سرخیاں، متن اور شعر وشاعری…ظفر اقبال
پاکستان غیر محفوظ ہاتھوں میں منتقل کیا جا رہا ہے: عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ”پاکستان غیر محفوظ ہاتھوں میں منتقل کیا جا رہا ہے‘‘کیونکہ عمران خان جیسے فقرے کے پاس نہ کوئی غیر ملکی جائیداد ہے‘ نہ اکائونٹس؛ حتیٰ کہ اس کے پاس تو اقامہ بھی نہیں ہے‘ تو ایسا قلاش شخص پاکستان کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے اور جسے باہر روپیہ بھیجنے کی بھی تمیز نہیں ہے کہ اس کے پلے روپیہ ہو تو باہر بھیجے‘ جبکہ پا کستان میں روپیہ محفوظ نہیں ہے اور ڈاکو دن دہاڑے بینکوں سے کروڑوں لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان کی آزمودہ سیاسی قیادت کے ساتھ ‘جو سلوک اختیار کیا جا رہا ہے‘ اس پر تشویش ہے‘‘ کہ اسے منی لانڈرنگ اور کرپشن جیسے فروعی الزامات میں سزا دینے کی تیاری ہو رہی ہے کہ کالے پیسے کو سفید کرنا تو ویسے بھی ثواب کا کام ہے‘ بلکہ قوم اس کی شکر گزار ہو کہ اس نے پیسے کی کالک کو ختم کیا۔ آخر اس کالک کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پر تکلف افطار ڈنر سے خطاب کر رہے تھے۔
پوری قوم کو معلوم تھا‘ شیخ رشید کا فیصلہ کیا آنا ہے: مریم
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ”پوری قوم کو معلوم تھا شیخ رشید کا فیصلہ کیا آنا ہے‘‘ بالکل اسی طرح جیسے پوری قوم جانتی ہے کہ ہمارا کیا فیصلہ آنا ہے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قوم ذہنی طور پر کس قدر پختگی حاصل کر چکی ہے اور یہ خداداد استطاعت بھی حاصل کر چکی ہے کہ مستقبل میں کیا ہونا ہے۔ حیرت ہے کہ مسلم نجوم کا اتنا بڑا خزانہ اس نے کہاں سے اور کیسے حاصل کر لیا‘ تاہم اسے ابھی اس بات کا صحیح اندازہ نہیں ہے کہ ہم لندن سے واپس بھی آئیں گے یا نہیں‘ ویسے یہ کوئی آنا مشکل کام بھی نہیں ہے کہ ہر کسی کے انجام کا اندازہ اس کے اعمال ہی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے وہ فیصلہ سننا گوارا ہی نہیں کیا‘‘ اور نہ ہی ہم اپنا فیصلہ سننا گوارا کریں گے‘ کیونکہ جس بات کا پہلے سے ہی علم ہو‘ اس میں کیا دلچسپی باقی رہ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز ایوان عدل میں اپنے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے ریٹرننگ افسران کے سامنے پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی میں ہر طبقے کے افراد شامل ہیں: زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی میں ہر طبقے کے افراد شامل ہیں‘‘ اور جن میں غریب لوگوں کی تعداد زیادہ ہے‘ جبکہ بہت سوں کو ہم نے خود بھی غریب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے‘ کیونکہ دولت جیسی نعمت سے اس ملک اور اس کے لوگوں کو چھٹکارا دلایا ہے۔ اس کا مقابلہ ن لیگ بھی نہیں کر سکتی؛ اگرچہ وہ دعوے بہت بڑے بڑے کرتی ہے اور اس دوران اگر کچھ لوگ دوبارہ باہر ہو گئے ہوں تو ہم ان کی خدمت کے لئے پھر سے حاضر ہیں‘ کیونکہ دراصل یہ غریبوں کی پارٹی ہے۔ اس لیے ہم ان کی تعداد میں حسب ِاستطاعت ‘یعنی جب بھی ہمیں اقتدار ملے اضافہ کرتے رہتے ہیں ؛تا کہ ہماری پارٹی پھلے پھولے۔ اور اگر خدا نے چاہا ‘تو اسی طرح ہم پورے پاکستان کی آبادی کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کے قابل ہو جائیں گے؛ حتیٰ کہ کوئی سرمایہ دار کہیں دور دور تک نظر ہی نہیں آئے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ن لیگ امیدواروں کے انٹرویو کرنے والی واحد جماعت ہے: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”ن لیگ امیدواروں کے انٹرویو کرنے والی واحد جماعت ہے‘‘ بلکہ ہم تو ڈی پی اوز کی تعیناتی کے لئے بھی ان کے انٹرویو کرتے ہیں اور یہ فریضہ برخوردار حمزہ شہباز سے زیادہ اور کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا ‘کیونکہ ان کے ساتھ معاملات بھی طے کرنا ہوتے ہیں‘ جبکہ امیدواروں کے انٹرویوز کا سلسلہ توو ہم نے چوہدری نثار صاحب کو خوش اور مطمئن کرنے کے لئے شروع کیا تھا‘ لیکن وہ تشریف ہی نہ لائے‘ بلکہ الٹا دھمکیاں دینے لگ گئے ہیں کہ اگر انہوں نے منہ کھول لیا تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہیں گے؛ حالانکہ ہم پہلے ہی اس قابل کہاں رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”امیدواروں سے عوامی خدمت بارے سوال کیے گئے ‘‘ کیونکہ انہوں نے آخر الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرنے ہیں‘ تو کیا انہوں نے عوامی خدمت بھی کماحقہ کی ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹ پر ایک پیغام نشر کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے!
تن ِبے جان میں اب جان کہاں سے آئے
اس کھنڈر میں کوئی مہمان کہاں سے آئے (رانا سعید دوشی)
تم اس حرابے میں چار چھے دن ٹہل گئی ہو
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
کسی کے آنے سے ایسے ہلچل مچی ہے مجھ میں
خاموش جنگل میں جیسے بندوق چل گئی ہو
ہمارا ملبہ ہمارے قدموں میں آ گرا ہے
پلیٹ میں جیسے موم بتی پگھل گئی ہو (عمیر نجمی)
ذرا سی بات پر باتیں بنانی پڑ رہی ہیں
مزہ یہ ہے اسے قسمیں بھی کھانی پڑ رہی ہیں
اسے ضد ہے نہ اس سے بات کوئی بھی چھپائوں
کئی باتیں تو خود سے بھی چھپانی پڑ رہی ہیں (ضیا ضمیر)
اک زخم بے رفو سے مجھے اب پتا چلا
اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا (علی ارمان)
اضافہ اس میں کر لیتا ہوں اپنی بھی طرف سے کچھ
یہاں بس دیکھ لینا ہی تمہارا کافی ہوتا ہے
کبھی تو فائدہ بھی دینے لگ جائے گا وہ مجھ کو
کہ پہلے پہلے ویسے بھی خسارہ کافی ہوتا ہے (گل فراز)
ایک چٹائی‘ ایک پیالہ‘ اک چھالا
ہجرت کے سب رنگ سنبھال کے رکھے تھے (خمار میرزادہ)
آج کا مطلع
سمندر ہے کنارا کیوں نہیں ہے
مسافر ہے ستارا کیوں نہیں ہے