی گرفتار ہیں اور لندن کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئی ہیں‘ جو ہم پہلے ہی ٹھکانے لگا چکے ہیں‘ الحمد للہ! انہوں نے کہا کہ ”امی نے ابو اور بہن کے جاتے ہی آنکھیں کھول لی تھیں‘‘ اور وہ اگر پہلے چلے جاتے تو پہلے کھول لیتیں‘ تاہم ڈر ہے کہ کوئی چغل خور انہیں ابو اور بہن کے بارے میں بتا نہ دیں‘ کیونکہ کچھ عرصے بعد تو انہیں کچھ بتانے کے لیے ہم بھی وہاں موجود نہیں ہوں گے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تبدیلی کے نام پر عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا: پرویز ملک
مسلم لیگ نواز لاہور کے رہنما پرویز ملک نے کہا ہے کہ ”تبدیلی کے نام پر عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا‘‘ جبکہ ہمیں مینڈیٹ کی چوری پر اعتراض نہیں‘ کیونکہ اسے اب تک تو ہم بھی چوری کرتے آئے ہیں‘ ہمیں اعتراض صرف یہ ہے کہ اسے تبدیلی کے نام پر چوری کیا گیا‘ کیونکہ یہی وہ لفظ ہے‘ جس سے ہمیں چڑ ہے کہ ہم تو سٹیٹس کو کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”انتخابات 2018ء نے ثابت کر دیا کہ نواز شریف آج بھی ان کے محبوب لیڈر ہیں‘‘ البتہ اسی محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنا ووٹ غلط جگہ ڈالتے رہے کہ محبت تو ویسے بھی اندھی ہوتی ہے ‘بلکہ ساون کی اندھی ہوتی ہے‘ جسے ہر طرف ہرا ہی نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے پاکستان کا مفاد سامنے رکھتے ہوئے عقل سے کام لیا‘‘ اور پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے پر خاموش رہے جیسا کہ ہمارے قائد کو بھی ہمیشہ پاکستان کا مفاد ہی عزیز رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو ترقی کی راہ پر چلانا‘ ن لیگ کا کارنامہ ہے: رانا تنویر
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور نو منتخب رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ”ملک کو مسائل سے نکال کر ترقی کی راہ پر چلانا‘ ن لیگ کا کارنامہ ہے‘‘ اور ترقی چونکہ کرپشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ‘اسی لیے اس ترقی کی پاداش میں ہمارے قائد سلاخوں کے پیچھے ہیں؛اگرچہ یہ ترقی بھی زیادہ تر اشتہارات کی شکل میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ”ووٹ نواز شریف کو ملے‘ فاتح عمران خان ٹھہرے ‘‘ اس لیے اگر نواز شریف کو ووٹ کم پڑتے ‘تو عمران خان ہار جاتے‘ کیونکہ ن لیگ کی بدہضمی بھی انہیں زیادہ ووٹوں کی وجہ سے ہی ہوئی ہے اور اگر نواز شریف والی پھکی استعمال کر لی جاتی تو اس بدہضمی سے بچا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”ن لیگ کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی سازش جاری ہے‘‘ حالانکہ یہ شب خون مارنے کی بجائے اسے ویسے بھی شکست سے دو چار کیا جا سکتا تھا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں این اے 120 پر کامیابی کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری اور فریال کے خلاف کارروائی
سیاسی انتقام ہے: پیپلز پارٹی سندھ
پیپلز پارٹی سندھ نے زرداری اور فریال تالپور کے خلاف کارروائی کے بارے کہا ہے کہ ”یہ سیاسی انتقام ہے‘‘ حالانکہ اگر انتقام ہی لینا تھا‘ تو ان دونوں کے علاوہ بھی کئی معززین ایسے موجود ہیں اور جن کے خلاف پورا پورا مواد بھی موجود ہے‘ کارروائی ہو سکتی تھی‘ جن میں زرداری صاحب کے متعدد فرنٹ مین بھی شامل ہیں‘ جبکہ زرداری صاحب کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے تو جیل دیکھی ہوئی ہے‘ بلکہ اس کا دس سالہ تجربہ بھی ہے‘ جس کی بناء پر ایک زرداری سب پر بھاری کہا جاتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ”پیپلز پارٹی کو سندھ سے جیتنے کی سزا دی جا رہی ہے‘‘ حالانکہ سندھ کے عوام کے لیے پیپلز پارٹی کا جیتنا ہی بہت بڑی سزا ہے ‘کیونکہ اس نے وہی کام پورے زور و شور سے کرنے ہیں‘ جن کی بناء پر یہ انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں‘ کیونکہ پارٹی کو یہ ایک ہی کام آتا ہے اور اگر اسے یہ بھی کرنے نہ دیا جائے‘ تو اس سے بڑی زیادتی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
رخنہ سا جیسے کوئی روانی میں آ گیا
کردار اک نیا جو کہانی میں آ گیا
وہ حالتِ دوام نہ تھی راس ہی مجھے
میں آپ اُٹھ کے عالمِ فانی میں آ گیا
محفوظ رہ سکا نہیں پورا حسابِ دل
آدھا لکھا تو آدھا زبانی میں آ گیا
چھوڑا نہیں وہاں در و دیوار نے ہمیں
ساماں تو سارا نقل مکانی میں آ گیا
یا راستہ ہی اور کیا میں نے اختیار
یا فرق تیرے گھر کی نشانی میں آ گیا
آخر ہوئی تو ان کی توجہ بہت ہوئی
جو رائیگاں تھا کیسی گرانی میں آ گیا
کچھ تازہ تر تھے اس کے بھی سارے لوازمات
کچھ میں بھی اپنے عہدِ جوانی میں آ گیا
الفاظ کچھ بکھرتے گئے اور اس کے ساتھ
کچھ ربط رفتہ رفتہ معانی میں آ گیا
ایسا ہوا کہ سانس بھی رکنے لگی‘ ظفرؔ
تھوڑا دھواں جو شعلہ بیان میں آ گیا
آج کامطلع
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہوا تُو