سرخیاں، متن اور ریکارڈ کی درستی…ظفر اقبال
عوام کی پسند کی بجائے مطلب کے حکمران
ڈھونڈنا ووٹ کی توہین ہے: نواز شریف
تاحیات نااہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”عوام کی پسند کی بجائے مطلب کے حکمران ڈھونڈنا ووٹ کی توہین ہے ‘‘البتہ مطلب کے جج ڈھونڈنا ہی ووٹ کی اصل عزت ہے اسی لئے ملک قیوم جیسے بااصول ججوں کی تلاش جاری ہے جبکہ کرپشن وہ کام ہے جو کئی برسوں سے عوام کے سامنے کیا جا رہا ہے اور انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا تو اعتراض کرنے والے اور لوگ کون ہوتے ہیں ، ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ ”ملک میں بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں ‘‘ بس ذرا کارکنوں کو کال دینے کی دیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ووٹ کی عزت بحال نہ ہوئی تو پاکستان گرداب میں پھنسا رہے گا‘‘ جبکہ ووٹ کی اصل عزت یہ ہے کہ وفاق کے منتخب کردہ وزیر اعظم کو کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سمیت سب کچھ کرنے دیا جائے جس کے بغیر ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں’ ووٹ کو عزت دو‘ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
محنت سے کام کریں گے تو نیب آپ کا
کچھ نہیں بگاڑ سکے گی: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”محنت سے کام کریں گے تو نیب آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی‘‘ جیسا کہ ہم نے ماشا ء اللہ ساری کمائی شبانہ روز محنت سے کی ہے اگرچہ نیب کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں لیکن ماسوائے فروخت کے اور ہمارا کیا بگاڑا جا سکتا ہے جبکہ کسی بھی پسندیدہ ملک میں جا کر قابل رشک زندگی گزاریں گے۔ نہ صرف ہم بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی ،اس لئے کیا آپ اسے گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے اب تک جو بادشاہی اور آپ لوگوں نے جو افسری کی ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ، اور کیا آپ نے نے سنا ہوا نہیں کہ
بابر بہ عیش کو ش کہ عالم دوبارہ نیست
کیونکہ بابر صاحب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا اور انہوں نے بھی اپنی بقایا زندگی کسی پرائے ملک جا کر بڑے ٹھاٹھ سے گزاری تھی۔ آپ اگلے روزایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
حال ہی میں کراچی سے شائع ہونے والے میرے مجموعہ غزل ”تاخیر‘‘ کا وہاں کے ایک اخبار (میں کالم نگار جناب فیض عالم بابر نے تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے مجھے جدید اردو غزل کا امام اور اپنا مرشد مانتے ہوئے یہ سب کچھ کیا ہے اور مجھے یہ اور بھی اچھا لگا ہے کہ خطائے بزرگاں گرفتن ہرگز خطا نہیں ہے۔ سب سے پہلے انہوںنے لکھا ہے کہ اہل زبان اور لسانیات کے ماہرین کے نزدیک وہاں (اُدھر ) جہاں (جدھر) کہاں (کدھر)وغیرہ جیسے الفاظ کے ساتھ پر یا پہ کا استقبال معیوب ہے۔ ظفر اقبال کی کتاب میں چودہ شمار ایسے ہیں جن میں یہاں ، وہاں وغیرہ کے ساتھ پر ”یا‘‘ ”پہ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔
اہل زبان کا کہا سرآنکھوں پر، لیکن ہم یہاں ایک عرصے سے اپنی گفتگو بلکہ تحریر میں بھی اسے روا رکھتے ہیں اور اگر یہ غلط بھی ہے تو چونکہ غلط العام ہو چکا ہے اس لئے صحیح ہے۔ وہ اسے بجا طور پر حشو کہتے ہیں جبکہ کچھ اشعار میں ”یہ‘‘ کے استعمال کو حشو کے زمرے میں لائے ہیں۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ یہ شاعری ہے ‘ نثر نہیں اور اسے شاعری ہی کے طور پر پڑھنا چاہئے جس میں نثر کے جملوں کی طرح شعر کے مصرعوں میں وہ چستی اور کسی کسائی صورتحال کا برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر ضرورتِ شعری بھی کوئی چیز ہے۔ تاہم مصرع میں فالتو لفظ کے میں بھی حق میں نہیں ہوں۔ ایک مصرع میں انہوں ”باد صبا‘‘ پر بھی یہ اعتراض لگایا ہے کہ صبا خود ہوا کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں: باد صرصر اور باد ِصبا ، اور دونوں ایک دوسری کا اُلٹ ہیں جبکہ باد صبا ویسے بھی باغ سے آتی ہوئی ہوا کیلئے مخصوص ہے۔ تکنیکی طور پہ ان کا اعتراض درست ہے۔ اسی طرح کچھ مصرعوں میں ایک آدھ لفظ کو اضافی قرار دیا ہے جس کی وضاحت میں اوپر کر چکا ہوں، آپ نے یہ تین مصرعے وزن سے خارج قرار دیئے ہیں:
کبھی کبھار ہی بھول کر تیرا یاد کرنا
شریفانہ سے کچھ پیغام بھی بھیجے ہیں اس کو
عرصے کے بعد واپسی ہو رہی تھی کہیں
وزن کی غلطی تو سب کرتے ہیں‘ میں بھی کرتا ہوں اور میرے بندہ بشر ہونا کا یہ ثبوت بھی ہے۔ لیکن میری دانست میں یہ تینوں مصرعے وزن میں ہیں تاآنکہ کوئی انہیں غلط ثابت نہ کر دے، علاوہ ازیں پرندوں کے پھڑکنے ، بادل کے کڑکنے اور شیشے کے تڑکنے پر بھی اعتراض وارد کیا گیا ہے۔ پھڑکنے اور پھر پھڑانے میں فرق ضرور ہے مگر شاید اتنا نہیں۔ یہ فرق میرے ذہن میں بھی تھا لیکن یہاں یہ پھڑکنے ہی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ زخمی پرندوں کیلئے پھڑکنا الفاظ استعمال کرنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں جبکہ بادل کا کڑکنا بھی میں درست سمجھتا ہوں۔ تڑکنا البتہ پنجابی کا لفظ ہے جو تڑخنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور میں نے پنجابی الفاظ جان بوجھ کر استعمال کئے ہیں کہ اردو زبان جن زبانوں اور بولیوں سے مل کر بنی ہے ان میں پنجابی بھی شامل ہے بلکہ اردو پنجابی ہی کی ایک مصفا شکل ہے جبکہ اس مصرع میں:
میں ہی اب رہ گیا تینوں میں نہ تیروں میں‘ظفر
اس میں محاورے کے اس طرح استعمال کو غلط قرار دیا گیا ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتا، پھر مرے اس شعر:
شاخِ دل کو ہلا گئی تو ہے
کوئی تازہ ہوا چلی تو ہے
کو ناصر کاظمی کے اس شعر سے:
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
سے برتر قرار دیا گیا ہے جبکہ میں نے دل کی شاخ کے ہلنے کا ذکر کیا ہے اور ناصر کاظمی نے دل میں لہر سی اٹھنے کا؛ البتہ تازہ ہوا کا چلنا دونوں میں مشترک ضرور ہے جبکہ تاز ہ ہوا کے چلنے کا ذکر تو کئی شعرا کے ہاں مل جائے گا۔ ناصر کاظمی نے اگر اسے زیادہ خوبصورتی سے باندھا ہے تو اس کا کریڈٹ ناصر کاظمی کو ضرور ملنا چاہئے تاہم ان کا اس مصرع :
بظاہر تو ظفر یہ گھاس میری کچھ سی لگتی ہے
پر اعتراض صحیح ہے کیونکہ یہ کمپوزر یا پروف ریڈر کی غلطی ہے اور لفظ ”سی‘‘ کی جگہ ”نہیں‘‘ ہی ہے۔ البتہ کچھ اشعار میں انہیں ذم کا پہلو بھی نظر آیا ہے جو شاید کسی اور کو بھی نظر آیا ہوں تاہم میں اس نوجوان کا شکر گزار ہوں کہ اس قدر توجہ اور ژرف نگاہی انہی کا حصہ ہے۔
آج کا مقطع
تعلق جو جوڑا تھا خود ہی‘ ظفرؔ
تو پھر کس لیے بے قراری ہے یہ